عسکری کمان کی تبدیلی عمل میں آ چکی ہے۔ ملک میں حالیہ چند روز کے دوران پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سابق وزیراعظم عمران خان کو جلد انتخابات کی تاریخ ملنے کی توقع دم توڑ چکی ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنی جدوجہد کا رخ اب سیاسی محاذ کی جانب موڑ دیا ہے۔ لانگ مارچ کے مقاصد کے حصول میں ناکامی کے بعد شایدعمران خان کو کہیں سے فیس سیونگ نہیں ملی تو انہوں نے خود کو سیاست میں متعلقہ رکھنے اور اپنے حامیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے اپنی آخری لیکن سب سے مؤثر چال چل دی ہے۔ کپتان کی جانب سے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی چوائس کوئی سرپرائز نہیں تھی بلکہ اس پر کافی عرصے سے بحث و مباحثہ جاری تھا؛ تاہم‘ عمران خان اس موقع پر یہ پتا پھینکیں گے‘ لگتا ہے کہ حکومت اس کے لیے تیار نہ تھی اسی لیے اس کی صفوں میں بے چینی صاف نظر آرہی ہے۔ حالانکہ یہ پی ڈی ایم حکومت ہی تھی کہ جب عمران خان قبل از وقت انتخابات کی بات کرتے تھے تو یہ پی ٹی آئی کو پنجاب اور کے پی میں اسمبلیاں نہ توڑنے کا طعنہ دیتی تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آپ اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں تو ہم فی الفور قومی انتخابات کروا دیں گے۔ لیکن اب جب پی ٹی آئی یہ آپشن استعمال کرنے کا عندیہ دے چکی ہے تو حکومتی مؤقف دوبارہ تبدیل ہوگیا ہے کہ اسمبلیوں کو ہر حال میں اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں اور پی ٹی آئی کے اراکین باقی اسمبلیوں سے بھی باہر نکل آتے ہیں تو سیاسی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ معاشی بدحالی‘ سیاسی عدم استحکام اور سیاستدانوں کی انا کی جنگ ایسا خلا پیدا کردے کہ غیر سیاسی ہونے والے ایک بار پھر سیاست میں مداخلت پر مجبور ہو جائیں اور ہمارا سیاسی نظام بالکل ہی پاتال میں جاگرے۔
سیاسی حقائق کا جائزہ لیں تو پی ٹی آئی قیادت نے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن اس کے عملدرآمد میں ابھی وقت لگ سکتا ہے۔ گوکہ دونوں وزرائے اعلیٰ اس حوالے سے آن بورڈ ہیں لیکن سیاست کا کھیل نرالا ہے کیونکہ اس میں کوئی وعدہ‘ دعویٰ یا بات حتمی نہیں ہوتی جب تک اس پر عمل مکمل نہ ہو جائے۔ کے پی اسمبلی توڑنا زیادہ مشکل امر نہیں کیونکہ وہاں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ وہاں گورنر راج لگانا بھی ممکن نہیں کیونکہ آئین میں اس حوالے سے کڑی شرائط موجود ہیں کہ جب تک صوبائی اسمبلی گورنر راج لگانے کے حوالے سے قرارداد منظور نہ کرے یا پھر صدرِ مملکت یہ محسوس نہ کریں کہ کوئی ایمرجنسی صورتحال ہے‘ گورنر راج نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر اس کا نفاذ کر بھی دیا جائے تو اس کا وہی حشر ہوگا جو 2009ء میں پنجاب میں سلمان تاثیر کے گورنر راج کا ہوا تھا۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی کا معاملہ کچھ مختلف ہے جہاں پر حکومت و اپوزیشن اراکین کی تعداد میں صرف 9 اراکین کا فرق ہے۔ اسی لیے پی ڈی ایم اتحاد نے سابق صدر آصف زرداری کو دوبارہ سے مشن پنجاب حکومت سونپ دیا ہے۔ زرداری صاحب رواں سال بزدار سرکار گرا کر اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنو ا کر ایسا مشن ماضی قریب میں کامیابی سے مکمل کر چکے ہیں۔ لیکن اس دفعہ زرداری صاحب کا سامنا چودھری پرویز الٰہی جیسے گھاگ اور زیرک سیاستدان سے ہے‘ جنہوں نے 22 اکتوبر سے پنجاب اسمبلی کا 142واں اجلاس ملتوی نہیں ہونے دیا تاکہ آن سیشن اجلاس میں اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش ہی نہ کرا سکے۔ لیکن اگر پی ڈی ایم اتحاد اپنے اس مؤقف کہ اجلاس جاری ہو یا نیا اجلاس طلب کرنا ہو‘ دونوں صورتوں میں تحریک عدم اعتماد پیش ہو سکتی ہے‘ پر قائم رہتی ہے تو پھر یہ معاملہ عدالت میں جا سکتا ہے‘ یعنی یہ معاملہ دو تین ماہ کے لیے تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے اور چودھری پرویز الٰہی اس عرصے میں وزیراعلیٰ برقرار رہیں گے۔ یہ صورتحال چودھری صاحب کے لیے بھی اطمینان بخش ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر پنجاب میں نئے انتخابات کی صورت میں عمران خان فتح پاتے ہیں تو وہ انہیں کبھی وزیراعلیٰ کا منصب نہیں دیں گے۔ اس لیے ان کے پاس موجودہ اسمبلی تک کا موقع ہے کہ وہ اپنی جماعت اور حلقوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنالیں۔ دوسری جانب (ق) لیگ یا پی ٹی آئی کے اراکین کا منحرف ہونا بھی خارج از امکان ہے‘ کیونکہ سپریم کورٹ اس حوالے سے بہت واضح احکامات جاری کر چکی ہے کہ ایسے اراکین کے ووٹ ہی شمار نہیں کیے جائیں گے۔
بالفرض‘ اگر دونوں صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹ جاتی ہیں تو بھی اس سے قومی اسمبلی پر بظاہر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ آئینی طور پر قائم رہے گی مگر گراؤنڈ پر سیاسی صوتحال یکسر بدل جائے گی۔ دونوں صوبوں میں آئندہ حکومتیں پانچ سال کے لیے قائم ہوں گی‘ جو ترقیاتی کاموں اور مختلف حربوں سے اگلے عام انتخابات کو ہر ممکن طریقے سے اپنے لیے محفوظ بنانے کی کوشش کریں گی جس کا پی ڈی ایم جماعتوں کو کافی نقصان پہنچے گا۔ عین ممکن ہے کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی توڑنے کے لیے بھی خود کو مجبور پائیں۔ اس وقت وفاقی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی‘ معاشی بحران اور ممکنہ طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے۔ سٹیٹ بینک نے حال ہی میں شرحِ سود میں اضافہ کیا ہے جس سے نہ صرف معیشت مزید سکڑنے کا خدشہ ہے بلکہ مہنگائی کی حالیہ لہر کا اگلے سال تک جاری رہنے کا بھی امکان ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں معاشی صورتحال مسلسل بدتر ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ ایسے میں کوئی بھی سیاسی بحران‘ پاکستان کے مسائل کو مزید گمبھیر کر دینے کے مترادف ہوگا۔صرف یہی نہیں بلکہ اس تمام سیاسی ابتری نے طالبان جیسے نان سٹیٹ ایکٹرز کو بھی دوبارہ ایکشن میں آنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے حال ہی میں جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے جس کے فوری بعد ہم نے کوئٹہ میں پولیس کے ٹرک پر خود کش حملے کی خبر سنی۔ سابقہ فاٹا کی ایجنسیوں خاص طور پر وزیرستان میں دہشت گردوں کے سرگرم ہونے کی اطلاعات کافی عرصے سے گردش میں ہیں۔ سوات میں کیا ہوا‘ وہ بھی ہم سب نے دیکھا۔
اس تما م صورتحال کے درمیان ہی فوج میں کمان کی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ گوکہ ان تعیناتیوں کے حوالے سے جو تنازعات تھے‘ وہ حل کر لیے گئے اور پھر سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ مصمم ارادہ ظاہر کرکے گئے کہ فوج اب اپنے آئینی کردار تک محدود رہے گی۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی چپقلش اور ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کی روش‘ مقتدرہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ادارے اب سیاست میں مداخلت نہیں چاہتے‘ لیکن سیاسی جماعتوں کی ان کو سیاست میں آنے پر مجبور کرنے کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی مذاکرات کی ٹیبل پر آجائیں تاکہ سیاسی و معاشی بحران کے شکار پاکستان کو آگے بڑھنے میں مدد مل سکے۔ عمران خان نے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرکے وفاقی حکومت کو ایک زوردار جھٹکا دیا ہے۔ بہتر ہے کہ الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر دونوں سیاسی فریق کسی حل پر پہنچیں اور ملک کے لیے بہتری کا سامان کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved