نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے قانونی عمل کی تکمیل کے بعد بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ 2011ء میں مینارِ پاکستان سے شروع ہونے والی وہ سیاسی مہم آخرکار اختتام کو پہنچی جو ریاستی ٹرین کی مخصوص سمت پر رخ گردانی کے لیے لانچ کی گئی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرکز پرستوں کا ایک گروہ یہاں ایک ایسے نظام کے قیام کو ریاستی بقا اور خود اپنے مفادکے لیے ضروری سمجھتا ہے جو اپنی ساخت کے اعتبار سے تو چین اور روس کے نظاموں سے مماثل ہو لیکن اس کی حتمی وابستگی اور پالیسی سازی کی عنان سرمایہ دارانہ تمدن کے سرخیل امریکہ سے منسلک ہو۔ اس نئے ماڈل میں کسی کرشماتی شخصیت کو عام لوگوں کی وفاداریوں کا مرکز بنا کر عوامی قوت کا ارتکاز پیداکرنا مقصود تھا اور شاید اسی لیے پچھلے دس سالوں سے برپا اس کشمکش کا محور خان صاحب کی شخصیت کو بنایا گیا۔ ادھر امریکہ پرانی شرائط اور نئے طور طریقوں کے ساتھ ریاست پر پون صدی سے جاری اپنے 'دوستانہ تصرف‘ کے دوام کا نیا بندوبست تخلیق کرنا چاہتا تھا لیکن زندگی کی توانائیوں سے لبریز ہمارا قومی وجود ایک نئے نیّر رخشاں کا طلبگار نکلا۔ اس لیے وہ غیر مشروط جمہوری آزادیوں کے حصول کی خاطر بامقصد مزاحمت پر کمر بستہ ہو گیا؛ تاہم یہ معرکہ ابھی تھما نہیں۔ اُس سیاسی انتشار پر قابو پانے کا مرحلہ سرہونا ابھی باقی ہے جس نے دہشت گردی کی حرکیات سے زیادہ مہیب صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ بجا کہ وقت کی صرف ایک کروٹ نے بہت سے اہم نعروں اور کئی پُرکشش شخصیات کو متروک بنا دیا لیکن تقدیر ابھی کئی اہم لوگوں کی حیثیت کا ازسر نو تعین کرے گی یعنی عنقریب قومی افق پر نئے شعلے نمودار ہونے والے ہیں۔ اگرچہ طویل اور جان گسل کشمکش کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت ایک گونہ فاتحانہ احساس کے ساتھ نئی منزلوں کی جانب محوِ سفر ہے لیکن قومی سیاست اب بھی بسیط اور دور رس منصوبوں کے فقدان اور اجتماعی ہم آہنگی کے حصول سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔ ہر تجویز کے بارے میں ہمارا ردعمل ایک مایوس کن تقسیم کے سوا کچھ نہیں ہوتا؛ چنانچہ فی الحال ہمارے 'ہمہ دان دیوتا‘ سیاسی انتشار پر قابو پانے کی استعداد اور اجتماعی زندگی میں توازن لانے کا ہدف حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں یعنی ان کی طاقت اب بھی ان مظلوم لوگوں کے فکری افلاس پر مبنی رہے گی جو سیاست میں اپنے مفروضوں کی تصدیق اور امیدوں کی تسکین چاہتے ہیں۔ ہماری اجتماعی قومی سوچ پچھلے پچھتر سالوں سے لیلائے جمہوریت سے ہم آغوش ہونے کی رومانوی آرزؤں کو لے کر مملکتِ خدادادکو وفاقی جمہوری نظام کی طرف لے جانے کی اپنی اُن کوششوں کو ثمربار دیکھنے کو بیتاب رہی جس کیلئے لیاقت علی خان سے لے کر فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر اور نوازشریف کے علاوہ ہزاروں گمنام کارکنوں نے قید وبند اور جلاوطنیوں سمیت لازوال قربانیاں دی تھیں۔ مگر افسوس کہ جمہوریت دلکش ہونے کے باوجود ایسی مستقل آویزیش کا محرک بنتی رہی جو امیدوں کو گرمانے اور انسان کی تمام قوتوں کو تحریک دے کر زندگی کی کشمکش کو زیادہ تند و تیز کر دیتی ہے۔ گویا آزادی کی یہ نیلم پری ناپسندید نہ سہی‘ مشتبہ ضرور ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا تعلق سیاسی استحکام کے ساتھ نہایت گہرا ہوتا ہے۔ غیر یقینی کی صورتحال اور غیر مستحکم سیاسی ماحول سرمایہ کاری اور سماجی ارتقا کی رفتار کو سست رکھتا ہے۔ بُری اقتصادی کارکردگی ہر روز حکومتوں کے خاتمے اور سیاسی انتشارکی راہیں ہموار بناتی ہے لیکن فی الوقت ہمیں ترقی کی منزلیں سر کرنے سے زیادہ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں جنوبی ایشیا میں وقوع پذیر ہونے والی ناقابل یقین تبدیلیوں کو سمجھنے کی مشکل درپیش رہے گی۔ شاید اس وقت مقتدرہ کو ایسے متنوع اور پیچیدہ عالمی تغیرات سے نمٹنے کا ہنر دستیاب نہ ہو؛ چنانچہ ایک بار پھر ہمیں قسمت پرستانہ فلسفۂ حیات کا سہارا لینا پڑے گا۔ ذرا غور کیجئے کہ ہم مستقبل کی ترقی کو چین جیسی جدید مملکت کے معاشی ماڈل پر استوار کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی تہذیبی اقدار، سیاسی آزادیوں اور تمدنی شعورکو اسلامی اصولوں سے منسلک رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ اس مشکل اور پیچیدہ کیفیت سے نبرد آزما ہونے کیلئے جس اعلیٰ سطحی سیاسی بصیرت، انتظامی مہارت اور ذہنی لچک کی ضرورت تھی‘ وہ ابھی تک کہیں نظر نہیں آئی۔
عارضی سیاسی استحکام کا سنگِ میل عبور کر لینے کے باوصف پاکستان کو کئی قسم کے اندرونی اور بیرونی تنازعات کا سامنا رہے گا خاص طور پر پچھلے دس سالوں میں پنپنے والی جارحانہ سیاسی کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی، نفسیاتی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ جنگِ دہشت گردی کی وجہ سے انتظامی ڈھانچے کی زبوں حالی جیسے چیلنجز پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ ہم پہلے ہی غلط فیصلوں سے انتہا پسندی اور عدم برداشت جیسے مسائل پیدا کر چکے ہیں، اب نفرتوں، انتشار اور باغیانہ رویوں کو تشدد سے نمٹانے کی کوشش کے ذریعے تنازعات کی نئی جہتوں کو فروغ دینے کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔ اربابِ بست و کشاد تسلیم کرتے ہیں کہ گزشتہ بیس سالوں میں اشرافیہ نے انسدادِ دہشت گردی کیلئے کوئی جامع پالیسی وضع کرنے کے بجائے محض متحرک ردعمل دینے پر اکتفا کیے رکھا کیونکہ فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے اربابِ اختیار خود بھی ان پیچیدہ مسائل کو نمٹانے والی مربوط سوچ کے تال میل سے ناواقف تھے۔ ابتدا میں دانستہ سیاسی استحکام کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر انتہا پسندی کی افزائش کو جنگِ دہشت گردی کے ٹول کے طور پر بروئے کار لایا گیا جس نے تنگ نظری کو ہمارے قومی تشخص کی شناخت بنا کر سماجی ہم آہنگی اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کے امکانات کو دور دھکیل دیا۔ ہماری ریاستی اتھارٹی عام لوگوں کی جائز شکایات کے مداوے کیلئے پُرامن قانونی طریقے فراہم کرنے میں ناکامی ہوئی تو اس سے مختلف سیاسی، نسلی اور دیگر گروہوں کو تشدد کو متبادل کے طور پر تلاش کرنے کی ترغیب ملی۔
2013ء اور 2018ء میں پُرامن سیاسی منتقلی نے ہمیں معاشی اصلاحات کے نفاذ اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا جو موقع فراہم کیا اُسے نئے تجربات میں گنوا دیا گیا۔ ملک کو اب شدید سیاسی پولرائزیشن کے علاوہ قرضوں کے بڑھتے بحران اور اقتصادی محاذ پر ایک برہم تجارتی عدم توازن کا سامنا ہے۔ تراشیدہ اصلاحاتی مہمات میں کام کرنے والے کارکن بھی تنخواہوں اور مراعات پر فوکس رکھنے کے سوا کسی ایسی بامقصد سرگرمی کی تخلیق نہ کر سکے جو معاشرے کے بہتے دھارے اور افراد کے جبلی رجحانات کو ریگولیٹ کر سکتی۔ یہ کسی نظریاتی شعور اور مشنری جذبے سے عاری ایسی بے جان اکیڈیمک سرگرمیاں تھی جن میں فرضی ڈیٹا، مصنوعی قواعد و ضوابط، خوبصورت نقشوں والے بور قسم کے لیکچرز ڈِلیور کرنے کے سوا کچھ شامل نہیں تھا؛ چنانچہ ان بے جان سرگرمیوں کو قابلِ برداشت بنانے کے لیے فائیوسٹار ہوٹلوں کی پُرتعش سہولتوں کو بروئے کار لانا پڑا جس نے ایک ایسے نئے سماجی طبقے کو وجود فراہم کیا جو اپنی مساعی کو زندگی کے مفید ادراک سے ملانے کے بجائے نہایت بیباکی کے ساتھ مشرقی تہذیب کی روح کا استرداد کرنے لگا۔ جس این جی او کلچر کے ذریعے عالمی اداروں نے سرکاری ڈھانچے کی استعدادِ کار بڑھاکر اسے شہریوں کی ضروریات کیلئے زیادہ مفید بنانے کی کوششوں میں سرکھپایا‘ وہ کلچر ہمارے یہاں بجائے خود ایک سماجی سینڈروم کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بظاہر یہ ساری مساعی عام لوگوں کی شکایات کے ازالہ کیلئے تشدد کے استعمال کے رجحان کو کم کرنے کی تگ و دو پہ محمول تھیں لیکن ان کوششوں کے ثمرات عالی شان ہوٹلوں کے منظم سیمیناروں کی پُرکیف فضا سے باہر نہ نکل سکے۔ ان سکیموں کے ذریعے پولیس اور کمیونٹی تعلقات کو بہتر بنانے، عام آدمی کی انصاف تک رسائی کے نظام کو فروغ دینے، نچلی سطح کے جمہوری اداروں کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کیلئے اہلِ وطن کے کام کو مربوط بنانے کی نوید سنائی گئی لیکن ادارہ جاتی ڈھانچے میں ذرہ برابر بہتری پیدا نہیں کی جا سکی۔ کچھ عالمی ادارے امن اور تنازعات کے محرکات کو بہتر طور پرسمجھنے کیلئے تحقیقاتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے لیکن بحالی اور تعمیرِنو کا عمل مومینٹم شاید اس لیے نہ پکڑ سکا کہ ہمارا معاشرہ تبدیل ہونے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved