تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     29-11-2022

مری روڈ کے آٹھ کلومیٹر

ہم پنڈی والوں نے بڑی بڑی سیاسی و احتجاجی تحریکوں کے اتار چڑھائو دیکھ رکھے ہیں۔ ایسی ایسی احتجاجی تحریکیں جو کبھی خیبر سے کراچی تک پھیلی ہوتی تھیں۔ کبھی ملک بھر میں تاجر برادری شٹر ڈائون کرتی تھی تو کبھی چاروں صوبوں میں پہیہ جام کیا جاتا تھا، کبھی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ٹائر جلا کر سڑکیں و چوراہے بند کیے جاتے تھے تو کبھی دیواروں پر اپنے مطالبات اور مخالفین پر الزام تراشی سے بھری وال چاکنگ کی جاتی تھی۔ ہرطرف بینرز آویزاں کیے جاتے تھے اور شہر کی دیواریں پوسٹرز سے بھر دی جاتی تھیں۔ احتجاج کے بھی کچھ اصول ہوتے تھے‘ کچھ طور طریقے ہوتے تھے‘ یہ نہیں تھا کہ جب اور جس کا دل چاہے‘ منہ اٹھا کر سڑک بند کر دے۔ راولپنڈی کا لیاقت باغ، لاہورکا مینارِ پاکستان اور کراچی میں مزارِ قائد کسی بھی سیاسی، مذہبی یا احتجاجی تحریک کی آخری جلسہ گاہ ہوتے تھے جہاں حتمی پاور شو کیا جاتا تھا۔ پہلے احتجاج کبھی کبھار ہی ہوتا تھا لیکن جب ہوتا تھا تو پھر غریب کے کانوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک‘ ہر جگہ آواز پہنچتی تھی اور اس کا اثر بھی ہوتا تھا۔ احتجاج کی ڈیڈلائن سے پہلے مظاہرین کے ساتھ کوئی حکومتی یا انتظامی نمائندہ مذاکرات کرتا اور معمولاتِ زندگی کو بحال رکھنے کے لیے کوشش کرتا لیکن اب تو احتجاجی سائنس یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب ٹرین مارچ، پہیہ جام اور شٹرڈائون کے لمبے چکروں میں کوئی نہیں پڑتا۔ اب طویل دھرنوں اور لانگ مارچ کے لیے بھی عوام نہیں نکلتے اور نہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کی سب سے مقبول جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی سبھی پارٹیاں مینارِ پاکستان کے بجائے مختلف سڑکوں‘ چوکوں ہی میں میلہ سجا لیتی ہیں تاکہ چند سو افراد ہی سڑکیں بلاک کرکے ہزاروں یا لاکھوں کا کام دے سکیں۔
راولپنڈی میں لیاقت باغ کا میدان بھرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا مگر اب اس کی جگہ مری روڈ جیسی مصروف ترین شاہراہ پر ٹریفک جام کرکے کام چلایا جاتا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اب سیاسی، مذہبی یا احتجاجی تحریکوں کی کامیابی یا ناکامی کا سارا دارو مدار راولپنڈی میں لیاقت باغ سے لے کر فیض آباد تک ہوتا ہے، یعنی مری روڈ کا یہ آٹھ کلومیٹر کا علاقہ ہی کسی بھی قسم کے احتجاج کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ہرکسی نے یہ آسان فارمولہ سمجھ لیا ہے کہ لیاقت باغ چوک میں دو‘ چار ہزار بندے اکٹھے کر لو، راولپنڈی اسلام آباد کے مابین سب سے مصروف شاہراہ مری روڈ خودبخود بلاک ہو جائے گی اور پھر صرف ایک سڑک نہیں بلکہ جڑواں شہروں میں ٹریفک کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس طرح حکومت یا انتظامیہ پر دبائو بڑھ جائے گا۔ پہلے پہل یہ فارمولہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا اور احتجاجی مظاہرین پہلے لیاقت باغ سے فیض آباد تک مری روڈ کے آٹھ کلومیٹرعلاقے میں خوب شور ڈالتے اور پھر فیض آباد کے علاقے میں دھرنا دے دیتے، جس سے حکومت مذاکرات کرنے اور مظاہرین کے مطالبات سننے پر مجبور ہو جاتی۔ یہ روایت چار‘ پانچ برس پہلے تک تو کامیابی سے چلتی رہی لیکن پھر آہستہ آہستہ سرکار نے احتجاجی تحریکوں کے اس ٹی ٹونٹی فارمیٹ سے نمٹنے کی حکمت عملی مرتب کر لی۔ اب انتظامیہ اور پولیس نے جوابی فارمولے سیکھ لیے ہیں کہ کس کو کہاں اور کیسے روکنا ہے۔ دھرنے کے شرکا کو اٹھانے کے لیے سخت اقدامات کے بجائے انہیں کس طرح بیٹھنے اور دھرنا دینے سے پہلے ہی منتشر کرنا ہے، ان کو کہنا کیا ہے اور کرنا کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار وفاقی حکومت کسی مشکل میں پھنستی دکھائی نہ دی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے سرکاری خزانے سے پچیس کروڑ روپے سے زائد فنڈز خرچ ہوئے لیکن وفاقی وزیر داخلہ اس طرح پریشان دکھائی نہ دیے جیسے سابق ادوار میں ہوتا تھا بلکہ 28 اکتوبر کو لبرٹی چوک‘ لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ‘ جسے ابتدائی پلان کے مطابق چار نومبر کو اسلام آباد پہنچنا تھا‘ کی سمجھ خود پی ٹی آئی کے ورکرز کو بھی نہیں آ سکی کہ وہ لانگ مارچ کب اور کہاں ختم ہوا۔ ابتدا میں تو اس کے لیے ایک طے شدہ روٹ دیا گیا تھا مگر پھر اس کی شاخیں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی مختلف شاہراہوں پر خاک اڑاتی رہیں۔ جن قافلوں نے روات میں جمع ہو کر مریڑ چوک کے راستے فیض آباد سے اسلام آباد داخل ہونا تھا‘ ان کے بارے خود سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی قیادت کو بھی سمجھ نہ آئی کہ روات کے بعد وہ قافلے کہاں گئے۔ عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں‘ لہٰذا انہوں نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے شاید اسی میں بہتری سمجھی کہ اب احتجاج کا راستہ چھوڑ دیا جائے لیکن یہاں 'میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا‘ والی صورتحال درپیش تھی۔ لانگ مارچ کو فوری اور یکسر ختم کرنا آسان نہ تھا‘ اس لیے لانگ مارچ کا ٹیسٹ میچ ختم کر کے اس کی جگہ چھبیس نومبر کو راولپنڈی میں مری روڈ کے آٹھ کلومیٹر علاقے میں احتجاج کا ٹی ٹونٹی میچ کھیلنے کا اعلان کیا گیا جس پر وفاقی وزرا اور اتحادی جماعتیں لانگ کے بعد شارٹ مارچ کے اعلان سے نہ صرف مطمئن ہو گئیں بلکہ شاید پہلے سے زیادہ پُراعتماد بھی۔ اُدھر پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت اور انتظامیہ بھی سمجھ گئیں کہ :
الجھا ہے پائوں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
جب خان صاحب نے اعلان کیا کہ وہ چھبیس نومبر کو راولپنڈی آئیں گے اور وہاں سرپرائز دیں گے تو اس پر طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں کہ یہ سرپرائز خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین (وفاقی حکومت) کو دیں گے یا پھر اپنے ہی پارٹی ورکرز اور ایک ماہ سے لانگ مارچ میں شریک کارکنوں کو دیں گے؟ خود پی ٹی آئی قیادت نے بھی اتنا وقفہ شاید اسی لیے کیا تھا کہ اس دوران کوئی ایسا نیا پلان سوچا جا سکے کہ جس سے پچھلے بیانیوں سے جان چھوٹ جائے اور یہ لانگ مارچ شارٹ ہو جائے۔
چھبیس نومبر کو ایک بار پھر راولپنڈی؍ اسلام آباد کی سڑکیں بند ہو گئیں، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے سگنلز بند کر دیے گئے۔ اس دن جڑواں شہروں میں جامعات کے ہونے والے امتحانات منسوخ کرنا پڑے۔ لوگوں کا کاروبار متاثر ہوا، میٹرو بس سروس کی بندش سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یعنی جڑواں شہروں میں کاروبارِ زندگی عملاً معطل ہو کر رہ گیا۔ ایک ماہ کے لانگ مارچ سے خان صاحب اور ان کی ٹیم کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ایک دن کے جلسے اور طویل لانگ مارچ میں کیا فرق ہوتا ہے۔ انہیں یہ بھی علم ہو گیا ہو گا کہ اس بار غیر منظم اور ٹولیوں میں بٹے لانگ مارچ نے کارکنوں کا جوش ٹھنڈا کر دیا اسی لیے اسلام آباد میں پریڈگرائونڈ جانے یا لیاقت باغ کے تاریخی میدان کو بھرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی اور اپنا پنڈال ایک مصروف سڑک پر سجا لیا گیا۔ یوں مری روڈ پر طویل نظر آنے والی جلسہ گاہ نے شرکا کی لاج رکھ لی اورکپتان نے 'اسمبلیوں سے استعفوں‘ کا اعلان کرکے کمبل سے بھی جان چھڑا لی۔ لانگ مارچ کے اختتام کے اعلان پر وفاقی حکومت اور جڑواں شہروں کے عوام نے سکھ کا سانس لیا اور پی ٹی آئی کو بھی فیس سیونگ مل گئی لیکن حقیقت میں اب اس تحریک کا انجام بھی وہی نظر آتاہے جو اس سے قبل لیاقت باغ سے فیض آباد تک مری روڈ کے آٹھ کلومیٹر علاقے میں چلائی گئی دیگر تحریکوں کا ہوا تھا۔ اب ہم اہالیانِ راولپنڈی یہ امید کر رہے ہیں کہ آئندہ کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت راولپنڈی آکر دھرنا دینے سے قبل ہزار بار سوچے گی کہ اب کوئی نئی احتجاجی حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔ فی الحال تو استعفوں کا سرپرائز بھی پی ٹی آئی قیادت کے گلے پڑچکا ہے کہ اس اعلان کوکیسے انجام تک پہنچایا جائے تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved