تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     26-11-2022

بیعت و ارشاد …(حصہ دوم)

حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہی بیعت کی دعوت رسول اللہﷺ صحابۂ کرام کو بھی دیتے تھے: ''حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں: ہم ایک مجلس میں تھے، رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا: تم ان شرائط پر میری بیعت کر لو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو (فقر و فاقہ کے خوف سے) قتل نہیں کرو گے، بہتان تراشی نہیں کرو گے، کسی نیک کام میں نافرمانی نہیں کرو گے، پس جو تم میں سے بیعت کی ان شرائط کو پورا کرے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے اور جو ان میں سے کسی معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل جائے تو یہ اس کے گناہ کا کفارہ ہو جائے گا اور جو ان میں سے کسی معصیت کا ارتکاب کرے اور اللہ (اس کے عیب پر) پردہ ڈال دے، تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو اُسے سزا دے، چاہے تو معاف فرما دے‘‘ (بخاری: 7213)۔
عہدِ رسالت مآبﷺ کے بعد امارت و خلافت کی بیعت تھی۔ اسے ہم ''اعتماد کے ووٹ‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ یہ بیعت مشروط تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں، پس اگر تمہارا (صاحبانِ امر سے) کسی بات میں اختلاف ہو جائے تو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو (حتمی فیصلے کے لیے) معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، یہی شعار بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے‘‘ (النساء: 59)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت غیر مشروط ہے اور اس سے اختلاف کی کسی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن صاحبانِ اختیار کی اطاعت مشروط ہے، اُن کے ساتھ اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور بصورتِ اختلاف حتمی فیصلے کے لیے معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ اسی اصول کو ان احادیث میں بیان کیا گیا ہے: (1) ''کسی ایسے معاملے میں حاکمِ وقت کی اطاعت لازم نہیں ہے، جس میں اللہ کی معصیت لازم آتی ہو، (حاکم کی اطاعت) صرف معروف کاموں میں لازم ہے‘‘ (مسلم: 1840)، (2) ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: (حاکم کی) صحیح بات کو سننا اور اس پر عمل کرنا حق ہے، جب تک کہ وہ معصیت کا حکم نہ دے اور جب وہ معصیت کا حکم دے تو اس کے حکم کو سن کر قبول کرنا اور اس کی اطاعت کرنا لازم نہیں ہے‘‘ (بخاری: 2955)۔
بیعتِ امارت و خلافت کے حوالے سے رسول اللہﷺ کے پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اولین خطبۂ خلافت مشعلِ راہ ہے۔ مَنہَج خلافت کے لیے جادۂ مستقیم ہے، اس میں رہنمائی ملتی ہے کہ امیر المومنین اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کی حدود و قیود کیا ہیں؛ چنانچہ انہوں نے فرمایا: ''لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں، حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے افضل (ہونے کا مدعی) نہیں ہوں، اگر میں شعارِ نبوت کے جادۂ مستقیم پر ٹھیک ٹھیک چلوں تو تم پر میری اعانت لازم ہے اور اگر (بفرضِ مُحال) میں راہِ راست سے ہٹ جائوں تو تم مجھے سیدھا کر دو، سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں سے جو (بظاہر) کمزور ہے، وہ درحقیقت میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ ان شاء اللہ میں (ظالم سے) اُس کا حق لے کر اُسے واپس لوٹا دوں اور تم میں جو بظاہر بڑا طاقتور ہے، وہ میرے نزدیک (سب سے) کمزور ہے تاوقتیکہ ان شاء اللہ میں اُس سے (مظلوم کا) حق واپس لے لوں۔ جو قوم ''جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کوچھوڑ دیتی ہے، اللہ تعالیٰ (اس کے وبال کے طور پر) اُس پر ذلت و خواری مسلّط فرما دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی و بدکاری کی وبا پھیل جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر مصیبتیں نازل فرما دیتا ہے، اچھا! اب نماز (باجماعت)کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے‘‘ (تاریخ الخلفا للسیوطی بحوالہ سیرۃ ابن اسحاق)۔ اس عظیم الشان خطبۂ خلافت میں اسلامی نظام امارت و خلافت کی حدود، دائرۂ کار اور فرائض کا واضح طور پر تعین کر دیا ہے۔ ہم سطور ذیل میں ان میں سے چند امور کی ضروری وضاحت درج کر رہے ہیں:
اطاعت امیرکی حدود: اسلام میں خلیفۂ برحق اور شرعی طور پر مُجاز حاکم و امیر کی اطاعت بلاشبہ لازم ہے اور رعایا میں سے جو بھی فرد خلیفۂ برحق کی اطاعت سے عدول و خروج کرے، وہ باغی کہلاتا ہے۔ لیکن یہ اطاعت غیر محدود اور غیر مشروط نہیں ہے، بلکہ یہ اطاعت صرف اسی صورت میں اور اس وقت تک لازم ہے جب تک خلیفہ یا امیر یا حاکم اعلیٰ کے احکام، اطاعتِ الٰہی اور اطاعت رسول کے دائرے میں ہوں اور اگر امیر خود ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی مقررہ حدود کی حرمت کو پامال کرے، تو اس کی اطاعت ہرگز لازم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہﷺ نے ایک ابدی اور دائمی ضابطہ بیان فرما دیا ہے: ''کسی ایسے معاملے میں مخلوق (خواہ وہ سربراہ مملکت وحکومت ہی ہو) کی اطاعت تم پر لازم نہیں ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو، اطاعت تو صرف نیک کاموں میں لازم ہے‘‘ (صحیح مسلم: 1840)۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مقتدر مطلق (Sovereign) نہ سربراہِ مملکت و حکومت ہے، نہ قاضی القضاۃ (Chief Justice)، نہ پارلیمنٹ اور نہ عوام۔ مُقتدِرِ مُطلق (Absolute sovereign) صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور غیر مشروط اطاعت و اتباع صرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی لازم ہے، اسی کو قرآن نے ''حاکمیتِ الٰہیہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے تمام سلوگن کہ ''اقتدار کا سر چشمہ عوام ہیں‘‘ یا اقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty) پارلیمنٹ کو حاصل ہے‘‘ درست نہیں ہیں۔ اسلام میں ہر سطح کا اقتدار و اختیار مشروط، خلافتِ الٰہی اور نیابتِ رسول کی مقررہ حدود کا پابند ہے، اسی اصول کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کی آیت 59 میں بیان فرمایا ہے۔
عوام کی ذمہ داری: حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا: ''اگر (بالفرض) میں غلط روش اختیار کروں تو تم مجھے سیدھا کر دو‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ عامّۃ المسلمین بالخصوص اہل الرائے اور اہل فکر و نظر پر یہ شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو امورِ مملکت و حکومت سے الگ تھلگ نہ رکھیں، حاکمِ وقت پر کڑی نظر رکھیں، وہ شریعت کے جادۂ مستقیم پر رواں دواں ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایات و حدود پر سختی سے کاربند ہے تو حمایت حق کے لیے اس کے دست و بازو بن جائیں، اگر خدا نخواستہ وہ راہ راست پر نہیں ہے، حق کو ٹھکرا رہا ہے، حدود الٰہی کو پامال کر رہا ہے، تو اجتماعی قوت سے اُسے راہِ راست پر لائیں، لیکن اگر اصلاح و ہدایت کی آوازِ حق کے لیے وہ اندھا اور بہرا بن گیا ہے تو اسے معزول کر دیں۔ کچھ لوگ اپنے تقوے اور پارسائی پر ناز کرتے ہیں اور گرد و پیش میں کچھ بھی ہوتا رہے، اس سے الگ تھلگ رہتے ہیں، ایسے لوگوں کی توجہ کے لیے احادیث پیش خدمت ہیں: (1) ''حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم اس رب ذوالجلال کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، ورنہ بعید نہیں کہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل فرمائے، پھر تم ضرور دعائیں بھی کروگے، لیکن وہ اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوں گی‘‘ (سُنن ترمذی: 2169)۔ (2) حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو، جبریل امین نے عرض کیا: اے اللہ! اس بستی میں تیرا فلاں(نیک اور پارسا) بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے) ربّ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: اس شخص سمیت پوری بستی کو الٹ دو، (کیونکہ اس کے سامنے میری حدود پامال ہوتی رہیں، لیکن اس کی غیرتِ ایمانی کبھی نہ جاگی، حدودِ الٰہی کو پامال ہوتا ہوا دیکھ کر) میری خاطراس کا چہرہ کبھی غضب آلود نہ ہوا‘‘ (مشکوٰۃ: 5152)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی حد تک تو پارسا تھا، لیکن معاشرے میں فساد پیدا ہو رہا تھا، حدودِ الٰہی پامال ہو رہی تھیں، وہ اس سے لاتعلق رہا، نہ کبھی اس نے کسی ظالم کو ٹوکا، نہ ظلم سے اس کا ہاتھ روکا، نہ مظلوم کی داد رسی کی، تو مومن کا صرف خود متقی بن کر رہنا اُخروی نجات کے لیے کافی نہیں ہے، اس سے گرد و پیش کے بارے میں بھی سوال ہو گا۔
اسلامی حکومت کے قیام کا مقصد: تاریخ کے اکثر ادوار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ظالم طاقتور ہوتا ہے، وہ طاقت کے نشے میں چُور ہوتا ہے، اثر و رسوخ کا مالک ہوتا ہے، اس کے سامنے قانون بے اثر ہو جاتا ہے اور نظامِ عدل معطَّل و مفلوج ہو جاتا ہے اور رقص ابلیس کرتا ہے۔ حکومت الٰہیہ، خلافتِ ربّانی اور امارتِ اسلامی کے قیام کا اولین مقصد یہی ہے کہ ظلم کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکا جائے، نہ رکے تو اسے کاٹ پھینکا جائے۔ ''طاقت‘‘ کو معیارِ حق نہ بنایا جائے بلکہ ''حق‘‘ کی طاقت کو تسلیم کیا جائے۔ مظلوم چونکہ حق پر ہوتا ہے، اس لیے ریاست اپنی طاقت اس کے پلڑے میں ڈالے تاکہ ظالم حق کی طاقت کو تسلیم کر کے اس کے آگے سرنگوں ہو جائے اور مظلوم کو اس کا حق دینے پر راضی ہو جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں اسی فلسفۂ حکمرانی کوعمل کے قالب میں ڈھال کر دکھایا اور فرمایا: ''میرے نزدیک مظلوم طاقتور ہے تاوقتیکہ میں ظالم سے اس کا حق چھین کر اُسے دلا دوں‘‘، کیونکہ مظلوم کی فریاد میں اتنی تاثیر ہے کہ عرش الٰہی کو ہلا دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشادہے: ''مظلوم کی فریاد سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے‘‘ (بخاری: 1496)۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved