پاک فوج میں دو اعلیٰ تعیناتیوں کا معاملہ بخیر و خوبی انجام پا گیا ‘ اس کے ساتھ کئی ماہ سے جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو ا ہے۔معمول کے اس عمل کو اس بار پیچیدہ بنا دیا گیا تھا اور سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا جیسے یہی ملک کا سب سے مسئلہ ہے۔بہرکیف آرمی نے بحیثیت ادارہ کہہ دیا ہے کہ اس کا سیاست میں عمل دخل کا کوئی ارادہ نہیں‘ افواج پاکستان اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھائیں گی۔ فوج کے اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے‘ مگر چیئرمین تحریک انصاف نے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران عوام کی جو ذہن سازی کی ہے جس کی بنا پر عوام واضح طور پر دو حلقوں میں تقسیم دکھائی دیئے اور اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا‘ نئی عسکری قیادت کو اس کا ازالہ کرنا ہو گا۔ نئی عسکری قیادت کیلئے سب سے بڑا چیلنج امن و امان کی بحالی ہے کیونکہ اس وقت خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں امن کی صورتحال مخدوش ہے اور عسکریت پسندی پر قابو پانا افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے‘ دہشت گردی کے چیلنجز کے حوالے سے لوگ پاک فوج کی طرف دیکھتے ہیں‘ بالخصوص دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ جس طرح مسلح افواج نے سیاسی معاملات میں مداخلت سے دوری کا فیصلہ کیا ہے کیا نئی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی بھی تبدیل کی ہے؟ نیز یہ کہ پاک فوج کی نئی قیادت اندرونی اور بیرونی سکیورٹی چیلنجز‘ بھارت اور افغانستان کے ساتھ سکیورٹی معاملات پر نظر ثانی کرے گی ؟ کیا سیاست کی طرح سکیورٹی معاملات میں ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا جائے گا؟
سکیورٹی کو بھارت اور افغانستان کی جانب سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے‘ چند روز قبل بھارتی آرمی افسر کی طرف سے آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈ کا بے بنیاد دعویٰ کیا گیا‘ پاک فوج کے ترجمان نے بھارت کے اس بہتان کو من گھڑت قرار دے کر اس کی دو ٹوک تردید کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی طرف سے ہمیں ہمیشہ سکیورٹی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔دوسری جانب افغانستان کی بدلتی صورتحال پاکستان کیلئے مستقل چیلنج ہے اور یہ سوال موجود ہے کہ پاک فوج کی نئی قیادت کی افغانستان کے حوالے سے سکیورٹی پالیسی کیا ہو گی؟ گزشتہ چند ماہ کے دوران قبائلی اضلاع میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات نے امن و امان کی صورتحال پر سوالات اٹھائے ہیں‘ فاٹا انضمام کے وقت لوگوں سے جو وعدے کئے گئے تھے چار برس بیت جانے کے باوجود وہ ایفا نہیں ہو پائے ہیں اس لیے مقامی افراد فاٹا انضمام پر تحفظات کا اظہار کر تے ہیں اور بعض حلقوں کی جانب سے فاٹا کی پرانی حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔قبائلی اضلاع میں اگر بدامنی پر قابو نہیں پایا جاتا ہے تو فاٹا انضمام کے مستقبل پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ قبائلی اضلاع کے عوام گزشتہ چار برسوں سے فنڈز کی فراہمی‘ حقوق کی ادائیگی اور ملک کے دیگر علاقوں کے مساوی حقوق ملنے کی آس لگائے بیٹھے تھے مگر اب امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہورہی ہے تو انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ جس مقصد کیلئے فاٹا کا صوبے میں انضمام ہوا تھا نہ وہ پورا ہو سکا اور نہ امن بحال ہو سکا تو اس سے پرانا نظام ہی بہتر تھا۔ پاک فوج کی نئی قیادت کو اس کا دیرپا حل تلاش کرنا ہو گا۔
خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کے حملے معمول بنتے جا رہے ہیں‘ چند دن ہوئے کہ لکی مروت میں پولیس وین پر حملہ کیا گیا جس میں چھ اہلکار شہید ہوگئے ‘ اب دو روز قبل ایک بار پر پھر لکی مروت میں پولیس چوکی پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا۔ ایک گھنٹے تک دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا جس میں پولیس اہلکار تو محفوظ رہے مگر یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جب پولیس محفوظ نہیں تو عوام کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟ لکی مروت پولیس اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے؟
دوسری طرف سوات میں بھتہ خوری کے واقعات میں اضافے کی اطلاعات ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عوامی نمائندوں کو فون کالز کے ذریعے بھتہ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ جسے شدت پسند عطیات کا نام دیتے ہیں۔ یہ فون کالز مبینہ طور پر افغانستان سے کی جا رہی ہیں۔ کال کرنے والوں کے پاس چونکہ متعلقہ شخص کی فیملی اور کاروبار کی تمام تر تفصیل ہوتی ہے اس لئے بھتہ نہ دینے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے۔ کال موصول ہونے کے بعد ایک طرف کروڑوں روپے کی ادائیگی مشکل نظر آتی ہے تو دوسری طرف ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ وارننگ کے طور پر گھر کے دروازے پر دستی بم پھینک دیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں عام خیال یہ ہے کہ شدت پسندوں کو بھتہ دینے والے کافی لوگ ہیں مگر ڈر کے مارے کوئی بولتا نہیں ۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاک افغان سرحدی علاقے شدت پسندوں کی آماجگاہیں بن چکے ہیں جو پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا کے لیے بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے۔ طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کرتے وقت یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو افغانستان کی سرزمین پر تحفط میسر نہ ہو تو ان کیلئے پاکستان کے علاقوں میں جا کر دہشت گردی کرنا آسان نہیں‘ مگرجب افغانستان کی صورتحال ہی طالبان کے کنٹرول میں نہیں تو وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر کیسے توجہ دے سکیں گے؟امریکی انخلا کے بعد کہا گیا کہ یہ نئے طالبان ہیں ان کے رویوں میں تبدیلی آ چکی ہے مگر چند روز قبل وہاں سخت گیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت سزاؤں کا نفاذ عمل میں لاتے ہوئے بارہ افراد کو سرعام کوڑے لگائے گئے جس پر مغربی ممالک نے شدید احتجاج کیا۔ اس سے تاثر قائم ہوا ہے کہ نوے کی دہائی میں طالبان کا جو رویہ تھا وہ اب بھی برقرار ہے۔ افغان سرزمین پر ہونے والی سختیوں کی وجہ سے وہاں خوف و ہراس کے باعث انخلا کا عمل شروع ہو گیا ہے جس کی زیادہ تر تعداد پاکستان کا رخ کر رہی ہے‘ پاک افغان سرحد کے روایتی اور غیر روایتی راستوں پر افغان شہریوں کی بڑی تعداد پاکستان آنے کی منتظر ہے‘ پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغان قیادت کے سامنے ان مسائل کو اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم یہ واقعات بتاتے ہیں کہ ہمیں سرحدی مسائل کا حل خود نکالنا ہو گا۔ امید ہے نئی عسکری قیادت اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا انٹرا افغان ڈائیلاگ میں متحرک رہے ہیں‘ اسی طرح نئے تعینات ہونے والے آرمی چیف بھی ڈی آئی ایس آئی‘ اور ڈی جی ایم آئی رہ چکے ہیں‘ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ فوج کی نئی قیادت کو حالات کی نزاکت کا بخوبی ادراک ہے۔ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف اور نئی عسکری قیادت کے بیانات سے لگتا ہے کہ پاک فوج دفاعی معاملات پر توجہ مرکوز رکھے گی‘ جبکہ خارجہ پالیسی میں عسکری قیادت کا کردار اہم ہوتا ہے اس لئے پچھلے چار برسوں کے دوران خارجہ پالیسی کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ فوج کا غیر سیاسی کردار خوش آئند ہے تاہم بڑا چیلنج یہ ہے کہ نئی عسکری قیادت سخت گیر طالبان کے ساتھ کیسے برتاؤ کرتی ہے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیا حکمت عملی تشکیل دیتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved