شنید ہے کہ کچھ لوگ پی ڈی ایم کے مقامی یعنی ملک میں موجود چند اہم لیڈران کے ساتھ ایک عشائیے پر اکٹھے تھے۔ موضوعِ گفتگو ایک ہی تھا‘ وہی عمران خان۔ دورانِ گفتگو کے پی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کہنے لگا ''آپ لوگ نجانے کیوں ہر وقت کپتان سے ڈرتے رہتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ اسے قتل کرنے کی کوشش کی گئی‘ اس کو گولیاں تو لگی ہیں‘ چاہے دو کہہ لیں یا چار‘ مگر سب کو پتا ہے۔ ایک دنیا یہ بات جانتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کا مذاق اڑایا گیا، عمران خان کی طاقت سب نے دیکھ لی کہ وہ اپنا مقدمہ بھی درج نہیں کرا سکتا۔ دنیا کا وہ کون سا ملک ہے‘ کون سا انٹرنیشنل میڈیا ہائوس ہے جو اس کا انٹرویو کرنے پاکستان نہیں پہنچا؟ لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس لیے آپ عمران خان سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اپنے قدم مضبوط کریں‘‘۔
خبریں ایک بار پھر بڑے زور شور سے گردش کر رہی ہیں کہ خدا نخواستہ عمران خان کو ایک بار پھر نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ نہ صرف اہم حلقے بلکہ حکومت کے بعض سینئر وزرا بھی بار بار عمران خان کو متنبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ ایجنسیوں کی رپورٹ ہے کہ عمران خان کو خطرہ ہے‘ راولپنڈی کا اجتماع ملتوی کیا جائے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے جلسے کے دوران دہشت گردی ہو سکتی ہے‘ 26 نومبر کا جلسہ ملتوی کیا جائے، جلسہ گاہ کی سکیورٹی سے متعلق ایڈوائزی بھی جاری کی گئی ہے، سخت سکیورٹی کے احکامات بھی دیے گئے ہیں‘ اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی الزام لگا رہی ہے کہ ہیلی کاپٹر کو پریڈ گرائونڈ میں اترنے کی اجازت نہ دے کر حکومت خود سکیورٹی مسائل کو بڑھا رہی ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے یاد آیا کہ جب وزیرآباد کے قریب عمران خان پر حملہ ہوا تو وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ اس کے لیے پنجاب حکومت ذمہ دار ہے جو عمران خان کے لانگ مارچ کو سکیورٹی فراہم کر رہی تھی مگر پھر چند ہی دنوں بعد اسلام آباد پولیس کے آئی جی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں یہ دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم کی سکیورٹی پر 266 اہلکار تعینات ہیں جن پر ماہانہ 2 کروڑ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ اگر اس دعوے کو درست تسلیم کیا جائے تو پھر حملے میں سکیورٹی کوتاہی کی ذمہ داری محض پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی پر ڈالنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ آئی جی اسلام آباد کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ایف سی، رینجرز، اسلام آباد پولیس، خیبر پختونخوا پولیس اور گلگت بلتستان پولیس کے علاوہ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کے اہلکار بھی سابق وزیراعظم کی سکیورٹی پر تعینات ہیں۔ اس پر پی ٹی آئی کی قیادت نے وزارتِ داخلہ سے تفصیلات بھی طلب کر رکھی ہیں۔ فواد چودھری صاحب کا ایک ردعمل یہ تھا کہ یہ سب کچھ عمران خان کے خلاف جاری پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، درجن بھر اہلکاروں اور سکیورٹی تھریٹ مراسلوں کے علاوہ وفاقی حکومت کا کوئی بندوبست دکھائی نہیں دیتا۔
کچھ لوگ چند ہفتوں سے ایک دعویٰ بڑے وثوق سے کر رہے ہیں کہ جلد ہی ایک کیس میںعمران خان کو نااہل قرار دے کر انتخابات کا بگل بجا دیا جائے گا۔ عمران خان کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا پروگرام یا خواہشات کوئی نئی نہیں بلکہ اس کے لیے گزشتہ چھ‘ سات برسوں سے مسلسل پلاننگ کی جا رہی اور مختلف سازشیں بُنی جا رہی ہیں۔ شاید لوگ بھول گئے ہیں کہ چند برس قبل لاہور میں‘ آپس میں سرجوڑ کر بیٹھے کون کون سے افراد نے نااہلی کا ایک کیس تیار کیا تھا۔ اس پر ایک صاحب کا کہنا تھا کہ بہت جلد میرے دستِ ہنر کا ڈنکا ہر جگہ بجتا سنائی دے گا لیکن یہ ساری چالاکیاں اور سازشیں ناکام ہو گئیں، لیکن اب پھر سے نیا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ سازشیں کرنے والے شاید تاریخ کا سبق بھول رہے ہیں۔ یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ بھٹو صاحب کو جب راولپنڈی جیل میں پھانسی دینے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں تو انہوں نے عدالت عالیہ کے روبرو کہا تھا کہ ''بھٹو اپنی قبر سے اس ملک پر حکومت کرے گا‘‘ اور پھر سب نے دیکھا کہ بھٹو کئی دہائیوں تک اپنی قبر سے اس ملک پر حکومت کرتا رہا اور یہ سحر اس وقت ٹوٹا جب مجاوروں نے اس قبر کا اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال شروع کر دیا۔ اس لیے عمران خان کو مخصوص مدت تک انتخابی دوڑ سے باہر رکھنے کی خواہش کرنے والے ذہن نشین رکھیں کہ اس قسم کی سازشیں انہیں اس قدر مہنگی پڑیں گی کہ ان کے تصور میں بھی نہیں۔ گو کہ ان لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں‘ ان کی ''قوتِ خرید‘‘ بھی سب سے زیادہ ہے لیکن وہ کہا جاتا ہے نا: تدبیر کند بندہ‘ تقدیر کند خندہ۔ ''انسان صرف کوشش کرتا ہے‘ لیکن تقدیر کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ جلد ہی انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ عمران خان نے جب بطور وزیراعظم اپوزیشن کو خبردار کیا کہ میں اقتدار سے نکل کر زیادہ خطرناک ہو جائوں گا تو سب نے ان کا مذاق اڑایا تھا مگر آج یقینا یہ سارے رہنمااس گھڑی کو پچھتاتے ہوں گے جب عدم اعتماد کا خیال ان کے ذہن میں آیا۔
پی ڈی ایم سمیت سبھی سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران ہونے والے سبھی ضمنی انتخابات اور تمام سروے رپورٹس نے ان کی جھنجھلاہٹ میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ اب انتخابی میدان میں وہ کپتان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حکومت کے محفوظ ایوانوں میں بیٹھ کر وہ بیان بازی کر سکتے ہیں‘ الزامات کا بازار گرم کر سکتے ہیں مگر عملی میدان میں اس وقت عمران خان کا مقابلہ کرنا نہایت دشوار ہے۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران کیا کیا قصہ نہیں چھیڑا گیا؟ کبھی فارن فنڈنگ کیس‘ کبھی توشہ خانہ فیصلہ، کبھی گھڑی کے بیچنے پر ہنگامہ تو کبھی توہین الیکشن کمیشن اور کبھی دہشت گردی کا مقدمہ۔ مگر مقبولیت کا گراف ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ عوام عمران خان کے خلاف کسی بھی چیز کو قبول ہی نہیںکر رہے۔ یہی فکر اور سوچ مخالفین کو دن رات کھائے جا رہی ہے۔ عمران خان کے مقابل سب کو اپنی دکانیں بند ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ مشترکہ طور پر ایسا بندوبست کیا گیا ہے کہ ہر طرف سے عمران خان کے خلاف ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ عمران خان نے یہ کر دیا‘ وہ کر دیا‘ معیشت برباد کر دی‘ خارجہ پالیسی تباہ کر دی‘ وغیرہ وغیرہ لیکن کسی پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ یہ عمران خان ہی ہے جس کی وجہ سے حکومت کی توجہ بھٹکی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ، بیروزگاری ، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں، فیکٹریوں کی آئے روز کی بندش، مہنگائی اور امن و امان جیسے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں، اب اگر کوئی مسئلہ باقی بچا ہے تو وہ صرف ایک شخص ہے‘ جس کا نام عمران خان ہے جس پر الزام تراشی کیلئے وزیراعظم صاحب سمیت وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج ظفر موج صبح شام بھاگ دوڑ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ساتھ کچھ ایکسٹراز بھی ہلا گلا کرتے رہتے ہیں کہ اگر کوئی ناکام ہو تو اسے تقویت دی جا سکے۔ اتحادی جماعتوں کا حال بھی مختلف نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یارولی‘ ایم کیو ایم‘ غرض کون ہے کہ عمران خان کا نام جس کے لبوں پر نہیں۔ ان جماعتوں کی اوپر سے لے کر نیچے تک کی قیا دت کی گفتگو سنیں تو ان کے تیروں کا رخ صرف ایک شخص کی جانب ہوتا ہے۔
آج کل عمران خان کو نہ صرف جمہوریت بلکہ ملک کا بھی دشمن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کوئی ہٹلر تو کوئی مسولینی سے ملا رہا ہے۔ ایک ایسی جماعت‘ جس پر کسی بھی قسم کے عسکری ونگ کا الزام نہیں ہے‘ جس پر مخالفین کو اٹھوانے‘ اغوا کرانے‘ یرغمال بنانے یا راستے سے ہٹانے کا ایک بھی الزام نہیں‘ اسی کو فسطائیت کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ملک کی کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس پر مذکورہ الزامات نہیں لگے۔ ایک دہائی پہلے تک کراچی میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا‘ مگر پی ٹی آئی کا دامن وہاں بھی ایسے الزامات سے آلودہ نہیں ہوا۔ جس کی جدوجہد سب کے سامنے ہے‘ آج وہی جماعت اور وہی لیڈر ملک اور جمہوریت کا دشمن بن چکا ہے‘ حالانکہ جمہور کی رائے حالیہ تمام سرویز میں نمایاں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved