تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     27-11-2022

سیاسی جماعتیں اور گیٹ نمبر4

عوام کیلئے بری خبریں آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دو روز قبل سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کرنا اور ساتھ ہی پیشگوئی کرنا کہ توقعات سے بھی زیادہ حالیہ مہنگائی کا سلسلہ اگلے سال تک جاری رہ سکتا ہے‘ نیک شگون نہیں۔ گوکہ اس معاشی بحران کی وجہ روس یوکرین جنگ ‘ کورونا کے بعد نہ سنبھلنے والی عالمی معیشت اور اس سال سیلاب سے ہونے والی تباہی بھی ہے‘ لیکن ملک میں موجود سیاسی ابتری بھی اس کا ایک بڑا فیکٹر ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود بڑھانے کا مطلب ہے مرکزی بینک اکانومی کو کول ڈاون کرنا چاہتا ہے تاکہ اضافی طلب کو گھٹایا جائے ‘ لوگ بینکوں سے کم قرضہ لیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مارکیٹ میں طلب درآمدی مصنوعات سے پوری کی جاتی ہے جس سے ہمارے محدود مگر قیمتی زر مبادلہ پر بوجھ پڑتا ہے۔ادھر معاشی ماہرین اس فیصلے پر تنقید کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی‘ بلکہ شرح سود میں ایک فیصد اضافے سے مہنگائی میں قریباً 1.3 فیصد اضافہ ہوتا ہے‘ جس کا نشانہ عام آدمی بنتا ہے۔ گزشتہ سال جب پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے نومبر میں شرح سود بڑھایا گیا تو اس عمل پر سب سے زیادہ تنقید موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے رہنماؤں کی جانب سے کی گئی تھی ‘ جن کا اعتراض تھا کہ اب بینک زیادہ شرح سود پر قرضے دیں گے تو صنعت‘ تجارت اور زراعت کی کاروباری لاگت میں اضافہ ہوگا جو وہ صارفین سے وصول کریں گے۔ بینک مہنگے قرضے جاری کریں گے تو اس کا اثر سرمایہ کاری پر بھی پڑے گا کیونکہ کاروباری افراد زیادہ شرح سود پر قرضے لینے سے گریز کریں گے ‘ سرمایہ کاری کم ہو گی تو عام آدمی کیلئے ملازمتیں کم پیدا ہوں گی۔
لیکن صرف ایک سال بعد موجودہ حکومت بھی شرح سود بڑھانے پر مجبور ہوچکی ہے ‘ جس پر پی ٹی آئی رہنما وہی اعتراض اٹھا رہے ہیں جو پی ڈی ایم نے اپنے اپوزیشن کے دور میں اٹھائے تھے۔ یعنی صاف لفظوں میں معیشت جیسا اہم شعبہ جو اس وقت بحرانی کیفیت کا شکار ہے ‘ مسلسل سیاست کی نظر ہورہاہے ‘ جس کے باعث خدشہ ہے کہ یہ معاشی بحران کہیں ریاستی بحران میں تبدیل نہ ہوجائے۔ ہماری سیاسی ایلیٹ کو اس موقع پر ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جاری سیاسی افراتفری کا خاتمہ ہو‘ سیاسی استحکام آئے اور معیشت کیلئے آگے بڑھنے کے راستے کھلیں۔ سخت فیصلے اگر ہوں تو اس پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہو اور اپوزیشن صرف اس وجہ سے حکومتی پالیسیوں پر تنقید نہ کرے کہ وہ ان کے چند ووٹ توڑ سکیں ۔
حال ہی میں پاک فوج کے اعلیٰ عہدوں پر نئی تعیناتیاں اور تبدیلیٔ کمان نے ملک میں نئے اور مستحکم سیاسی آرڈر کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ تعیناتیاں تمام سیاسی لیڈرشپ بشمول نوازشریف‘ شہبازشریف ‘ آصف زرداری ‘ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائید سے ہوئی ہیں۔ تمام سیاسی قیادت اگر مل کر ملک کی سلامتی کے حوالے سے یہ اہم فیصلہ کرسکتی ہے تو پھر معیشت پر کیوں نہیں ‘ جس پر ہماری سلامتی کا انحصار ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ملکی معیشت کو سہارا دینا اب کسی ایک شخص یا پارٹی کے بس کی بات نہیں رہی۔ اگر( ن) لیگ کو لگتا ہے کہ اسحاق ڈار سپر مین کی طرح معیشت کو تن تنہا سہارا دے سکتے ہیں تو وہ خام خیالی کا شکار ہے اسی طرح اگر عمران خان کو لگتا ہے کہ وہ طاقت میں آکر معیشت کا پہیہ گھما دیں گے تو انہیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ معاشی بحران کی ایک بہت بڑی وجہ ان کا پونے چار سالہ دورِ اقتدار ہے جس میں اناڑیوں کی طرح معیشت پر بہت سے تجربات کئے گئے۔اس وقت سیاسی فریقین کے مابین میثاقِ معیشت کرنا اتنا ہی اہم ہوچکا ہے ‘ جتنا ایک زمانے میں ملکی سلامتی کیلئے ایٹمی دھماکے کرنا ہوچکا تھا۔
اب یہی دیکھ لیں کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے قانونی چینلز کے بجائے حوالہ‘ ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنا شروع کردی ہیں ‘ جس کی وجہ ایکسچینج ریٹ کا فرق ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کا کم ازکم 65 فیصد بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر سے حاصل ہوتا ہے۔ ہنڈی اور حوالے سے ڈالر بھیجنے کا اس وقت مارکیٹ میں ریٹ 240 سے 245 ڈالر کے درمیان بتایا جاتا ہے جبکہ سرکاری چینل سے ڈالر کا ریٹ 221 روپے مل رہا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ایک تو عالمی سطح کی مہنگائی نے انہیں بھی متاثر کیا ہے جس سے ان کی بچت کم ہوگئی ہے لیکن ساتھ ساتھ ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں کی وجہ سے بھی انہوں نے پاکستان میں موجود اپنی انویسٹمنٹ کم کرناشروع کردی ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام نے انہیں بھی پریشان کر رکھا ہے اوپر سے پی ٹی آئی کی جانب سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کا شور بھی ان کی پریشانی کو تقویت دے رہا ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کا ایک آسان حل تو یہ ہے کہ اگر حکومت صرف روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں ڈالر کا ریٹ تین سے چار روپے بڑھا دے تو بیرون ملک پاکستانیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ قانونی طریقے سے پیسہ پاکستان بھیج سکیں گے۔تاہم غیر قانونی طریقہ ترسیل زر کے خلاف سخت اقدامات کی بھی ضرورت ہو گی کیونکہ جب تک حوالہ‘ ہنڈی کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کیا جاتا قانونی طریقے سے ترسیلات کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ بیرون ملک موجود پاکستانی ملک کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں لیکن مناسب فیصلہ سازی کی کمی اور سیاسی عدم استحکام اس ورک فورس کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔
قطر کی جانب سے اس سال پاکستان کو پہلے ایک لاکھ ملازمتوں کا کوٹا جاری کیا گیا تھا جبکہ اگست میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے موقع پر اس کوٹے میں مزید ایک لاکھ ملازمتوں کا اضافہ کیا گیا۔تاہم حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اکتوبر تک قطر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 46 ہزار 550 رہی‘ جن میں سے ورلڈ کپ میں مختلف خدمات انجام دینے والے افراد کی تعداد سات ہزار کے قریب تھی‘ یعنی قطر کی جانب سے جاری کردہ کوٹے کے نصف کے برابر بھی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں اپنی تمام صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لا کر معیشت کے اس گورکھ دھندے اور بحران سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم کیلئے بطور حکومت معیشت کو سہارا دینا اولین ذمہ داری ہے جبکہ پی ٹی آئی کیلئے بطور اپوزیشن ایک ذمہ دار قومی جماعت کا ثبوت دینا اہم ہے۔ کوئی بھی ملکی نظام ‘ حکومت و اپوزیشن کے ورکنگ ریلیشن شپ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت تسلیم کرے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی حقیقت ہے اور اس کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی ڈیمانڈز اسٹیبلشمنٹ نے پوری نہیں کرنی۔ فوج نے متفقہ طور پر جی ایچ کیو کا'' گیٹ نمبر 4 ‘‘بند کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اس لئے عمران خان کو اگر حکومت سے قبل از وقت انتخابات یا انتخابی اصلاحات چاہئیں تو بہتر ہوگا کہ وہ اَنا کے گھوڑے سے اتریں ‘ اپنے ہم قبیل سیاستدانوں کے ساتھ جا بیٹھیں اور ڈائیلاگ کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved