تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-11-2022

حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا!

جو بے حوصلہ ہو اُسے زندگی کیوں کہیے؟ محض زندہ رہنا کسی بھی انسان کو زیبا نہیں۔ اللہ نے ہمیں اتنے سے کام کے لیے تو خلق نہیں کیا۔ سانسوں کا تسلسل زندگی نہیں۔ یہ تو محض جینا ہے۔ انسان کو جینے کی سطح سے بہت بلند ہوکر اپنے آپ کو اس کائنات کی سب سے اہم مخلوق ثابت کرنا ہے۔ اللہ نے ہمیں وجود بخشا ہی اس لیے ہے کہ ہم دن کو رات اور رات کو دن کرنے کی خالص حیوانی سطح سے بلند ہوکر حقیقی معنوں میں زندگی بسر کریں یعنی کچھ ایسا کر دکھائیں جس کے ذریعے یہ ثابت ہو کہ ہمیں اپنی موجودگی اور اُس کے مقصد کا پورا اندازہ و احساس ہے۔
آج کتنے ہیں جنہیں یہ احساس ہے کہ اُن کی تخلیق کا کوئی بڑا مقصد ہے؟ ایسے تو اب خال خال ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ آج کا انسان بہت سے غیرمتعلق معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ خارجی دنیا اُس کی داخلی دنیا کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ انسان چھوٹی سی عمر میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ سلسلۂ روز و شب اب واقعی نقش گرِ حادثات ہے۔ آج کا انسان اپنے ماحول میں طرح طرح کی اشیا و خدمات دیکھ کر الجھتا ہی چلا جارہا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اُس کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس کم وقت میں بہت کچھ کرنا ہے۔ محض جینا نہیں‘ بامقصد زندگی یقینی بنانی ہے۔ آتی جاتی سانسوں کو زندگی بنانا کھیل نہیں۔ یہ تو عمر بھر کی ریاضت ہے۔ یہ ریاضت انسان کو نچوڑ لیتی ہے۔ کم ہی لوگ اس طرف آتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کوئی تھوڑی سی تحریک دینے میں کامیاب ہو بھی جائے تو محض عزم و ارادے کی منزل میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جو ڈھنگ کا ہو۔ جہاں بہت کچھ الٹ پلٹ چکا ہو‘ معاملات کچھ کے کچھ ہوگئے ہوں وہاں ڈھنگ سے کچھ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بہت کچھ اپنے مقام سے ہٹ چکا ہے۔ ایسے میں ڈھنگ سے کچھ بھی کرنا انسان کے کَس بَل نکال دیتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی نہ کسی طور کچھ بامقصد کرنے کا عزم کر بھی لیں تو تھوڑی دیر میں حوصلہ جواب دینے لگتا ہے اور وہ اپنی پُرانی روش پر گامزن ہونے میں دیر نہیں لگاتے ؎
حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا
ہاں مگر حوصلہ نہیں ہوتا!
ماحول ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے‘ بہت کچھ دیتا ہے مگر ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ ہم کچھ سیکھنے پر مائل ہی نہیں ہوتے ہیں۔ گھسی پٹی روش کو بہترین گرداننے کی ذہنیت دم توڑنے کا نام نہیں لیتی۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ زندگی کے خاکے میں کچھ رنگ بھرنے کا ارادہ کرتا ہے اور پھر ارادہ ترک کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ سب کچھ سرسری سا ہوگیا ہے‘ ارادے بھی اور ان کا ٹوٹنا بھی۔ سنجیدگی اور مستقل مزاجی کا شدید فقدان ہے۔ ایسے میں کوئی بھی حقیقی تبدیلی جلوہ گر ہو تو کیونکر ہو؟
ہر دور کے حصے میں آسانیاں بھی ہوتی ہیں اور مشکلات بھی۔ ہر دور کا انسان بہت سی آسانیوں اور بہت سی مشکلات کے پہلو بہ پہلو زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ دنیا اسی طور چلتی آئی ہے اور اسی طور چلتی رہے گی۔ کوئی اس گمان میں مبتلا نہ ہو کہ اُسے بہت زیادہ الجھنیں ملی ہیں اور دوسروں کو صرف آسانیاں ملی ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر انسان کو اُس کے اپنے حالات کے مطابق آسانیاں اور مشکلات ملتی ہیں۔ سوال تناظر ہے۔ جب ہم ہر تناظر کو سمجھنے کی ذہنیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تب زندگی کے اسرار ہم پر کُھلتے چلے جاتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی صرف مشکلات کا نام نہیں۔ بہت سی آسانیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ آسانیاں اصلاً اُن کے لیے ہیں جو معاملات کو سمجھنے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ جس نے طے کر لیا ہو کہ کسی بھی معاملے کو سمجھنے کا ذہن بنانا ہی نہیں‘ اُس کے لیے صرف الجھنیں رہ جاتی ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے جس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
زندگی کے دامن میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ یہ دنیا ہمارے ہی لیے ہے۔ اللہ نے تو خیر پوری کائنات کو ہمارے لیے مسخّر کردیا ہے۔ سوال صرف ہمارے جاگنے کا ہے۔ جب ہم سوچ لیتے ہیں کہ کچھ کرنا ہے اور پھر عمل کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تب زندگی کے اسرار ہم پر کھلتے ہیں۔ یہ وقت شدید بے حواسی کا ہے۔ لوگ ذہن کو بروئے کار لانے سے بھاگ رہے ہیں۔ بات بات پر خوفزدہ ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنا عام ہے۔ ایسے میں وہ لوگ بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں جو تھوڑی سی ہمت دکھاکر آگے بڑھیں اور کچھ کر دکھائیں۔
یہ دنیا صرف اُن کے لیے ہے جو حوصلہ مند ہوں اور آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہوں۔ بیشتر معاملات میں ہم بہت تیزی سے بددِل اور بدگمان ہوکر حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ اچھا خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم منزل کے بہت نزدیک ہوتے ہوئے بھی وہاں تک پہنچنے کا ذہن نہیں بنا پاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں حوصلہ ہی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جن کی سوچ مثبت ہو اُن کا حوصلہ جوان رہتا ہے۔ مثبت سوچ انسان کو مقصد کی طرف لے جاتی ہے‘ کچھ کرنے کی تحریک دیتی رہتی ہے۔ اگر حوصلہ دم توڑ دے تو کبھی کبھی زندگی بھر کی محنت چند لمحات میں ضائع ہو جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو مزید کچھ کرنے کا ذہن نہیں بن پاتا۔
آج ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں امکانات بھی بہت ہیں اور مشکلات بھی کم نہیں۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں اور اُن کے پہلو بہ پہلو آسانیاں بھی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم الجھنوں سے لڑنے اور آسانیوں کو شناخت کرکے اُنہیں بروئے کار لانے کا ذہن بنا پاتے ہیں یا نہیں۔ الجھنوں سے لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اُنہیں شناخت کرکے پورے عزم اور قوتِ عمل سے نمٹانا ہے۔ کسی بھی الجھن سے محض جان چھڑانا مسائل کا حل نہیں۔ الجھن کو سمجھنا اور اُس سے کماحقہ نمٹنے کا ذہن بنانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے غیر معمولی اعتماد درکار ہوتا ہے۔ غیر معمولی اعتماد راتوں رات پیدا نہیں ہوتا بلکہ پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ جب کوئی علم و فن کو پروان چڑھانے کی ذہنیت کا حامل ہو تب قدرت کی طرف سے کچھ کرنے کا حوصلہ نصیب ہوتا ہے۔ زندگی کے حُسن کا بڑا حصہ اس بات میں ہے کہ ہم کسی بھی معاملے سے محض جان نہ چھڑائیں بلکہ اُس پر متوجہ ہوکر بھرپور عزم کے ساتھ اپنے حصے کا کام کریں اور فرق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
حوصلہ پیدا کرنا اور اُسے برقرار رکھنا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان زندگی کو اُس طرح دیکھتا ہو جس طرح کہ اُسے دیکھنے کا حق ہے۔ کوئی بھی معاملہ ہمارے لیے ایک بڑی مشکل یا مسئلے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اُسے محض مسئلہ سمجھتے ہیں یا چیلنج۔ اگر کسی معاملے کو مسئلہ سمجھا جائے تو اُسے حل کرنے سے زیادہ اُس سے جان چھڑانے کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔ ایسے میں کچھ زیادہ کرنے کا مزاج پیدا نہیں ہوتا اور انسان اپنی صلاحیت و سکت کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کے بارے میں بھی نہیں سوچتا۔ ہاں‘ جب کسی بھی الجھن یا مسئلے کو چیلنج سمجھ کر قبول کرنے کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے تب انسان مثبت سوچ اور مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ ایسے میں زندگی کا حسن نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان اپنے معاملات کو پورے عزم کے ساتھ‘ چیلنج سے نمٹنے کی ذہنیت پروان چڑھاتے ہوئے نمٹاتا ہے تب حقیقی اصلاحِ احوال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
مشکل یہ ہے کہ عام آدمی قدم قدم پر بے حوصلگی کا شکار رہتا ہے۔ وہ بہت کچھ سوچتا ہے مگر جب عمل کی بات آتی ہے تو حوصلہ جواب دینے لگتا ہے۔ یہ کیفیت رفتہ رفتہ تمام معاملات پر محیط ہوکر اُنہیں بگاڑنے لگتی ہے۔ پژمردگی انسان کو محض الجھنوں سے دوچار کرتی ہے اور یوں مسائل حل کرنے کی ذہنیت دم توڑنے لگتی ہے۔ یوں انسان یکسر بے رنگ اور بے رَس زندگی بسر کرنے کی طرف چلا جاتا ہے۔ حوصلہ مثبت سوچ سے پیدا ہوتا ہے۔ معیاری زندگی کے لیے مثبت سوچ کو پروان چڑھانا لازم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved