تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     01-12-2022

کمان کی تبدیلی‘ توقعات و چیلنجز

وہ معاملہ بالآخر خیر و خوبی سے نمٹ گیا جس نے ہر دیگر معاملہ مؤخر کر رکھا تھا‘ گویا قوم نے ہر کام کے آگے پھاٹک لگا دیے تھے کہ خبردار! جب تک یہ گاڑی گزر نہیں جاتی‘ باقی گاڑیاں اپنی اپنی جگہ کھڑی رہیں گی۔ بالآخر پاک فوج کی کمان ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو گئی۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کو ایک اعلیٰ تربیت یافتہ فوج کی سربراہی مبارک ہو۔ ان سے بہت سی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ یہ توقعات سیاست دانوں سے لے کر عام آدمی تک ہر ایک کی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے بقول‘ پاک فوج کو جنرل عاصم منیر جیسا قابل سربراہ ملنا اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ پورا یقین ہے کہ ان کی قیادت میں پاک فوج کی قوت میں مزید اضافہ ہو گا اور مادرِ وطن کے تحفظ اور سکیورٹی چیلنجزسے نمٹنے کے لیے حکومت اور عوام سے بھرپور تعاون مسلح افواج کو میسر رہے گا۔
بہرحال ایک بڑے ادارے کی تقرری اہم تو ضرور ہوتی ہے یہاں تو اس بار بعض لوگوں نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھ لیا تھا۔ قیاس آرائیوں‘ تبصروں‘ تجزیوں اور خبروں کے بیچ اپنا دل شرمندہ شرمندہ رہا کہ کتنے چھوٹے دل و دماغ کے لوگ ہیں یہ سب۔ کیا سیاست دان‘ کیا سول اشرافیہ اور کیا دوسرے طبقات کے لوگ کہ عہدہ و منصب و اختیارات کے گرد جن کی دنیا گھومتی ہے۔ ان کی نظر میں اصل دوام تو انہی کو حاصل ہے باقی تو سب کچھ فانی اور غیر اہم ہے۔ بات ایک کرسی اور کسی ادارے کی نہیں‘ ہر ادارے اور ہر کرسی نے کیسی کیسی خود غرضیوں کی گواہی دی ہے۔ کوئی ایک مثال؟ مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ان سیاست دانوں کو ذرا دیکھیے‘ ان کے بیانات سنیے۔ کیا ان کا منہ ہے کہ وہ عام آدمی کو یہ نصیحت کر سکیں کہ متمدن‘ مہذب اور ترقی یافتہ قومیں کیا طریقہ اختیار کرتی ہیں اور کیسے ایک ہاتھ سے دوسرے میں اختیارات منتقل کرتی ہیں۔ وہ بڑے بڑے معزز اور متمول لوگ چاہے ان کا پس منظر سیاسی ہو‘ مذہبی ہو یا کاروباری‘ ہر ملامت سے بے نیاز ہوکر‘ اخلاقیات کے ہر اصول سے بے پروا ہوکر‘ اختیار کی منتقلی میں اپنے اپنے داؤ بیچ آزما رہے ہوتے ہیں۔
قمر جاوید باجوہ صاحب کا نام بھی ماضی کی کتاب میں درج ہوا۔ انہوں نے چھ سال پاک فوج کی قیادت کی۔ نومبر 2016ء سے نومبر 2022ء تک۔ یہ دور کیسا رہا‘ ان کے کارنامے بھی بیان کیے جاتے ہیں اور یقینا کیے جاتے رہیں گے۔ دوست ممالک سے روابط اور معاشی حالات میں حکومتوں کی مدد کرنے میں ان کا کردار نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ آخری خطابات اور بیانات میں بھی جنرل(ر) باجوہ نے یہ بار بار کہا کہ فوج سیاسی معاملات سے لاتعلق رہنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ 23نومبر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم دفاع اور یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی‘ فوج کی قربانی کا عوام نے اعتراف نہیں کیا‘ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کرتی ہے لیکن اس کے عوام اسے بہت کم تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اس کے برعکس دن رات عوام کی خدمت میں مصروف پاک فوج پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے‘ اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی سیاست میں مداخلت ہے جوکہ غیر آئینی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اُنہوں نے سیاسی مداخلت کو غیر آئینی قرار دیا۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں اس کردار کا ملک و ریاست کو فائدہ کم کم ہی پہنچا ہے۔ اس فیصلے سے قبل‘ جب یہ لاتعلقی نہیں تھی‘اس کی وضاحت کیا کریں۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج نے گزشتہ برس فروری میں فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی‘ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں مگر اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کے بجائے کئی حلقوں نے فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بناکر بہت نامناسب اور غیرشائستہ زبان استعمال کی۔ فوج پر تنقید شہریوں اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کا مناسب چناؤ کرنا چاہیے۔ اعلیٰ عسکری قیادت کو غیر مناسب القابات سے پکارا گیا‘ عسکری قیادت کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن ملکی مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن بلکہ گناہِ کبیرہ ہے کہ ملک میں کوئی بیرونی سازش ہو اور فوج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے‘ فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرنے والے ہمیشہ ناکام ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اپنے اور فوج کے خلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ پاکستان ہم سب سے افضل ہے۔
نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی شخصیت اور کوائف متاثر کن ہیں۔ حافظِ قرآن ہیں اور ایک ایسے گھرانے سے تعلق ہے جو سید زادوں اور حفاظ کی دینی اقدار کا حامل ہے اور جسے حفاظ کا گھرانہ کہا جاتا ہے جبکہ اعزازی شمشیر ان کے اعلیٰ سپاہی ہونے کی گواہی دیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ مضبوطی کے ساتھ اس سوچ کے قائل ہیں کہ فوج کو سیاست سے الگ رہنا چاہیے۔یہ بات حالات کے درست تجزیے اور متوازن فکر کی دلیل ہے۔ آ گے چل کر ہوتا کیا ہے اور مسلح افواج کی قیادت اس پیمان کو کس طرح لے کر آگے بڑھتی ہے ‘وقت کے ساتھ یہ واضح ہوتا چلا جائے گا۔نئے آرمی چیف کے خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے ان کے پہلے خطاب کا بھی انتظار کیا جارہا ہے اور پالیسیوں کا بھی‘ جو ان کے خیالات کو عملی قالب میں ڈھالیں گی۔
نئی فوجی قیادت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔دشمنوں کی طرف سے بھی۔داخلی سطح پر بھی۔ہماری دعا ہے کہ انہیں ان سب سے سرخرو ہونے کی توفیق ملے۔فوج کو جدید تر اسلحے سے لیس کرنا ‘ مسلح افواج میں قابلِ اعتماد اور متوازن تعلق قائم رکھنا اوران چیلنجز کا خاطر خواہ جواب دینا‘ جو دشمنوں کی طرف سے مسلسل یا وقتاً فوقتاً پیدا کیے جاتے رہتے ہیں ‘ علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کے مفادات کی حفاظت کرنا اور ان مفادات کو سب سے پہلی ترجیح بنانا‘ نئی اور خوشگوار روایات قائم کرنا اور انہیں تسلسل دنیا اور اپنے قابلِ احترام ادارے کے مقام و مرتبے میں اضافہ کرنا جنرل سید عاصم منیر کے ٹاسک ہیں۔کسی ادارے کا سربراہ اپنی مدتِ ملازمت میں اضافہ چاہتا ہے تو گویا وہ زبانِ حال سے یہ کہتا ہے کہ وہ ادارے کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی اور ان صلاحیتوں کا حامل نہیں کہ اس کی جگہ لے سکے ‘ ہو سکتا ہے بعض صورتوں میں یہ انتظام وقت کی ضرورت ہو مگر ایسی روایت بن جائے تو اس سے افسران کی حق تلفی ہو گی اور بلا وجہ سوالات پیدا ہو ں گے۔ نئے آرمی چیف کے لیے سب سے ضروری کام اس خلیج کو کم اور ان غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہے جو عوام اور عسکری اداروں کے بیچ پیدا ہوئی ہیں۔ نیز اعتبار کو بحال اور اعتماد کو قائم کرنا۔ہم سب کی دعا ہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بخیر و خوبی اپنے منصب کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔اورامید‘ جو یقین کے درجے میں ہے‘ یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں بہت بہتر فیصلے کریں گے۔
گزر جانے والا وقت گزر چکا۔جانے والے جاچکے ۔اپنے اپنے حصے کی کامیابیاں اور ناکامیاں سمیٹ کر۔سب داغ برے ہیں لیکن کسی سپاہی کے لیے مالی کرپشن کا داغ سب سے برا ہوتا ہے۔مجھے جنرل (ر) حمید گل کا وہ انٹرویو اور وہ الفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے کسی سابقہ عسکری عہدیدار کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ کہے تھے کہ سب غلطیاں‘ سب برائیاں اپنی جگہ اور ایک طرف سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اس پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگائے گئے۔بہرحال ہمیں ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھنا ہو گا اور کوشش کرنی ہو گی کہ من حیث القوم ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved