سپہ سالارکی تبدیلی‘ کیا سب سے بڑے عسکری ادارے کی سوچ اور حکمتِ عملی میں کسی بنیادی تبدیلی کا سبب بنے گی؟
حالات معمول پر ہوں تو اداروں کی پالیسی میں تسلسل اور استمرار ہوتا ہے۔ آج مگر ہم غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان حالات نے اس سوال کو اہم بنا دیا ہے۔ پاکستان کی یہ اشد ضرورت ہے کہ سپہ سالار کی تبدیلی معمول کا ایک واقعہ بن جائے۔ اس کے لیے جنرل عاصم منیر صاحب کو ادارے کی حکمتِ عملی کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہوگا۔ آج انہیں کس صورتِ حال کا سامنا ہے اور ان کی حکمتِ عملی میری دانست میں کیا ہونی چاہیے‘ میں اسے چند نکات کی صورت میں بیان کر رہا ہوں:
1۔ جنرل عاصم منیر صاحب کے کندھوں پر دہرا بوجھ ہے۔ ایک بوجھ تو اُس حلف کا ہے جو انہوں نے اٹھا لیا۔ اس کے تحت وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں۔ دوسرا بوجھ وہ ہے جو ان کے پیش رو حضرات ان کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ پہلا بوجھ تو انہیں اُس وقت تک اٹھائے رکھنا ہے جب تک وہ اس منصب پر فائز ہیں۔ قوم دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو۔ اللہ انہیں بھرپور توانائی اور ہمت سے نوازے تاکہ وہ اس حلف کی پاسداری کر سکیں۔
جہاں تک دوسرے بوجھ کا تعلق ہے تو اس سے جلد از جلد نجات ہی میں جنرل صاحب‘ ان کے ادارے اور اس ملک کی بھلائی ہے۔ یہ بوجھ سیاست کا ہے۔ یہ تاریخ کا جبر تھا یا کچھ افراد کی بے لگام تمنائیں‘ اس بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ ہمیں اس پالیسی کے نتائج کو دیکھنا ہے جو قومی سیاست کے باب میں ان کے پیش رو حضرات نے اپنائی۔ اس پالیسی نے فوج کو سیاسی جماعتوں کے متوازی لا کھڑا کیا۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں ایک دوسرے کی حریف ہوتی ہیں۔ اگر عوام کا ایک طبقہ ایک سیاسی جماعت کا حامی ہے تو دوسرا مخالف۔ کوئی ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کا دفاعی ادارہ‘ کسی ایسی کشمکش میں ایک فریق سمجھا جائے۔
سقوطِ ڈھاکہ کا حادثہ بھی اسی وجہ سے ہوا کہ ایک سیاسی جماعت اور دفاعی ادارے نے ایک دوسرے کو اپنا حریف جانا۔ اُس وقت پاکستان کی سیاسی و عسکری فیصلہ سازی کا مرکز ایک تھا۔ اس لیے اس حادثے کی وجوہات کو سیاسی اور عسکری دائروں میں تقسیم کرنا بے معنی ہے۔ اگر اُس وقت فوج اقتدارکی سیاست میں فریق نہ ہوتی تو ملک کے اتحاد کے لیے ایک کردار ادا کر سکتی تھی۔ ریاستی ادارے یہ ذمہ داری اسی وقت نبھا سکتے ہیں جب وہ اقتدار کی سیاست سے دور رہتے ہوئے‘ آئین کے مطابق اپنا فرضِ منصبی ادا کریں اور ان کی غیر جانب داری غیر مشتبہ ہو۔
لاپتا افراد اور سینیٹر اعظم سواتی صاحب کا مقدمہ‘ دوسرے بوجھ میں شامل ہیں جن سے جنرل صاحب کو فوری طور پر چھٹکارا پانا ہوگا۔ انہیں قوم کو یقین دلانا ہے کہ ان معاملات سے عسکری اداروں کا کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر ہے تو اتنا ہی جتنا ملک کا قانون اجازت دیتا ہے۔ اعظم سواتی صاحب سے جو جرم منسوب ہے‘ اس کے لیے ملک میں قانون موجود ہے۔ اُن پر تشدد کے حوالے سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں اور بعض لوگ ایک ادارے کی طرف انگلی اٹھا رہے ہیں۔ اللہ کرے جنرل صاحب عوام کو وہ جوابات فراہم کر سکیں جو عسکری ادارے پر لگنے والے ہر الزام کا توڑ ثابت ہوں۔
2۔ جنرل صاحب کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ابلاغ ہو جانا چاہیے کہ سیاست اور اقتدار کے کھیل سے فوج کو دلچسپی ہے نہ اس کا کوئی تعلق ہے۔ عسکری ایوانوں میں کوئی گیٹ نمبر چار نہیں ہے۔ آج کے بعد سیاسی تنازعات کا حل‘ اہلِ سیاست ہی کو تلاش کرنا ہو گا۔ یہ کام‘ وہ بہتر جانتے ہیں۔ انتخابات کب ہونے ہیں‘ کیسے ہونے ہیں‘ یہ طے کرنا سیاست دانوں کا کام ہے۔ کرپشن کا خاتمہ بھی فوج کی ذمہ داری نہیں۔ براہِ کرم ان امور کے لیے فوج کونہ پکارا جائے۔
3۔ میڈیا کے ایک حصے کے ساتھ عسکری قیادت کے غیر ضروری قرب نے بھی ادارے کے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس قربت کی بنیاد پر اہلِ صحافت میں دو طبقات وجود میں آئے۔ صحافی سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں جوشیلی تقریریں کرتے اور یہ تاثر دیتے رہے کہ ان کی معلومات کا مآخذ عسکری ادارے ہیں۔ اس تاثر کا خاتمہ جنرل صاحب کے ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے تاکہ کوئی یہ کہتا سنائی نہ دے کہ 'اب ٹکر کے لوگ سامنے آئے ہیں‘۔ فوج اور صحافت میں ٹکر کیسی؟ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اہلِ صحافت کے تعلقات آئی ایس پی آر اور پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رہیں۔
4۔کچھ لوگ‘ حسبِ روایت‘ جنرل صاحب کے پاس جاکر اُن کو مفروضہ نظریاتی سرحدوں کا محافظ بھی ثابت کریں گے اور ان کو باور کرائیں گے کہ ان سرحدوں کی حفاظت اُن کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ انہیں ایسے لوگوں سے خبردار رہنا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی ملک کی کوئی نظریاتی سرحد نہیں ہوتی۔ نظریہ افراد کا ہوتا ہے‘ ملکوں کا نہیں۔ یہ انفرادی ہو سکتا ہے اور اجتماعی بھی۔ اس کی حفاظت افراد کی ذمہ داری ہے اور وہ صدیوں سے یہ کام کرتے آئے ہیں۔ اس کے لیے سماجی ادارے بنائے جاتے ہیں۔ خاندان‘ مکتب‘ مدرسہ‘ عبادت گاہیں‘ سب یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور یہ انہی کے کرنے کا کام ہے۔ ہمارے ہاں حکومت بھی یہ کام کرتی ہے اگرچہ یہ اس کے فرائض میں شامل نہیں۔ فوج تو ریاست کا ادارہ ہے۔ اس کو ایسے معاملات میں الجھانے والے اس کے خیر خواہ نہیں۔
5۔ قومی بیانیے کی تشکیل بھی فوج کا کام نہیں۔ جنرل عاصم منیر صاحب کے بعض پیشرو حضرات نے رضاکارانہ طور پر یہ خدمت بھی سرانجام دی اور ادارے کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ بیانیے کی تشکیل ایک فطری عمل ہے جس کا تعلق عوام اور سماج سے ہے۔ اسے مصنوعی طور پر عوام پر تھوپا نہیں جا سکتا۔ یہ کام حکومت کو بھی نہیں کر نا چاہیے‘ کجا یہ کہ کوئی ریاستی ادارہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھ لے۔
6۔ اسی طرح معیشت کا سدھار‘ فیڈریشن کی حفاظت‘ تعلیم‘ خارجہ پالیسی کی تشکیل‘ یہ سب حکومت کے کام ہیں۔ یہ حکومت نے طے کرنا ہے کہ امریکہ اور بھارت سے تعلقات کن خطوط پر استوار ہوں۔ چین سے دوستی کی حفاظت کیسے ہو۔ روس کے ساتھ تجارت کرنی ہے یا نہیں۔ کوئی حکومت‘ اس باب میں عسکری قیادت کی معاونت اور مشورے سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ فیصلہ سازی میں اس مشاورت سے کسی غبی کو ہی انکار ہوگا۔ فیصلہ مگر عوام کی منتخب حکومت نے کرنا ہے اور وہی نتائج کے لیے عوام کے سامنے جواب دہ ہوگی۔
7۔ قدرت کے اس کارخانے میں کوئی ناگزیر نہیں۔ پاک فوج میں رجالِ کار کی کمی نہیں اس لیے یہ بھی طے کر لینا چاہیے کہ مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں لینی۔ اس فیصلے سے جہاں آرمی چیف کے وقار میں اضافہ ہوگا‘ وہاں مزید افراد کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اس ادارے اور ملک کی خدمت کر سکیں۔ اچھی روایت بھی صدقہ جاریہ کی طرح ہے۔ جب تک قائم رہتی ہے‘ ابتدا کرنے والے کو اجر ملتا رہتا ہے۔
جنرل عاصم منیرصاحب کی قیادت میں فوج ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہے۔ میری خواہش ہے کہ ابتدا ہی سے یہ باتیں ان کے پیشِ نظر رہیں۔ فوج اور عوام کا اتحاد‘ ان کا ورثہ بنے اور ہم اس دور کو ایک بار پھر لوٹتا دیکھیں جب پاک فوج کی وردی ایک عام شہری کے لیے تحفظ اور محبت کی علامت تھی۔ اللہ تعالیٰ جنرل صاحب کی حفاظت کرے تاکہ وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کر سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved