تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     25-11-2022

سیاسی رسہ کشی اور نئی تعیناتی

ملک میں سیاسی رسہ کشی عروج پر ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت اور رہنما ہر روز پریس کانفرنسوں میں اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خوب لتے لیتے ہیں۔ اُن کا یہ طرزِ عمل عوام میں بھی اسی رویے کو پروان چڑھا رہا ہے۔ عوام میں پہلے ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کی جو اچھی عادت موجود تھی وہ سیاستدانوں کے حالیہ کچھ برسوں میں اپنائے گئے طرزِ عمل کی وجہ سے مفقود ہو چکی ہے۔ سیاستدانوں کی طرح عوام میں بھی عدم برداشت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ایک دوسرے کے مشکل حالات کے مزے لینے والے خدا جانے کس مغالطے کا شکار ہیں کہ ان کا یہ طرزِ سیاست اُنہیں کمزور ہی نہیں کررہا بلکہ بچے کھچے جمہوری اقدار کے بھرم کوبھی وینٹی لیٹر پر لے آیا ہے۔عدم برداشت‘انتشاراور انتقام کی سیاست میں اس قدر آگے نکل آئے ہیں کہ پارلیمنٹ بے معنی اور غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ معاملات ایوانوں کے بجائے سڑکوں‘ چوراہوں‘ لانگ مارچوں اور دھرنوں کے رحم و کرم پر آچکے ہیں۔یہ رویے آنے والے دنوں میں سیاستدانوں کو کن حالات سے دوچار کرنے والے ہیں اگر اس کا اندازہ انہیں ہوجائے تو شاید ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے کے بجائے اس سسٹم کو بچانے کیلئے بھاگتے نظر آئیں جو ان کے طرزِ سیاست کی وجہ سے آخری سانسوں پر ہے۔
گزشتہ سالوں میں یہ چہ مگوئیاں اور بحث برابر چلتی رہی ہے کہ کیا یہ طرز ِحکومت اور سیاستدان ڈِلیور کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں یا انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا ؟ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں آج بھی کمی نہیں آئی ہے کہ سیاستدانوں کو کہیں ناکام اور نا اہل قرار دے کر آئین کو ریسٹ پر تو نہیں بھیجا جا رہا ؟ کیا صدارتی نظام یا کوئی اور متبادل نظام آنے والا ہے اور اگر ایسا ہے تو آنے والا طرزِ حکمرانی کیسا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اور اہمیت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ رہی بات پارلیمنٹ اور اس کی کارکردگی کی تو وہ سب کے سامنے ہے۔ سرکاری خرچ پر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نکلنے والے رکنِ اسمبلی کی گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی اس کااپنا میٹر ڈائون ہوجاتا ہے۔ پھر اجلاس میں شرکت سے لے کر اُن کے اختتام تک اُس کے کھانے‘ پینے اور رہنے کے اخراجات کا سارا بوجھ قومی خزانے پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بدلے ارکانِ اسمبلی نے آج تک اس ملک و قوم کو کیا دیا؟ اس کا جواب اسمبلی کا کوئی بھی اجلاس اور اس کا منظر دیکھ کر مل سکتا ہے۔ ماسوائے قانون سازی اور مفاد عامہ کے وہ سب کچھ ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا‘کڑھتا اور شرمسار ہوتاہے کہ انہیں اسی لیے ووٹ دیا تھا کہ ان کے نمائندے ذاتی مفادات اور تحفظ کے لیے ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالیں اوردست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہ کریں ؟
اس طرزِ سیاست کی قیمت آج نہیں تو کل سیاسی اشرافیہ کو چکانا پڑ سکتی ہے‘جس نظام کی چولیں یہ سبھی مل کر ہلا چکے ہیں وہ کہیں ان پر ہی نہ آن گرے۔ایسی صورت میں یہ سبھی نہ صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے بلکہ وہ بھگدڑ مچے گی کہ انہیں کچھ سجھائی بھی نہیں دے گا۔ اس تناظر میں مستقبل کا منظرنامہ اگر چشم تصور میں لایا جائے تو شوقِ اقتدار کے ہاتھوں مجبورایک دوسرے سے دست وگریباں اورگتھم گتھا یہ سارے سیاستدان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے‘ ایک دوسرے کی ڈھال بنے یک زبان ہو کر میثاقِ مصیبت کے نام پر اکٹھے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ مصیبت ہے جو عوام سے تغافل‘ بد عہدی اور بے وفائی کے نتیجے میں ان سب پر نازل ہونے والی ہے اور یہ سب مل کر اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے میثاق ِمصیبت کرتے نظر آئیں گے۔2013 ء کے عام انتخابات کے بعد ملکی سیاست میں ایسا بھونچال آیا کہ ہر طرف انتشار‘ انتقام اور شدت پسندی نے رہی سہی قدریں اور رواداریاں بھی بھسم کرڈالیں۔ عمران خان نے بمشکل سال گزارا اور مبینہ دھاندلی کے خلاف اگست 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ کیا اور وہاں 126 دن کا دھرنا دیا۔ اس دھرنے سے جڑواں شہروں میں نظام زندگی مفلوج رہا جبکہ اس کے ملکی معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے وہ اس کے سوا ہیں۔ شنید ہے کہ دھرنے والا تجربہ خان صاحب ایک بار پھر دہرانے جارہے ہیں۔ 2014ء کا طرزِ سیاست آج کئی گنا اضافوں کے ساتھ جاری اور ملک و قوم کو نت نئی مشکلوںاور آزمائشوں سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف کا طرزِ سیاست سونامی بن کر 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو اقتدار میں تو لے آئی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا عوام نئے پاکستان سے عاجز آتے چلے گئے اور پھر یہ وقت بھی آیا کہ لوگ نئے پاکستان سے پناہ مانگتے اور پرانے پاکستان کو یاد کرتے نظر آئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بنی کہ دھرنے اور طویل سیاسی جدوجہد کرنے والی تحریک انصاف کہیں بکھرتی چلی گئی اور اس کے اصل چہرے پس منظر میں چلے گئے اور قصہ پارینہ بن گئے۔ گویا منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اور جنہیں عمران خان نے شریکِ اقتدار کیا وہ ہرگزرتے دن کے ساتھ ان کے لیے نت نئی مشکلات کھڑی کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔
مملکتِ خداداد کی سیاست اور عوام الناس کا کمال اعجاز ہے کہ ساکھ اور کارکردگی کے بغیر مقبولیت کے مینار پر ایسے چڑھاتے ہیں کہ اچھے اچھوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ کوئی قائدِ عوام تو کوئی مردِ مجاہد بن بیٹھتا ہے۔ کوئی امیر المومنین بننے کے خواب دیکھنے لگتا ہے تو کوئی خود کو چاروں صوبوں کی زنجیر تصور کر لیتا ہے۔ کوئی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی پاکستان کھپے کا۔ تبدیلی کا سونامی ہو یا من مانی کی حکمرانی‘ یہ سبھی روپ بہروپ عوام کے دم قدم سے ہیں‘ وہ جسے سر پہ بٹھاتے ہیں اسے بلندیوں کے آسمان تک پہنچا دیتے ہیں اور جب گراتے ہیں تو نظروں کے ساتھ ساتھ ہر مقام سے گرا دیتے ہیں اور گرے ہوئے کو دوبارہ اٹھا کر اپنے سر پر مسلط کرنے کا سہرا بھی عوام کے سر ہی ہے۔ بار بار دھوکے کھانے کی لت عوام کو اس طرح لگ چکی ہے کہ ہر بار آزمائے ہوئے کو بار بار آزمانا اور دھوکے پہ دھوکا کھانا عوام کی خوراک بنتا چلا آرہا ہے۔ انہیں دھوکا نہ ملے تو چین نہیں پڑتا۔ دھوکا کھانے کے لیے دھوکے بازوں کو ڈھونڈ نکال لاتے ہیں۔ بھلے اس کے پلے کچھ بھی نہ ہو۔
چلتے چلتے ذکر نئی تعیناتیوں کا۔ صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز اہم تقرریوں سے متعلق سمری پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر ہوگئے ہیں۔نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر منگلا ٹریننگ سکول سے پاس آؤٹ ہوئے اور انہوں نے فوج میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف ہیں جو ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی میں رہ چکے ہیں۔ وہ پہلے آرمی چیف ہیں جو اعزازی شمشیر یافتہ ہیں۔ وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔جبکہ نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے فوجی کیریئر کا آغاز 8 سندھ رجمنٹ سے کیا اور وہ پی ایم اے سے تربیت مکمل کرکے پاک فوج میں شامل ہوئے ہیں جب کہ فور سٹار جنرلز کی تعیناتی کی سنیارٹی لسٹ میں جنرل ساحر دوسرے نمبر پر تھے۔جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ٹی ٹی پی اور دیگردہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشنز سپروائز کیے اور وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں بھی متحرک کردار ادا کرتے رہے۔ آرمی چیف مملکت خداداد کی جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی انتشار اور درپیش دہشت گردی کو لے کر اسی مخصوص پالیسی کا حامل ہوتا ہے جو ریاست کے مفاد میں ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ آرمی چیف کسی سیاستدان اور سیاسی پارٹی کا نہیں ہوتا وہ پاک فوج کا سپہ سالار اور وطن عزیز کا محافظ ہوتا ہے اور نئے آرمی چیف ملکی سلامتی کو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved