یہ بیسویں صدی کے آغاز کا ذکر ہے تب پوٹھوہار کے دیہات میں زندگی بہت سادہ ہوا کرتی تھی۔ تعلیم عام نہیں تھی‘ اِکادکا سکول ہوا کرتے تھے جہاں میلوں پیدل چل کر جانا پڑتا تھا۔ استاد کا درجہ باپ کا ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب استاد بچوں کو اضافی وقت میں بلامعاوضہ پڑھاتے تھے اور جب ان کے شاگرد امتحان میں کامیابی حاصل کرتے تو یہی ان کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا۔ ایسے ہی محنتی اور بے لوث اساتذہ میں ایک نام منشی سنت سنگھ کا تھا۔ ان کی زندگی اپنے شاگردوں کے لیے وقف تھی۔ یوں تو ان کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جن کے دل میں اپنے استاد سے محبت کی شمع جل رہی تھی لیکن چند شاگرد ایسے تھے جو کاروبارِ زندگی میں کامیابی کی بلند منزلوں پر پہنچے۔ کامیابی کی ان بلندیوں پر پہنچ کر بھی وہ اپنے محسن کو نہیں بھولے تھے جس کی شبانہ روز محنت نے انہیں یہاں تک پہنچایا تھا۔ وہ تعداد میں پانچ تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ کس طرح اپنے محسن استاد منشی سنت سنگھ کے احسان کا بدلہ چکا سکتے ہیں۔ ان کے استاد کی زندگی بہت سادہ تھی۔ روپیہ پیسہ ان کی خواہش نہیں تھی۔ تب ان پانچوں کے ذہن میں ایک ہی بات آئی‘ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ ان کے استاد کا نام ہمیشہ باقی رہے۔ کیوں نہ ایک سکول بنایا جائے اور اس سکول کا نام اپنے استاد کے نام پر رکھا جائے۔ استاد منشی سنت سنگھ کو امر بنانے کے اس طریقے پر سب نے اتفاق کیا۔ یوں سنت سنگھ خالصہ سکول چکوال کا قیام عمل میں آیا۔ یہ 1910ء کا سال تھا‘ جب سکول کی عمارت مکمل ہوئی۔ اسے دیکھنے والوں کا خیال تھا جس طرح تاج محل شاہجہاں کی ممتاز محل سے محبت کی لازوال یادگار ہے‘ اسی طرح ایس ایس خالصہ سکول چکوال‘ منشی سنت سنگھ کے پانچ شاگردوں کا ان کے لیے محبت اور عقیدت کا انمول تحفہ ہے۔ یہ سکول اس زمانے کی خوب صورت عمارت تھی جو کھلی‘ روشن اور ہوادار تھی اور جس کی لوکیشن مرکزی مقام پر تھی۔ سکول کے ساتھ دور دراز کے طالب علموں کے لیے ہاسٹل کی سہولت بھی تھی۔ سکول کی تعمیر میں بنیادی کردار سردار چیت سنگھ‘ ہربنس سنگھ سیستانی اور سردار موتا سنگھ کا تھا۔ ان سب کا شمار رؤسا میں ہوتا تھا۔ اس سکول کے طلبہ میں سکھ‘ ہندو اور مسلمان شامل تھے۔ چکوال کے اس زمانے کے تعلیمی نقشے پر چند ہی قابلِ ذکر سکول تھے جن میںسکھوں کا ایس ایس خالصہ سکول‘ ہندوؤں کا آریہ سکول اور مسلمانوں کا اسلامیہ سکول شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایک گورنمنٹ ہائی سکول بھی تھا جہاں پر ہرکمیونٹی کے بچے پڑھتے تھے۔
سردار چیت سنگھ قریبی علاقے منڈے (Munday) کا رہنے والا تھا۔ اس کی تعلیم اور صحت کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس نے گاؤں میں ایک ہسپتال قائم کیا جس میں اس زمانے کے لحاظ سے تمام تر سہولتیں میسر تھیں۔ جب ایس ایس خالصہ سکول چکوال اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو سردار چیت سنگھ نے اپنے گاؤں منڈے میں ایک اور سکول کی بنیاد رکھی جو پہلے پرائمری سکول تھا‘ بعد میں مڈل اور پھر ہائی سکول بن گیا۔ اس سکول کی خاص بات ہاسٹل کی سہولت تھی تاکہ آس پاس کے گاؤں کے بچوں کو رہائش کا مسئلہ نہ ہو۔ اس سکول کا نام سردار چیت سنگھ نے اپنے والد ہیرا سنگھ کے نام پر رکھا۔ سکولوں کا اجرا اپنے پیاروں کی یاد کو دوام دینے کا بہترین ذریعہ تھا۔
1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو پنجاب بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ مسلمان آبادی کی اکثریت والا حصہ پاکستان اور دوسرا حصہ ہندوستان میں شامل ہو گیا۔ دونوں طرف سے لوگوں نے کثیر تعداد میں ہجرت کی۔ چکوال کے سردار چیت سنگھ‘ ہربنس سنگھ سیستانی اور موتا سنگھ بھی اپنے خاندانوں سمیت ہندوستان چلے گئے۔ اپنے گھروں‘ اپنی زمین اور اپنے چکوال کو چھوڑنا آسان نہ تھا‘ ان کا جنم اسی مٹی میں ہوا تھا۔ پوٹھوہار کی انہی فضاؤں نے انہیں پالا تھا۔ یہی پگڈنڈیاں‘ یہی کھیت‘ یہی اونچے نیچے ٹیلے ان کی زندگیوں کا حصہ تھے اور اب یہ سب کچھ ان کی زندگیوں سے منہا ہونے جا رہا تھا۔ اور پھر ایس ایس خالصہ سکول چکوال‘ جو ان کی محبت کی نشانی تھی‘ اب ان سے جدا ہو رہا تھا۔ چکوال سے رخصت ہو کروہ دہلی چلے گئے اور زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ زندگی تو جیسے تیسے گزر ہی جاتی ہے لیکن ان کے دِلوں میں بسا چکوال انہیں ہر دم بے چین رکھتا تھا۔ سردار چیت سنگھ اور ہربنس سنگھ سیستانی نے کاروبار دوبارہ منظم کیے اور خوشحالی پھر ان کے قدم چومنے لگی۔
سردار چیت سنگھ اور ہربنس سنگھ کے دِلوں میں پھر سے ایس ایس خالصہ سکول چکوال کی یاد مہکنے لگی۔ کیوں نہ دہلی میں ایک سکول بنایا جائے؟ بالکل ایس ایس خالصہ سکول چکوال کی طرز پر؟ انہوں اس کے لیے ایک سوسائٹی بنائی۔ اسی دوران سردار چیت سنگھ کا انتقال ہو گیا۔ اب اس خواب کی تکمیل اس کے جگری یار ہربنس سنگھ نے کرنا تھی۔ اس نے سکول کے لیے دہلی کے مہنگے علاقے لاجپت پور میں کئی کنال جگہ حاصل کی اور وہاں اپنے خوابوں کا نگر سکول بنوایا۔ سکول کی تعمیر کے بعد اس نے سوچا سکول کی پیشانی پر کیا نام لکھا جائے؟ خالصہ سکول دہلی؟ اس نے یہ نام پھر سے دہرایا۔ تب اس کے اندر کوئی چیز جیسے ٹوٹ گئی۔ وہ تو خالصہ سکول چکوال کے نام سے آشنا تھا۔ وہ خود1947ء میں چکوال سے دہلی چلا گیا تھا لیکن چکوال اس کے اندر سے ابھی تک نہیں گیا تھا۔ تب اچانک ایک خیال سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے سکول کا نام سوچ لیا تھا ''خالصہ سکول (چکوال) دہلی‘‘۔ ہے نا عجیب بات! کہاں دہلی اور کہاں چکوال۔ لیکن کہتے ہیں محبت میں فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔
اب ہم پھر ایس ایس خالصہ سکول چکوال کی طرف آتے ہیں جو 1947ء کے بعد گورنمنٹ سکول نمبر 1بن گیا تھا۔ کئی برسوں بعد ڈاکٹر عابد کیانی اس سکول کے ہیڈ ماسٹر بنے۔ اس سکول کی کہانی کے کچھ حصے انہوں نے ہی مجھے سنائے۔ ان کی زبانی خالصہ سکول کی دلچسپ کہانی سن کر ایک دن میں نے چکوال جانے کا قصد کیا۔ موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے میں بلکسر سے چکوال کی طرف مُڑ گیا اور پھر میں نے وہ عمارت دیکھی جہاں خالصہ سکول کا آغاز ہوا تھا۔ ڈاکٹر عابد کیانی میرے منتظر تھے۔ وہ مجھے سکول کے مختلف حصوں میں لے گئے۔ سکول کے صدر دروازے پر سکول کے بانی سردار چیت سنگھ کی بڑی تصویر لگی تھی۔ ہم سکول کے برآمدوں میں چلتے ہوئے ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ تب کیانی صاحب نے بتایا کہ 2010ء میں اس سکول کو بنے سو برس ہوئے تو یہاں پر ایک بڑا اجتماع ہوا۔ اسی طرح منڈے سکول کی صد سالہ تقریب 2018ء میں ہوئی جس میں اور لوگوں کے علاوہ ہندوستان سے چیت سنگھ کا پوتا رتن دیپ سنگھ کوہلی اپنی بیگم پرم جیت کور کے ہمراہ آیا تھا۔ عابد کیانی بتاتے ہیں کہ کوہلی کے آنے سے پہلے ہم منڈے گاؤں گئے اور مسجد سے اعلان کروایا کہ چیت سنگھ کا پوتا آرہا ہے۔ تب ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ کیانی صاحب کے بقول جب رتن دیپ سنگھ کوہلی اپنے دادا کے گاؤں منڈے پہنچا تو گاؤں کے بڑے بوڑھے‘ عورتیں اور بچے چیت سنگھ کے پوتے کو دیکھنے کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ وہی سردار چیت سنگھ جس نے ان کے گاؤں میں ہسپتال اور سکول بنوایا تھا۔ کیانی صاحب کہتے ہیں اس روز مجھے یقین ہو گیا کہ محبت اور خدمت کا دورانیہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1چکوال میں سردار چیت سنگھ کی تصویر اور دہلی کے خالصہ سکول میں چکوال کا نام دراصل محبت کی دائمی تاثیر کا اَن مٹ اظہار ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved