تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     25-11-2022

لندن پلان اور لہور منصوبہ

اس ہفتے دو دن لاہور گزارنے کا موقع ملا۔ عمران خان سے ملاقات ہوئی‘ کچھ اور دوستوں سے بھی۔ ایڈووکیٹ الیاس خان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی جہاں اصلی والے لیفٹ کے وہ کامریڈ جو اب خال خال ملتے ہیں‘ اُن سے بھی نشست رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ کے اگلے مرحلے کی تفصیلات طے کرنے میں شریک ہوا۔ ایک دن مزید رکنے کو دل چاہ رہا تھا لیکن اسد عمر وغیرہ کے خلاف دہشت گردی کے نئی FIRمیں ضمانت قبل ازِ گرفتاری کے لیے اسلام آباد واپس آنا پڑا۔ شہرِاقتدار میں مرکزِ اقتدار کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈول رہا ہے۔ مرزا غالبؔ کے بقول:
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
مارگلہ کی خون جما دینے والی ہوائیں ایک طرف‘ اب تو Silver Oaksکے اونچے درختوں کی سائیں سائیں بھی سازشی کہانیاں سُنا رہی ہے۔ اِن کہانیوں کو آگے بڑھانے کے لیے قصہ خوانی کے ماہرین نوحہ خوانی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ نجانے کیوں؟ مگر مجھے 12 اکتوبر 1999ء کا پچھلا پہر یاد آرہا ہے۔ 11 اکتوبرکو شہید بی بی کے مقدمے کی تاریخ تھی۔ تب احتساب عدالت میں ٹرائل کے لیے نواز شریف کے قانون نے ہائی کورٹ کے دو جج بٹھا چھوڑے تھے۔ مشہورِ زمانہ جسٹس ملک اور جسٹس کاظمی صاحب کا بینچ تھا۔ دوسرے بینچ میں جسٹس عباسی اور جسٹس چودھری(مرحوم) تھے۔ ہاؤس آف شریف کے ''احتساب الرحمن‘‘ نے نئے کئی ہزار Pagesکے ریفرنس بنائے۔ اور انہیں پریس کانفرنسسز میں کرپشن کے ثبوت بنا کر ٹرائل سے پہلے میڈیا ٹرائل مکمل کر دکھایا۔ ان بھاری فائلوں میں سے سینکڑوں Pagesایک ہی پیپر کے ڈبل پرنٹ تھے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں دوسرے‘ 100فیصد بلینک پیپرز تھے جن پر سرکاری مہریں لگی ہوئی تھیں۔ مگر کورے کاغذ پر نہ کوئی تحریر درج تھی نہ کوئی اعداد و شمار لکھے ہوئے تھے۔ اُن دنوں دریائے سوہاں کے کنارے واقع لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں فائلیں پڑھنے کے لیے فلڈ لائٹس لگا کر عدالتیں کھولی گئیں۔ اس پر ڈاکٹر اجمل نیازی (مرحوم) نے بڑا کاٹ دار کالم لکھا اور پھر کالم لکھنا بھگتا بھی۔ بھگتنا مشکل کام ہے اس لیے کمزور دل حضرات صیغۂ احتیاط میں قلم کاری کے بجائے قلم کاشت کاری کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کاشت کا منافع فصل دیتی ہے‘ اناج ایک منافع کا‘ بھوسہ مزید منافع کا۔ ایک منصوبے کے تحت میرے پاس مقدمات کی تیاری کے لیے وقت بچنے ہی نہیں دیا جاتا تھا۔ ایک ٹرائل صبح سے لنچ تک۔ دوسرا شام تک مگر اکثر Extended Court Hoursمیں جاری رہتا۔
12اکتوبر 1999ء کے لیے مجھے ایک سگریٹ بنانے والی تمباکو کمپنی نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ کے لیے وکیل مقرر کیا۔ انتقامی احتساب کے سیاسی مقدموں میں محض ایک دن کی تاریخ لینا K-2پہاڑ چڑھنے جیسا لگا۔ بہرحال اگلے دن ایبٹ آباد سے واپسی پر ہر ی پور میں ایک دوست نے لنچ رکھا ہوا تھا۔ ایبٹ آباد کا الوداعی نالہ کھوتا قبر والی پُلّی پہ آتا ہے۔ یہاں موبائل کی گھنٹی بجی‘ دوسری طرف سے حاجی نواز کھوکھر صاحب بول رہے تھے۔ کہنے لگے میں اور مخدوم امین فہیم صاحب آپ کے لاء آفس میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ آپ فوراً پہنچ جائیں۔ یہاں بڑی گڑبڑ ہو رہی ہے۔ میں نے پوچھا کیسی گڑ بڑ‘ کہنے لگے شاہراہِ دستور پر فوج آگئی ہے اور آپ کے لاء آفس کے سامنے عجیب چھائونی والی صورت حال ہے۔ میں نے مجید ڈرائیور کو Jeepروکنے کے لیے کہا۔ خود سٹیئرنگ پر بیٹھا ہری پور والے میزبان سے معذرت کی جو بہت مشکل سے قبول ہوئی اور ہری پور براستہ گرم تھون شارٹ کٹ ویران روڈ پر گاڑی دوڑا دی۔ تقریباً سوا گھنٹے بعد مارگلہ‘ گولڑہ سے لاء آفس پہنچ گیا۔ جو اُن دنوں پارلیمنٹ کے عین سامنے بلیو ایریا کی مین روڈ کے پہلے بلاک میں تھا۔ ہم تینوں پلازہ کی چھت پر چڑھ گئے۔ جہاں بچشمِ خود دو تہائی والے نواز شریف کے اقتدار کے مختلف مناظر دیر تک دکھائی دیتے رہے۔
نواز شریف License To Rule لے کر جدّہ گئے۔ جہاں سے لندن پلان نے اُن کے لیے اقتدار کا راستہ کھول دیا جس کی کچھ تفصیلات کسی اور وکالت نامہ میں ضرور شامل کروں گا۔ لاہور والوں نے نواز شریف کے Plateletsکی ہزار داستان والی فلم کھلی آنکھوں سے دیکھی۔ بیمار نواز شریف کو اپنی آنکھوں سے اگلے لندن پلان کے لیے Chartered طیارے میں پہنچانے کا منظر بھی دیکھا۔ اِس بار مگر ایک کے بعد دوسرا‘ تیسرا اور پھر چوتھا لندن پلان بھی نواز شریف کی سیاسی حاجت پوری کرنے میں ناکام رہا۔ لاہور منصوبہ دوسرے لندن پلان کے ذریعے صرف رجیم چینج تک کامیاب ہو سکا۔ اس کے بعد سیاست کے کاروباری ایلیٹ مافیا کے بجائے لندن پلان قدرت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور پھر میر تقی میرؔ کے آفاقی لفظ گونج اُٹھے؛
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
لاہور منصوبہ اور لندن پلان دونوں پلٹ گئے۔ ایک ہی مہینے میں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بذاتِ خود لندن والوں کے لیے معتبر سے مشتبہ بن گئے۔ آپ اسے قدرتی انصاف (Natural Justice) کی جانب سے Suo Motoبھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک چھوٹے بھائی کو ڈیلی میل کے رپورٹر David Roseکے مقدمے میں ہزیمت اُٹھا کر Penalty بھرنا پڑی۔ یہ Financial Crime سے تعلق رکھنے والا معاملہ ہے جسے مغربی دنیا میں بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
جبکہ بڑے بھائی کوگھر کے بھیدی نے لندن سے گھر والوں سمیت بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ویسے Sicilianمافیا اور Italianمافیا دونوں بین الاقوامی جرائم کے کرتا دھرتا مانے جاتے ہیں۔ جو لوگ لندن پلان اور لہور منصوبہ کی روشنی میں عمران خان کے ہاتھوں میں تلوار پکڑا کر اداروں سے جنگ کروانا چاہتے تھے‘ کل شام سے اُن کے جبڑے ڈھلکّنا شروع ہو گئے۔ ہاں یاد آیا‘ (ن) لیگ کو ہر بات پر مٹھائی کھانے کی بہت جلدی ہوتی ہے۔ امید ہے وکالت نامہ چھپنے تک وہ مٹھائی کھا بھی چکے ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved