زندگی لین دین سے عبارت ہے۔ زندگی اگر ہم سے کچھ لیتی ہے تو بہت کچھ دیتی بھی ہے مگر وہ سب کچھ ہر ایک سے ہضم نہیں ہو پاتا۔ انسان کو سبھی کچھ ہضم کرنا پڑتا ہے؛کامیابی بھی اور ناکامی بھی۔ زندگی ایک ایسا سفر ہے جس میں بہت سے موڑ منزل کا درجہ رکھتے ہیں۔ کسی حتمی منزل کی دُھن میں مگن رہنے کے بجائے ہر اچھے موڑ کو منزل سمجھ لینے ہی میں دانش مندی ہے۔ اگر کوئی طے کرلے کہ کسی مقام پر پہنچ کر ہی خود کو کامیاب گردانے گا تو اُس کے لیے ذہنی الجھن بڑھ جائے گی کیونکہ ایسی حالت میں وہ کسی بھی موڑ پر، کسی بھی مقام پر اپنے آپ کو تسلی نہیں دے پائے گا اور یوں اُسے حقیقی سکون آسانی سے نہیں مل پائے گا۔ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو کچھ نہیں ملتا اور کسی کو سب کچھ مل جاتا ہے۔ زندگی کے دامن میں سب کے لیے کوئی نہ کوئی نعمت، کوئی نہ کوئی کام کی چیز ضرور ہوتی ہے جو مل کر رہتی ہے۔ یہ دنیا ہمارے دم سے ہے اور ہمارے لیے ہے۔ ہم اِس دنیا سے بہت کچھ پاتے ہیں۔ یہ حقیقت تسلیم کرتے ہی بنے گی کہ جو کچھ ہم اِس دنیا اور زندگی کو دیتے ہیں اُس کے بدلے میں جو کچھ ملتا ہے وہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مگر یہ ہے کہ ہم شکر ادا نہیں کرتے۔ جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ ہم پر کچھ دینے کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے۔
حالات کے بدلنے سے کبھی ہمارے لیے الجھن بڑھتی ہے اور کبھی آسانی پیدا ہوتی ہے۔ یہ کھیل یونہی چلتا رہتا ہے۔ جب ہم الجھن میں ہوتے ہیں تب زندگی کا شکوہ کرتے نہیں تھکتے مگر جب آسانیاں پیدا ہوتی ہیں تب ہمیں یاد نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی اُس وقت قابلِ قبول ہوتا ہے جب ہم بندوں کے احسان مند ہوں۔ جس نے مدد کی ہو اُس کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ یہ بات خود اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے اور ایک حدیث شریف اسی مفہوم کی ہے کہ جو لوگوں کا شکرگزار نہیں‘ وہ اپنے رب کا شکرگزار نہیں۔ ہر وقت حالات کا رونا روتے رہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ افعال میں سے ہے۔ دل و نظر کا حقیقی استحکام اُنہیں نصیب ہوتا ہے جو اپنے خالق و مالک کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ جذبۂ تشکر انسان کو فکر و نظر کے توازن سے ہم کنار رکھتا ہے اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کی جدوجہد میں کامیاب رہتا ہے۔
ہر معاشرے میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو اپنے عمومی حالات سے یکسر مطمئن نہیں رہتے۔ وہ دن رات یہی رونا روتے رہتے ہیں کہ جو کچھ زندگی سے ملا ہے وہ کم ہے یا استحقاق سے کم ہے۔ کس کا کتنا استحقاق ہے یہ تو ہمارے خالق ہی کو معلوم ہے۔ ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اُسے تقدیر نے بہت کم نوازا ہے۔ یہ شکوہ آپ اُن کی زبان پر بھی پائیں گے جنہیں قدم قدم پر بہت کچھ ملتا ہے، بلکہ ملتا ہی رہتا ہے۔ انسان کا معاملہ ہے ہی اِتنا عجیب کہ لاکھ کوشش کیجیے‘ سمجھ میں آنے والا نہیں۔ ہم کبھی اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ عدل خالقِ کائنات کی ایک نمایاں صفت ہے۔ اس صفت ہی کی بنیاد پر یہ سارا نظامِ کائنات چل رہا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں استحقاق کے مطابق نہیں ملا تو ہم دراصل اپنے خالق کی صفتِ عدل کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ تنگ دستی اور فراخی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہوتی ہے۔ زندگی کے حوالے سے شکوہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہمیں قدرت کا نظام قبول کرنے سے انکار ہے۔ ہر مشکل اور ہر آسانی خالق کی طرف سے ہے۔ آسانی اس لیے ہوتی ہے کہ ہم اُس کے شکر گزار ہوں اور مشکل اس لیے ہوتی ہے کہ اُس کی بخشی ہوئی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے پوری استقامت کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرنے پر متوجہ ہوں۔
زندگی ہمیں جو کچھ دیتی ہے اور جو کچھ ہم سے لیتی ہے اُسے نبھانے کے لیے ہاضمے کا درست اور مضبوط ہونا لازم ہے۔ بالی وُڈ کے معروف فلم میکر اور شومین کا درجہ رکھنے والے سبھاش گھئی نے ایک بار کہا تھا صرف یوسف صاحب (دلیپ کمار) سٹارڈم (Stardom) سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہونے کا ہنر جانتے ہیں! سبھاش گھئی نے بالکل درست کہا۔ بالی وُڈ میں سٹارڈم کے تقاضے اگر کسی نے بھرپور توازن اور تیاری کے ساتھ نبھائے ہیں تو وہ دلیپ کمار تھے۔ اُنہوں نے زندگی بھر اپنے آپ کو اُس مقام سے نیچے نہیں آنے دیا جو انڈسٹری اور کروڑوں چاہنے والوں نے اُنہیں بخشا تھا۔ جب اُن کا کیریئر عروج پر تھا تب بھی وہ خبروں میں اِن تھے اور جب وہ فلموں سے دور ہوئے، خالص ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کرنے لگے تب بھی میڈیا میں پوری طرح اِن رہے۔ اُنہوں نے فلمی دنیا میں تقریباً 77 سال گزارے۔ ابتدائی چند برس میں وہ زیادہ نمایاں نہیں تھے۔ پھر جب 1947ء میں ''جگنو‘‘ کی کامیابی کے بعد وہ سٹار بنے تب سے مرتے دم تک میڈیا والے اُن کے تعاقب میں رہے اور وہ کبھی اپنے پرستاروں کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہے۔ دلیپ صاحب نے سٹارڈم کو نبھانے پر بہت توجہ دی‘ بہت محنت کی۔ اُن کی شخصیت میں بڑپّن یونہی، محنت کے بغیر پیدا نہیں ہوا۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو سٹارڈم کے لیے کھپادیا۔ علم و فن کی دنیا سے بھی رابطہ رکھا، اپنے شعبے میں بھی ہمیشہ بھرپور دلچسپی لیتے رہے اور عام آدمی کی نظر میں بھی اُن کا وقار ہمیشہ برقرار رہا۔ یہ زندگی بھر کی ریاضت تھی جو انہوں نے پوری دیانت سے کی۔
آج ایسے جفاکش خال خال ہیں۔ لوگ تھوڑی سی کامیابی اور شہرت پاکر آپے سے باہر ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ آج معاملات بہت مختلف ہیں۔ اب لوگوں میں کامیابی ہضم کرنے کی سکت ہے نہ ناکامی کی۔ ناکامی کی صورت میں بھی لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور کامیاب ہونے پر بھی کسی کے قابو میں نہیں رہتے۔ ناکامی مایوسی میں مبتلا کرکے بدحواس کرتی ہے اور کامیابی اعتماد میں ضرورت سے کہیں زیادہ اضافے کی صورت میں گھمنڈ اور سرکشی کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اب کسی بھی معاملے کو برتنے اور بطریقِ احسن نمٹنے کی تربیت یقینی بنانے پر کچھ خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ شوبز کی اکثر شخصیات کا یہ حال ہے کہ ذرا سی شہرت ملنے پر ہی دماغ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ بھرپور شہرت تو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ پوری شخصیت ہی مسخ ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہی حال کھیلوں کی دنیا کا بھی ہے۔ راتوں رات ملنے والی کامیابی بیشتر کھلاڑیوں سے ہضم نہیں ہوتی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی پچھلی شخصیت کو بھول کر ایسی شخصیت کا چولا اوڑھ لیتے ہیں جو کسی بھی طور اُن کے وجود سے میل نہیں کھاتی۔ اِس کے نتیجے میں اصل شخصیت کچھ کی کچھ ہوکر رہ جاتی ہے۔
نمایاں ترین شخصیات عام آدمی کو بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ تمام شعبوں کی نمایاں ترین شخصیات معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے اپنا کردار یاد رکھتی تھیں۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ نئی نسل اُن سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھے۔ نئی نسل معروف ترین اور کامیاب ترین شخصیات کو دیکھ کر تحریک پاتی ہے۔ یہ تحریک فن، مہارت اور عمل کے حوالے سے ہوتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اب معروف ترین شخصیات کچھ اچھا کرنے کی تحریک تو کم دیتی ہیں، معاملات کو خراب کرنے کی راہ زیادہ سجھاتی ہیں۔ کسی معروف اداکار کی اوچھی اور نامعقول حرکتیں دیکھ کر نئی نسل بہت کچھ اُلٹا بھی سیکھتی ہے۔ اُن کی زندگی میں پایا جانے والا عدم توازن تحت الشعور کی سطح پر اُن کے پرستاروں میں بھی در آتا ہے۔
آج نئی نسل کو مجموعی زندگی کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کامیابی اور ناکامی‘ دونوں کا حق ادا کرنے کے لیے ہمارے باطن کے ہاضمے کا درست ہونا لازم ہے۔ یہ کام خود بخود نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو ہر طرح کی کیفیت کے لیے تیار کرنے میں خاصی جاں فشانی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اِسی طور زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسا اور شکر گزاری انسان کو ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے۔ زندگی کے بارے میں مثبت رویہ سب کے لیے ناگزیر ہے مگر نئی نسل کے لیے خاص طور پر یہ ضروری ہے کیونکہ ہاضمہ چھوٹی عمر سے درست ہوگا تو زندگی کو احسن طریقے سے ہضم کرنا ممکن ہوسکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved