ہم میڈیا بُوم کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ دور کب تک چلے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فی الحال اس بُوم کے ماند پڑنے کے آثار نہیں اور اِس بُوم کے ہاتھوں ہم فارسی والا بُوم بنے ہوئے ہیں۔ فارسی میں بُوم راتوں کو جاگنے والے اس پرندے کو کہا جاتا ہے مغرب میں جسے ذہانت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔معاشرے کے ہر طبقے اور ہر سطح کا آدمی اس بُوم کے ہاتھوں ایسی زندگی بسر کر رہا ہے جس میں معقولیت کے سوا سب کچھ ہے۔ بہت کچھ ہے جو ذہنوں میں ٹھونک دیا گیا ہے۔ کچھ ایسا بھی ہے جو لوگوں نے از خود نوٹس کے طور پر اپنے ذہنوں میں ٹھونکا ہے۔ انٹرنیٹ جیسی نعمت کو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک بہت بڑے عذاب میں تبدیل کیا ہے۔ انٹرنیٹ نے ہماری زندگی کا پورا ڈھانچا اور حلیہ بدل ڈالا ہے۔ اب تک تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ جب انٹرنیٹ اِس قدر عام نہ تھا اور اُس سے قبل سیٹلائٹ چینلز کا زمانہ جب نہیں آیا تھا تب ہم کس طور زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ ہم نے ایسے کئی ادوار گزارے ہیں جب انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ وہ طوفانِ بدتمیزی نہیں تھا جو اب ہماری راہ میں قدم قدم پر دیوار بن کر کھڑا ہے۔
جب سے آئی ٹی سیکٹر میں فقید المثال ترقی ممکن بنائی گئی ہے اور انٹرنیٹ نے ہماری زندگی میں قدم رکھا ہے تب سے ہم انجانے دباؤ کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم نے بخوشی اپنایا ہے۔ بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیشے یا کاروبار کے حوالے سے انٹرنیٹ کے محتاج ہیں۔ اُن کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے۔ اگر وہ ہر وقت سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں تو جواز بنتا ہے۔ عام آدمی کا حال بہت بُرا ہے۔ مسئلہ یہی تو ہے کہ سمارٹ فون کی غلامی اختیار کرنے کا جن کے پاس کوئی معقول جواز نہیں وہ بھی دن رات اِس غلامی میں مبتلا ہیں۔ سمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ پیکیج کے تحت دنیا بھر کی باتوں کو اپنے ذہن میں اُنڈیلنے کو لوگوں نے اپنے آپ پر فرض کرلیا ہے۔ نئی نسل کا معاملہ زیادہ بُرا ہے۔ اور بُرا کیا‘ جان لیوا حد تک خطرناک ہے۔ سمجھانے سے کوئی سمجھتا نہیں۔ انٹرنیٹ کی غلامی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سمارٹ فون کو زندگی کا ناگزیر حصہ مان لیا گیا ہے جبکہ در حقیقت معاملہ ایسا ہے نہیں۔ سوشل میڈیا پورٹلز کے ذریعے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ دیر دوسروں سے جوڑے رکھنا ایک باضابطہ ذہنی مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس مرض کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں ذہنی امراض اور نفسی امور کے ماہرین اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ عام آدمی کو بالعموم اور نئی نسل کو بالخصوص سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی لَت سے بچایا جانا چاہیے اور یہ کام جنگی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ بہت سے معاشروں میں اِس حوالے سے کام ہو بھی رہا ہے۔ لوگ ماہرین سے مشاورت کے ذریعے اپنے لیے انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے استعمال کا معقول معمول وضع کر رہے ہیں۔
ہمارے جیسے معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا سے جو کچھ بھی آتا ہے اُسے سوچے سمجھے بغیر اپنالیا جاتا ہے۔ متعلقہ بنیادی ڈھانچا نہ ہونے کے باوجود ہم ترقی یافتہ دنیا کی بہت سی چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں عام آدمی اب تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے اُس کی زندگی کو زنگ لگ رہا ہے اور وہ اپنی صلاحیت و سکت سے مطابقت رکھنے والی زندگی بسر کرنے سے قاصر ہے۔ معاشرے میں علم و فن سے محبت کی روایت انتہائی قابلِ رحم حالت میں ہے۔ ایک دور تھا کہ ہم علم و فن کے دلدادہ تھے اور ہر طرح کے علوم و فنون میں مہارت رکھنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب یہ رجحان برائے نام رہ گیا ہے۔ آج معاشرے کی عمومی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔ ہر شعبے کے انتہائی سطحی لوگ نمایاں ہیں اور اُنہیں ''قومی ہیرو‘‘ قرار دینے کی ''روایت‘‘ زور پکڑتی جارہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کم و بیش ہر شعبے میں ڈھنگ سے کچھ کرنے والے پیچھے رہتے ہیں اور اُن میں کام کرنے کی لگن بھی کمزور پڑتی جاتی ہے۔
کم و بیش دو عشروں کے دوران انفارمیشن بُوم کے نتیجے میں عام شخص کا یہ حال ہے کہ وہ ہر اُس معاملے میں غیر معمولی دلچسپی لیتا نظر آئے گا جس کا اُس سے بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر بھی کوئی تعلق نہیں۔ ویسے تو ہر انسان کے لیے سب سے قیمتی چیز وقت ہے مگر نئی نسل کا معاملہ سب سے بڑھ کر ہے۔ اُسے مستقبل کی تیاری بھی کرنا ہوتی ہے اور بڑھتی ہوئی عمر کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ وقت برباد کرنے پر تُل جائے تو؟ ایک نوجوان کے بگڑنے سے کئی زندگیاں بگڑتی ہیں۔ والدین آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ بیٹا کچھ کرے گا تو ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموار ہوگی۔ ایسے میں اگر بیٹا بگڑ جائے، وقت ضائع کرتا پھرے اور مستقبل کے لیے خود کو تیار کرنے کے بجائے فضولیات میں الجھ جائے تو؟ ظاہر ہے وہ خود بھی برباد ہوگا اور متعلقین کو بھی پریشان کرے گا۔ ہمارے ہاں کم و بیش دو عشروں سے یہی کیفیت برقرار ہے۔ نئی نسل اپنے حصے کا کام بھول کر ہر فضول معاملے میں دلچسپی لیتی نظر آتی ہے۔ توجہ تعلیم پر اور کوئی ہنر سیکھنے پر مرکوز ہونی چاہیے مگر اِس کے بجائے سوشل میڈیا پر فضولات دیکھنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔
ایک بڑی وبا یہ ہے کہ عام پاکستانی بہت کچھ بلکہ سب کچھ جاننا چاہتا ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی آتا ہے وہ سب کا سب دماغ کے پیالے میں اُنڈیلا جائے۔ ایسا کرنے کی کوئی منطق ہے نہ ضرورت۔ کسی بھی انسان کو بہت کچھ کیوں معلوم ہونا چاہیے؟ ہر انسان کو ترجیحاً صرف وہی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے جو اُس کے لیے لازم ہو یا پھر جو کچھ شخصیت کو پروان چڑھانے میں کچھ مدد دے سکتا ہو۔ سب کچھ جاننا سب کے لیے ناگزیر نہیں بلکہ کسی کے لیے بھی ناگزیر نہیں۔ ہمارا ذہن ایک انفارمیشن گودام ضرور ہے مگر اِس میں دنیا بھر کا کچرا ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کسی بھی انسان کا ذہن ڈھنگ سے اُسی وقت کام کرسکتا ہے جب اُس میں دنیا بھر کی چیزیں اُنڈیلنے سے گریز کیا جائے۔ ذہن کو حاصل شدہ معلومات کا تجزیہ کرکے فضول معاملات ایک طرف ہٹانا پڑتے ہیں۔ اگر کوئی دنیا بھر کی باتیں ذہن میں اُنڈیلتا رہے تو ذہن ہر وقت الجھا رہے گا۔ بہت سے معاملات سے انسان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے معاملات کو ذہن کا حصہ بنانے سے گریز کرکے اُسے ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل رہنے دیا جاسکتا ہے۔ ذہن کا الجھاؤ فیصلہ سازی کے عمل پر شدید منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ سیاست، معیشت، معاشرت، علوم و فنون اور دیگر معاملات میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو سب کے لیے نہیں ہوتا۔ عام آدمی کو سٹاک مارکیٹ کا کچھ خاص علم نہیں ہوتا کیونکہ وہ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتا ہے نہ وہاں کام کرتا ہے مگر پھر بھی بہت سوں کو سٹاک مارکیٹ کے معاملات میں غیر ضروری طور پر بہت زیادہ دلچسپی لیتے دیکھا گیا ہے۔ یہی معاملہ حکومتی یا ریاستی امور کا بھی ہے۔ اہم ریاستی امور کے فیصلے عام آدمی کے لیے نہیں ہوتے۔ اُس کا اِن معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لیے زیادہ سوچنے اور پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ سوشل میڈیا کی پوسٹس پڑھ پڑھ کر اہم ریاستی امور اور متعلقہ فیصلوں کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں۔ یہ محض بے عقلی اور بے ذہنی ہے۔
عام پاکستانیوں اور بالخصوص نوجوانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا پورٹلز کے ذریعے جو کچھ بھی اُن تک پہنچ رہا ہے اُس کا 90 فیصد اُن کے مزاج اور ضرورت کے مطابق نہیں۔ صرف وہی باتیں جاننی چاہئیں جن کا عمومی سطح پر زندگی اور خصوصی سطح پر پیشے، ملازمت یا کاروبار سے تعلق ہو۔ غیر متعلق امور کے بارے میں جاننے سے گریز ہی بہتر ہے۔ ایسی صورت میں ذہن پر بوجھ کم ہوگا اور وہ زیادہ آسانی سے اپنا کام کرسکے گا۔ بہت کچھ اَن جانا رہ جائے تو اچھا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved