یہ بھی مرغی اور انڈے جیسی بحث ہے کہ ان میں سے پہلے کون آیا۔ یعنی‘ ریاست کی ضرورت پہلے محسوس ہوئی یا قانون پہلے بنائے گئے۔ہاں البتہ ایک طے شدہ بات یہ ہے کہ قانون کے بغیر ریاست وحشیوں کی جنگل بستی ہوتی ہے۔
پاکستان اُن جدید ریاستوں میں سے ایک ہے جن کے حقوق تحریری طور پر ریاست کے ساتھ Social Contractمیں شامل کیے گئے۔ جن کی بنیاد قانون کی نظر میں برابری پر مبنی آرٹیکل4میں رکھی گئی۔ اسی میں ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ کے نیچے قوانین بنانے کا کام تھا۔ مگرہمارے ساتھ قومی حادثہ یہ ہوا کہ آئین کے تالاب میں گندی مچھلیاں گرنا شروع ہوگئیں۔ جن کا نتیجہ آئین میں امتیازی شقوں کے داخلے کی شکل میں بھی نکلا اور ساتھ ساتھ وطنِ عزیز میں دھڑا دھڑ امتیازی قوانین بنتے چلے گئے۔ اللہ کے بندوں کو طبقاتی تقسیم کی زنجیروں میں باندھ دیا گیا۔ ایک طبقہ Equal Before Law کا ہے اور دوسرا طبقہ More Equals than Othersکا پیدا ہو گیا۔
آئیے ذرا کھل کر بات کرتے ہیں۔ آئین کھل کر زیادہ حقوق اپنے شہریوں کو دیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جس کا سالانہ میزانیہ شہریوں کی جیب سے نہ نکلتا ہو۔ اسی لیے ریاست کے تمام جھوٹے بڑے اہل کاروں کے لیے Public Servant لفظ استعمال ہوا ہے یعنی عوام کے خادم۔کیا واقعی ایسا ہے یا سبPublic Servantاپنے آپ کو Shadow Kingسمجھتے ہیں؟ یہ سوال سب سے بنیادی ہے‘ سب کے ذہن میں آتا ہے‘ سب اس پر بات کرتے ہیں لیکن منہ گھڑے میں ڈال کر۔ جس کا نتیجہ اپنے آپ اور اپنے سماج سے منافقت اور ریاست اور اُس کے اداروں سے بیزاری کی شکل میں سامنے آتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ وہ بحث جو سینوں میں سلگتی ہے اسے Public Domainمیں لایا جائے۔ اس کے لیے تین حوالے بنیادی توجہ چاہتے ہیں:
پہلا توجہ طلب حوالہ؟
پاکستان میں وفاقی حکومت کے ادارے سینکڑوں ہیں۔ بجلی کا ادارہ‘ پانی‘ زراعت‘ جنگلی حیات‘سٹی ڈویلپمنٹ کے ادارے۔ پولیس‘ رینجرز‘ ٹریفک وارڈن‘ موٹروے سکیورٹی‘ NAB اندرون ملک‘ بیرون ملک اداروں کے نام لکھنے میں کالم چلا جائے گا۔ ان سب اداروں پر اعتراض‘بحث‘ تنقید اور اُن کی کارکردگی اور اُن کے ساتھ ساتھ Conductپر بات کرنے پہ بھی کوئی ممانعت نہیں۔
اسی طرح صوبائی سطح پر بھی سینکڑوں ادارے موجود ہیں جو سب کے سب Public Servantکی تعریف میں آتے ہیں۔ ریاست کے تیسرے نمبر پر ادارہ جات لوکل گورنمنٹ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اُن کی تعداد بھی اَن گنت ہے۔
تنقیص اور تنقید فرد کی ہو یا ادارے کی وہ اسے مضبوط اور Efficientبنانے کی بنیادی توانائی ہے۔ سب اچھا کہنے ہی سے کچھ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اچھا کرنے کے لیے غلط اور بُرا Identifyکرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک سے ایسی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی جہاں کوئی ایک یا دو ادارے نکال کر باقی اداروں سے اونچے رکھ دیے جائیں۔ پھر قوم کو یہ کہا جائے کہ ان کو دیوتائوں کی طرح پوجا تو کی جاسکتی ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس حوالے سے دنیا کی واحد سُپر پاور USAکی مثال دیکھنے کے قابل ہے۔
امریکہ مغرب کی تاریخ کی سب سے ہولناک خانہ جنگی سے گزر کریونائیٹڈ سٹیٹس بنا۔ جہاں دو امریکی فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔ جس کے بعد Gangs Of New Yorkکا زمانہ شروع ہوا۔ اس حوالے سے لٹریچر‘ ہالی وڈ کی فیچر فلمز اور بہت سی Documentaryفلمیں ریفرنس کے لیے موجود ہیں۔
امریکہ میں اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججز کو ہماری اسمبلیوں کے امیدوار کی طرح نامز کیا جاتا ہے۔ پھر اُن کا انتخاب ہوتا ہے۔ اُن پر اتنی زیادہ جرح‘ بحث و تمحیص اور کھوج لگائی جاتی ہے جتنی گوانتانا موبے کے قیدیوں کے بارے میں Probeہوئی۔
اسی لیے آج بھی امریکہ میں رائے عامہ‘ سیاسی جماعتوں اور شہریوں کو ان ججز کے کام‘ کارکردگی اور انصاف کی فراہمی کے کام پر تنقید کا حق دیا جاتا ہے۔ اس کھلی تنقید کی ایک مثال سال 2000ء یو نائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے انتخابات میں Presidential Race سے پیدا ہوئی تھی۔
کیس کا ٹائٹل George W.Bush and Richard Cheney, Petitioners Versus Albert Gore, Jr. and Joseph Lieberman, et al . ہے۔ اسے امریکہ کی تاریخ کا Landmark مقدمہ کہا جاتا ہے جو 12 دسمبرسال 2000ء میں چلا۔ واقعات کے مطابق ریاستِ فلوریڈا کی سپریم کورٹ میں Al-Gore نے 61000بیلٹ پیپرز کی گنتی نہ کرنے کا معاملہ اٹھایا۔Al-Goreکا دعویٰ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ EVMکے فائنل کائونٹ میں شامل ہی نہیں کیے گئے۔ فلوریڈا کی سپریم کورٹ نے پوری ریاست میں ایسے ووٹ جو گنتی میں شامل نہ ہوئے تھے اُ ن کا Manual Countیعنی مشین کے بجائے ہاتھوں سے گنتی کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ 11دسمبر سال2000ء کو یہ مقدمہ سنا گیا اور اس کا فیصلہ 12-12-2000کو سنا دیا گیا۔
ریاست ِ فلوریڈاسے اس مقدمے کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف دی یونائیٹڈ سٹیٹس میں چیلنج کیا گیا۔اُس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس William Rehnquistاور بینچ میں شامل جج حضرات میںJohn. P Stevens, Sandra Day O'Connor, Antonin Scalia,k Anthony Kennedy, David Souter, Clarence Thomas Ruth Bader Ginsburg, Stephen Breyer بھی شامل تھے۔ یہ ایک اختلافی فیصلہ تھا جس کے ذریعے مبینہ طور پر George W.Bushکو فائدہ پہنچایا گیا۔
یہ مقدمہ امریکہ کے وکالتی‘ عدالتی اور سیاسی حلقوں میں واحد ایسا کیس ہے جس پر آج بھی کھلی تنقید ہوتی ہے۔ U.Sمیں اسے Palm Beach County کاطاقتور عہدے کا مقدمہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سے دنیا بھر کے دوسرے ممالک میں افراد یعنی Individuals کے Conduct اُن کے کام اور کارکردگی پر تنقید کی اجازت ہے۔
برطانیہ کی ویسٹ منسٹر جمہوریت ہمارے موجودہ نظام کی سوتیلی قسم کی ہی سہی مگر ماں ہے۔ وہاں پہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں Grilling Hoursمیں ہر سوال کا جواب دینے کے لیے خود کھڑا ہوتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اسلام کی شاندار گورننس کے ابتدائی زمانے میں سیدنا عمرؓ اور سیدنا علیؓ جیسے خلفا ئے راشدین کو بھی تنقید سُن کر بر سر عام اُس کا جواب دینا پسند تھا‘ عدالتوں سمیت۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved