تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     26-11-2022

سیاست کو خدا حافظ

اردو شاعری کی روایت میں وقتِ رخصت جانے والا چپ رہتا ہے مگر فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے دمِ رخصت ایک حیران کن اور تاریخ ساز خطاب کیا۔ اس خطاب میں اعتراف بھی ہے‘ احتساب بھی ہے‘ عہد و پیمان بھی ہے‘ گلہ شکوہ بھی ہے‘ شاخِ زیتون کی جھلک بھی ہے۔ صبرِ ایوب کا تذکرہ بھی ہے اور یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔اس تاریخی تقریر میں علی الاعلان تسلیم کیا گیا ہے کہ 70 برس سے فوج سیاست میں براہِ راست اور بالواسطہ مداخلت کرتی چلی آئی ہے اور انہوں نے اقرار کیا کہ یہ مداخلت غیرآئینی تھی۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ جب فروری 2021 ء میں فوج نے من حیث الادارہ یہ فیصلہ کر لیا کہ آئندہ سیاست میں ہم دخل اندازی نہیں کریں گے تو بعض حلقوں نے اس پر انتہائی نامناسب اور غیرشائستہ زبان استعمال کی۔ جنرل صاحب نے اگرچہ کسی سیاستدان کا نام نہیں لیا مگر اشارہ نہایت بلیغ و فصیح تھا۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے فوج کے نیوٹرل ہونے کو سراہنے اور سیاست کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دینے کے تاریخی اقدام کی تعریف و توصیف کے بجائے اپنے پرانے محسنوں کو انتہائی نامناسب القابات سے نوازا۔ یہاں تک کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے اور اپنے مہربانوں کے لیے میر جعفر اور میر صادق تک کے الفاظ استعمال کیے۔ خان صاحب کی اس گرم گفتاری کا اصل سبب بقول شاعر یہ تھا:
کارفرما تھا جو دستِ غیب کیوں جاتا رہا
جنرل باجوہ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اقتدار سے محرومی کے موقعے پر ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ایک ہیجان پیدا کیا گیا کہ انہیں اقتدار سے محروم کرنے کے لیے کوئی بیرونی سازش ہوئی ہے۔ جنرل صاحب نے زور دے کر کہا کہ ملک میں بیرونی سازش ہو اور فوج خاموش رہے یہ ناممکن بلکہ گناہِ کبیرہ ہے۔
عمران خان نے تحریک عدمِ اعتماد کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو امپورٹڈ کا لقب دیا اور کہا کہ یہ امریکی سازش تھی اور اسے ملک کے محافظوں نے پروان چڑھایا۔ اب خان صاحب نے دونوں الزامات سے راہِ فرار اختیار کر لی ہے۔
الوداعی خطاب میں ایک انتہائی معزز و محترم ادارے کی حیثیت سے اعتراف کے لیے بلند حوصلے اور اخلاقی جرأت کی ضرورت تھی۔ جنرل صاحب نے سیاست میں مداخلت کے الزام کو قبول کرتے ہوئے تفصیل کے بجائے اجمال اختیار کیا ہے؛ تاہم انہوں نے کہیں کہیں اغماض و گریز یا مصلحتاً تغافلِ عارفانہ سے کام لیا ہے۔ مثلاً انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آر ٹی ایس کی خرابی کا عذر بنا کر جیتنے والی پارٹی کو سلیکٹڈ کہا گیا۔ یقینا جنرل صاحب کو معلوم ہو گا کہ بات اتنی سادہ نہ تھی۔ آنے والے کو لانے کے لیے برسوں سے درپردہ اور سرعام کوششیں کی جا رہی تھیں۔ تاہم ہمیں باجوہ صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ماضی کی راکھ میں شعلہ و چنگاری کی جستجو لاحاصل ہو گی۔ اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
سوچ بچار کے بعد جنرل صاحب کی تشخیص بالکل درست ہے کہ گاہے گاہے فوج پر عوامی تنقید کا سبب اس کی سیاست میں مداخلت ہے۔ فوج نے من حیث الادارہ درست علاج تجویز کیا ہے کہ ہم سیاسی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر رہے ہیں۔جنرل باجوہ نے سچ کہا کہ ہم نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ اب سیاستدان اورسول سوسائٹی بھی اپنی خطائوں کا اقرار کرے اور اُن سے سبق سیکھے۔
جنرل صاحب نے فوج کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ بھی کچھ اہم امور کا ذکر کیا ہے۔ واقعی فوج کو ریکوڈیک اور کارکے جیسے تنازعوں کو حل کرنے‘ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے اور دوست ممالک سے سستی گیس خریدنے اور آسان قرضوں وغیرہ کے حصول کا کریڈٹ جاتا ہے مگر جنرل صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ سیاستدانوں کے کام انہیں کیوں کرنا پڑے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک درخشاں مستقبل کی تصویرکشی کرتے ہوئے ماضی کے کچھ زخموں کو بھی کریدا ہے۔ انہوں نے بالکل بجا فرمایا کہ 1971 ء کے مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کی تعداد 92 ہزار نہیں 34 ہزار تھی۔ فی الواقع اس فوج نے دادِ شجاعت دی تھی۔ یقینا قوم کو اس زمانے کے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔
البتہ تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مشرقی پاکستا ن کی علیحدگی اور سقوطِ ڈھاکہ میں سیاستدانوں کی خامیاں بھی شامل تھیں مگر مارچ 1971 ء میں بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاسوں کو طلب کر کے منعقد نہ کرنا اور مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی ساری ذمہ داری اس وقت کے مختار کل صدر اور آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ پر عائد ہوتی ہے۔ 22 فروری 1971 ء کو یحییٰ خان نے فوجی گورنروں اور مارشل ایڈمنسٹریٹروں کا اجلاس طلب کیا۔ مشرقی پاکستان سے لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب اور وائس ایڈمرل احسن کو بھی شرکت کے لیے بلایا گیا تھا۔
''A Stranger in My Own Country‘‘ کے مصنف جنرل خادم حسین راجا نے لکھا ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کی ذمہ داری سیاست دانوں پر نہیں اس وقت کے فوجی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ بریگیڈیئر صدیق سالک شہید اپنی کتاب ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے صفحہ نمبر 47 پر لکھتے ہیں کہ راولپنڈی روانہ ہونے سے دو روز قبل 19 فروری 1971 ء کو صاحبزادہ یعقوب علی خان نے مجھے بلایا اور حالاتِ حاضرہ پر بات کرنا شروع کی۔ دورانِ گفتگو انہوں نے صدر یحییٰ خان کے بارے میں اپنی دوررس نگاہوں سے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ تعطل (بھٹو‘ مجیب) جاری رہا اور نتیجتاً فوجی کارروائی ناگزیر ہو گئی تو یہ تباہ کن ہو گا۔ یحییٰ خان علیحدگی کے عمل میں تاخیر کرنے کے لیے کارروائی کریں گے تو اس سے علیحدگی کا عمل تیز تر ہو جائے گا‘ بعد کے حالات نے جنرل یعقوب علی خان کے تجزیے کو درست ثابت کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اُس وقت سیاست دان لچکدار رویہ اختیار کرتے اور جنرل آغا یحییٰ خان فہم و فراست سے کام لیتے تو سانحہ مشرقی پاکستان سے بچا جا سکتا تھا۔ آج فوج نے ماضی کی بہت سی غلطیوں کا کھلے دل سے اقرار کرلیا ہے اب سیاستدانوں کو بھی بلاتاخیر اپنی خطائوں اور انائوں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔
جمعرات کے روز ایک اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے سینئر موسٹ جنرل سیّد عاصم منیر کو اگلے تین برس کے لیے آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔ جنرل عاصم حافظ قرآن ہیں۔ متانت و دیانت اور فوجی مہارت اُن کا طُرّہ امتیاز ہے۔ دوسرے سینئر موسٹ جنرل ساحر شمشاد کی بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تقرری کر دی گئی ہے۔ صدر پاکستان عارف علوی نے بلارکاوٹ وزیراعظم کی سمریوں پر دستخط کر دیے ہیں اور یوں یہ مرحلہ بخیر و خوبی تکمیل کو پہنچا ہے۔ بقولِ فیض احمد فیض:روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔اب دیکھیے 26 نومبر بروز ہفتہ جناب عمران خان راولپنڈی میں کیا سرپرائز دیتے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ خان صاحب دور اندیشی اور دانش مندی سے کام لیں گے اور فوج کے سیاست کو خیرباد کہنے کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کر لیں گے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ جناب عمران خان معیشت کو سنبھالا دینے اور جمہوریت کے استحکام کے لیے کھلے دل و دماغ کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved