تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     03-09-2013

مشورہ

جس شہرت کی مجھے خواہش تھی، وہ عام قسم کی شہرت نہیں تھی ! عام قسم کی شہرت کسی بھی شعبے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان ، وکیل، سیاست دان، ڈیزائنر… کسب کمال کرکے کوئی بھی مشہور ہوسکتا ہے۔ تاہم مجھے اس شہرت کی خواہش تھی جس میں لوگ آگے پیچھے پھریں، آنکھوں پر بٹھائیں، گھٹنوں کو ہاتھ لگائیں، مافوق الفطرت سمجھیں… اگر میں یہ کہوں کہ میں حب جاہ کا اسیرتھا تو مبالغہ نہ ہوگا! ایک سیانے کا پتہ چلا کہ مشورے دیتا ہے اور دنیا کی اونچ نیچ خوب سمجھتا ہے۔ وہ جو حافظ ؔنے کہا تھا ؎ مشکلِ خویش برِ پیرِ مغان بُردم دوش کو بتائید نظر حلِ معمّا می کرد تو اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی خواہش کا ذکر کرکے مشورہ مانگا کہ کیا کروں ؟مکالمہ اس طرح ہوا: ’’کیا تم دولت حاصل کرنا چاہتے ہو ؟‘‘ ’’دولت تو ضمنی شے ہے۔ آتی ہے تو آتی رہے لیکن یہ میرا ہدف نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ خلق خدا میری اسیر ہوجائے!‘‘ ’’یہ آسان کام نہیں !یہ وہ زمانہ ہے کہ بڑے بڑوں کو کوئی نہیں گھاس ڈالتا۔ ‘‘ ’’مجھے معلوم ہے کہ یہ مشکل کام ہے ۔ اسی لیے تو رہنمائی کے لیے حاضر ہواہوں۔ بس کوئی ایسا طریقہ بتائیے کہ مشہور ہوجائوں اور خلق خدا تلاش کرتی پھرے۔‘‘ سیانا بابا کافی دیر سرجھکاکر سوچتا رہا۔ پھر اس نے سامنے دیکھنا شروع کردیا۔ پھر یک بارگی اس نے میرے کندھے پر زور سے ہاتھ مارکرکہا۔: ’’ترکیب سمجھ میں آگئی۔ بس تم تصوف کا لبادہ اوڑھ لو۔ شہر ت بھی ہے اور مقبولیت بھی۔‘‘ ’’تصوف ؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ تصوف تو دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنے کا نام ہے۔ سالہا سال شیخ کی خدمت میں گزارے جاتے تھے تب جاکر کہیں خرقۂ تصوف نصیب ہوتا تھا۔‘‘ ’’نہیں! خداکے بندے ! میں اس تصوف کی بات نہیں کررہا۔ سچا صوفی تو چھپا ہوا ہوتا ہے۔ خلقت آسانی سے اسے تلاش نہیں کرسکتی !میں تو اس تصوف کی بات کررہا ہوں جو آج کل مقبول ہے، اور جس کے ذریعے عقل مند حضرات راتوں رات شہرت حاصل کرلیتے ہیں۔‘‘ ’’لیکن میرے پاس تو ایسا کوئی ہنر نہیں !میں نے کسی شیخ کامل کا دامن پکڑا نہ ریاضت کی!‘‘ ’’اس کی آج کل ضرورت بھی نہیں !بس تمہیں یہ کرنا ہوگا کہ لوگوں کو ان کے ماضی کی کوئی بات بتانا ہوگی اور کوئی پیشگوئی مستقبل کی کرنا ہوگی۔ اس زمانے کے لوگ انہی دوباتوں پر مرتے ہیں۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کسی کے ماضی کے واقعات بتانا اور آئندہ کی پیشگوئی کرنا تصوف سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ یہ کام تو بے شمار غیرمسلم بھی کررہے ہیںاور کرسکتے ہیں۔ اس کا آخرت کی فلاح سے کیا تعلق ؟ لیکن جو یہ کرتا ہے، بس شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘ ’’میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح میرا کام چل نکلے گا۔‘‘ ’’بالکل چل نکلے گا! بات کو سمجھنے کی کوشش کرو، عام آدمی روحانیت کا دعویٰ کرنے والے کے چرنوں میں اس لیے بیٹھتا ہے کہ دین کی اسے سمجھ بوجھ نہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ملک میں انصاف ہے نہ قانون!ظلم ہی ظلم ہے۔ عام آدمی بے پناہ مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ روزگار ملتا ہے نہ گرانی سے نجات ،سرچھپانے کی جگہ ہے نہ سفارش ہاتھ آتی ہے ۔اس زبوں حالی میں کوئی ایسی شخصیت مل جائے جو پیشگوئی کردے، کچھ پڑھنے کے لیے بتادے ، مشکلات حل ہونے کا دعویٰ کردے، تو بہت تسکین میسر آتی ہے اور نفسیاتی سہارا ملک جاتا ہے۔ رہا طبقہ امرا تو انہیں ایسے روحانی بابے ہروقت درکار ہوتے ہیں جو عملی زندگی میں واقع ہونے والی مذہبی کمی کو دور کردیں۔ یادرکھو ! طبقہ امراکے لیے چارچیزیں ازحدمشکل ہیں۔ اول پانچ وقت نماز کی پابندی ، دوم :حرام مال سے اور حرام مال کے شائبہ سے بھی اجتناب۔ سوم :مردوزن کے آزادانہ اختلاط سے پرہیز، چہارم :قمار بازی کی تمام جدید شکلوں سے دور رہنا۔ جو ’’صوفی‘‘ اور ’’روحانی‘‘ شخصیات امرا کو ان چارچیزوں کا حکم نہیں دیتے، بس کچھ اور ادووظائف بتادیتے ہیں، دلنشین تقریریں کرتے ہیں، پیشگوئیاں کرتے ہیں اور روحانی مجالس برپا کرتے ہیں، وہ ازحد مقبول ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ بالائی طبقے میں مذہب کی کمی دورکرکے ان کے لیے نفسیاتی اطمینان کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تمہیں ایک اور کام کرنا ہوگا ۔‘‘ ’’وہ کیا ؟‘‘ ’’تمہیں تصوف، اخلاقیات اور روحانیات کے موضوعات پر کتابیں لکھ کر شائع کرنا ہوں گی۔ اس بات کاالتزام کرنا کہ کتابوں کے نام میں روحانیت، فقیر، درویش، بابا، صوفی قسم کے متاثرکن الفاظ ضرور آئیں۔ اس طرح جتنی بھی زیادہ قیمت ہو، کتابیں دھڑادھڑ بک جاتی ہیں۔‘‘ ’’لیکن کشف المحجوب میں تو اس قسم کا کوئی لفظ نہیں۔‘‘ ’’اس لیے کہ کشف المحجوب لوگوں کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی تھی۔ فروخت کرنے کے لیے نہیں تصنیف کی گئی تھی۔ کہاں وہ اور کہاں تم، تم جو حب جاہ کے غلام ہو۔ چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک! ہاں ایک اور کام ضرور کرنا۔ مشہورصحافیوں سے کتاب کے بارے میں کچھ لکھواکر کتاب میں بطور تقریظ شامل کرلینا۔ اور اگر یہ تحریریں پریس میں بھی چھپ جائیں تو کیا ہی کہنا۔ اور ہاں ! ایک ادارہ بھی بنائو، اس کا نام کچھ اس قبیل کا ہو… ادارہ برائے ڈیویلپمنٹ (Development)آف روحانیات۔ ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ اس قسم کا کوئی ادارہ آج تک نہیں بنا۔ ایسے نام تو شہروں کے ترقیاتی اداروں کے ہوتے ہیں۔ بھلاروحانیت کوئی کمرشل سرگرمی تھوڑی ہے کہ اس کے لیے ترقیاتی ادارے بنیں ‘‘۔ ’’بھائی ! اس ملک میں سب چلتا ہے ۔ تمہیں پیر سپاہی نہیں یاد جس کی ایک پھونک کے لیے لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوتا تھا۔ یہاں تو لوگ بابوں کے کہے میں آکر اپنے بچوں کو مار دیتے ہیں۔ یادرکھو، جس ملک میں نوے فی صد لوگ قرآن پاک کے معانی ومفاہیم سے ناآشنا ہوں اور ہرقبر، ہرپتھر، ہرلمبی عبااور ہر پیشگوئی کرنے والے کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوجائیں۔ وہاں تمہاری ’’روحانیت ‘‘ کیوں نہیں کامیاب ہوگی!چلے گی اور خوب چلے گی۔ دین سے لوگوں کی ناآشنائی تمہارے لیے اور تم جیسوں کے لیے نعمت سے کم نہیں !‘‘ اب میرا ارادہ تو یہی ہے کہ سیانے کے مشوروں پر عمل کروں۔ بس آپ حضرات دعا کیجیے تاکہ دل کی خواہش پوری ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved