تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     28-11-2022

سود و زیاں

ہم نے شیر چڑیا گھر کے بند پنجروں یا سرکس میں لاغر اور قریب المرگ دیکھے ہیں۔ کبھی کھلونوں کی صورت میں‘ کہیں کوئی شیر والی جماعت کا جلسہ‘جلوس ہوتو پرانے وفاداروں کے ہاتھوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ شیر ہماری زبان اور ثقافت بلکہ دنیا کے ہر ملک میں طاقت جرأت اور بے خوفی کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے نہ شیر پسند ہیں اور نہ جنگلوں میں ان کی ماردھاڑ‘ چیرپھاڑ‘ مگر وہاں تو قدرت کا نظام ہی ایسا ہے کہ بقا کے لیے ہر چرند پرند شکار کرکے گزراوقات کرتا ہے۔ اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں شیر کی مثال عام آدمی سے لے کر بڑے سیاسی کھلاڑیوں میں اس لیے مقبول ہے کہ فرد کی شخصیت‘ استعداد اور صلاحیت کو پرکھنے کا معیار اس کی طاقت اور جرأت ہے۔ انسان میں اور بھی خصائل ہیں‘ جن میں سب سے افضل علم ہے۔ معاملہ فہمی‘ دانش‘ حکمت اور تدبر تو ایسے اوصاف ہیں کہ اگر نصیبوں میں لکھ دیے جائیں تو کسی اور چیز کی خواہش نہیں رہے گی۔ ہر جگہ صدیوں سے ایسے لوگ سب معاشروں میں جنم لیتے رہے ہیں‘ مگر کون آگے نکل کر اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے۔ وہ تو مروجہ رجحانات‘ اخلاقی معیار اور عام لوگوں کے رویے متعین کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ سیاست کی تاریخ اور اس کے ہر دور‘ ہر جگہ جومظاہر دیکھتے ہیں‘ سیاست کے میدان کے کھلاڑی مقامی کلچر کے مطابق زبان اور کلام اور بیانیے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست اور کلچر کا گہرا تعلق ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ سیاست کو سماجی انصاف‘ صنعتی ترقی‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے استعمال کیا جائے تو ثقافت بھی اپنا رنگ ڈھنگ بدل لیتی ہے۔ معاشرتی اور معاشی ترقی دنیا میں تو اچھی سیاست کے سبب ہے۔ یہاں بھی ایک دن ایسا ہی ہوگا مگر شاید جب ہم نہ ہوں گے۔موجودہ آثار بہت حوصلہ افزا نہیں۔ ہر سیاسی دھڑا شیر بننے کی کوشش میں ہے کہ دشمن پرجھپٹ کر وار کیا جائے اور چشم زدن میں ڈھیر کردیا جائے۔ ہاں‘ دشمن سے خیال آیا کہ یہ بھی ہمارے معاشرتی رویوں میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ہر ایک نے اپنے الگ دشمن بنائے ہوئے ہیں۔ تھڑوں‘ محلوں‘ اور محفلوںاور یہاں تک کہ عبادت خانوں میں بھی دشمن‘ دشمن کی آواز گونجتی ہے۔ بس دشمن ہے کہ ہمیں نہ چین لینے دیتا ہے‘ نہ ترقی کرنے دیتا ہے اور ہمیشہ ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ یہ سماجی‘ نفسیاتی کیفیت ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ سیاست تو عوامی جذبۂ خدمت سے نمو پاتی ہے۔ اپنی ذات کو کچھ اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پابند کرکے اقتدار کا پرامن حصول ایک عام سی روایت ہے۔ نہ جانے کیوں سیاست دانوں نے شیروں کی کھالیں پہن کر‘ بلکہ سچ پوچھیں تو اس کی علامت بن کر دشمن کو للکارنے‘ دبوچنے اور ختم کرنے کے نعروں میں زندگیاں کھپا دی ہیں۔ سیاسی مخالف دشمن نہیں ہوتا‘ اصولی طور پر ایک تو وہ عوامی تائید کرنے کی مسابقت میں دوسرے حریفوں کا ہی ہم سفر ہوتا ہے۔ احترام‘ عزت اور وضع داری اور بقائے باہمی کے رویوں سے جمہوری ثقافت کا رنگ نکھرتا ہے۔ ہمارا مقصد کسی کو سمجھانا بجھانا ہر گز نہیں‘ اور نہ ہی وعظ و نصیحت ہے۔ صرف وہ بیان کرنے کی خواہش ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے چلے آئے ہیں۔ یہ تو فرض بھی ہے کہ طاقتور لوگوں کے وہ اقدامات بیانیے اور سیاست کے انداز جو ہم سب پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ ان پر بات کی جائے۔ ابھی تک تو ہم نے لڑائی‘ کشمکش‘ تصادم اور دشمنی کی سیاست دیکھی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف ایسی جملہ بازی کہ شاید ہی کسی اور ملک میں ایسی زبان استعمال ہوتی ہو۔ کچھ اہم حکومتی عہدوں پر بھرتی کا معیار اب عرصہ دراز سے یہی ہے کہ زبان میں کتنا زہر اور کتنی کاٹ ہے۔ امیدوار قطاروں میں لگے ہوئے ہیں کہ انہیں بھی موقع مل جائے تو سب کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیں گے۔ ا ب جوحالات ہیں اور بنتے‘ بگڑتے نظر آرہے ہیں‘ صر ف معاشرے کی صحت کے بارے میں فکرمندی ہے کہ تنائو اور ہیجان کوئی طوفان نہ برپا کردے۔
اس وقت مفاہمت اور قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ تیزوتند طوفان کے نتائج ہم نسلوں سے بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کی دشمنی پر مبنی سیاست بازی نے حکومتی اداروں کی استعداد کو کمزور کردیا ہے۔ دعا ہے کہ ایسا نہ ہو‘ لیکن ہم مجموعی طور پر ایک ''ناکام‘‘ ریاست بننے کے کنارے پر ڈگمگارہے ہیں۔ کراچی سے لے کر چترال تک ڈاکواور دہشت گرد گروہ طاقت پکڑرہے ہیں۔ معیشت کشکول اور بیساکھیوں کے سہارے پر ہے۔ حکومت کے شعبوں میں بدعنوانی زوروں پر ہے۔ شاید ہی کسی دور میں اس کازور ٹوٹا ہو۔ حکمرانی ایسے میں پستی کی گہرائیوں کو چھو رہی ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں‘ کسی بھی صاحبِ دل سے پوچھ لیں‘ حکمرانی سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں اصولوں اور مفاہمت کے مطابق نہیں چلیں گی تو ایسابگاڑ تو پیدا ہوگا۔ ابھی ہماری وہ حالت نہیں جو افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ کی کئی ریاستوں کی ہے‘ جہاں سب کچھ داخلی لڑائیوں اور بیرونی مداخلت کی نذر ہوچکا‘ مگر ہم اسی راستے پر گامزن ہیں۔ ہر طرف من مانی ہے‘اقتدار کاگھوڑا ہر صورت اپنے پاس رکھنے کی خواہش ہے‘ یہ ہے تو سب کچھ ہے۔ سیاسی کھلاڑیوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے اثاثے کہیں اور‘کمپنیاں پاناما جیسے ممالک میں اور بینک اکاؤنٹ سوئٹزر لینڈ میں ہیں جہاں کھوج لگانے کیلئے کئی عمریں درکار ہوں گی‘ لیکن ملک‘ معاشرہ اور عوام پر جو گزر رہی ہے اور جو فضا بنتی نظر آ رہی ہے‘ ہمارے حالات اور بھی خراب ہوں گے۔
عمران خان صاحب نے سرپرائز دے ہی دیاہے۔ واقعی مجھے تو حیرانی ہوئی کہ اب وہ صوبائی اسمبلیوں سے بھی نکل رہے ہیں کہ نظام ناانصافی اور کرپشن پر قائم ہے۔وہ نئے انتخابات چاہتے ہیں مگر اتحادیوں کو خوف ہے کہ دباؤ میں آکر ہتھیار ڈال دیے تو کچھ نہیں بچے گا۔ وہ بھی پرانے کھلاڑی ہیں‘ منجھے ہوئے‘ تجربہ کار اور اپنی سیاست کو بچانے میں خان صاحب سے کہیں زیادہ باتدبیر۔وہ اپنی بنائی ہوئی وکٹ پر خود وقت کا تعین کر کے کھیلیں گے۔میری رائے میں تو نئے انتخابات ضروری ہیں کہ شائد کسی کی واضح اکثریت آجائے اور اور ملک میں استحکام پیدا ہو جائے۔لیکن یہ ضروری نہیں۔ اس لئے کہ جب تک سیاست میں مخالفین دشمن ہی نظر آئیں گے اور انتقام کی روش جاری رہے توسیاسی اکثریت جس کی بھی ہو‘ اس میں اور اقلیت میں جنگی کیفیت رہے گی۔ ملک اور قوم کو استحکام نصیب نہیں ہوگا۔ جب تک شیروں کی سیاست ختم نہیں ہوگی‘طاقت کی سیاست کا غلبہ جاری رہے گااوردشمن بنانے کی روایت اور اس کے خلاف پنجہ آزمائی سیاسی ماحول کو کشیدہ رکھے گی۔
بہت ہو چکا‘ ہر اعتبار سے ہمارا گراف پستی کی طرف ہے۔ کئی ممالک اور قومیں ہمارے سامنے بنیں‘ آگے نکل گئیں‘ لیکن ہمارا سفر پستیوں کی طرف ہے۔ موجودہ قومی‘ علا قائی اور عالمی حالات اور بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر سب سے پہلا کام سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت‘ مکالمہ اور میثاقِ ہم آہنگی ہے۔ شیروں والی باتیں ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک میں اب ماضی کا حصہ بنا چکا ہے۔ کرکٹ ہی سے کسی نے سیکھنا ہو تو رولز اور قواعد کے بغیر یہ کھیل ممکن نہیں۔ اس طرح سیاست کا کھیل آئین‘ روایات اور عدلیہ کی صورت میں ریفری کی بدولت پر امن اور مستحکم رہتا ہے۔ بہت وقت اور مواقع ضائع کر دیے‘ اب ہوش میں آ جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved