دسمبر لوٹ آیا ہے۔ اس اختتامی مہینے کا پہلاسورج غروب ہو چکا ہے۔ باقی شب و روز بھی بالکل اُسی طرح طلوع و غروب ہوتے چلے جائیں گے جس طرح پورا سال دن رات ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ہرسال یہ اختتامی مہینہ نجانے کیسے کیسے زخم ہرے کر جاتا ہے اور کون کون سی یادوں کی صورت میں ماضی کے کتنے ہی دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے لے کر رونق میلوں تک‘ ملنے کی خوشی سے لے کر بچھڑنے کے غم تک‘ یہ دسمبر جاتے جاتے کیسے کیسے تار چھیڑ جاتا ہے۔ دسمبر کی سرد شامیں ہوں یا یخ بستہ راتیں‘ ان سبھی میں نامعلوم اُداسی کا غلبہ کچھ اس طرح بے چین کیے رکھتا ہے کہ لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے اور ریزہ ریزہ وقت کی مٹھی سے زندگی کی سرکتی ہوئی ریت طبیعت کو مزید بے چین اور بوجھل کیے دیتی ہے۔ اس کیفیت میں برادرم حسن نثار کا یہ شعر درد بڑھانے کے ساتھ ساتھ وسوسوں اور اندیشوں کی اندھی کھائیوں میں دھکیلے چلا جاتا ہے۔
رستے پہ عمر کی مرا پاؤں پھسل گیا
اِک اور سال پھر مرے ہاتھوں نکل گیا
رب کریم کی بے پناہ نعمتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ایک ناسٹلجیا خون میں سرایت کر چکا ہے جو قطرہ قطرہ‘ لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے دل کا کام تما م کیے ہوئے ہے۔ عمر کا ایک حصہ وہ تھا جب اپنی موت نہیں بلکہ اپنوں کی موت سے ڈر لگتا تھا۔ اب یہ ڈر دہرا ہو چکا ہے‘ اب اپنی موت کا تصور بھی اس قدر جان لیوا ہے کہ جان سے پیارے پسماندگان کی فکر ہلکان کیے رکھتی ہے کہ ان کا کیا ہوگا‘ میری موت کا دکھ کیسے برداشت کر پائیں گے اور بعد ازاں حالاتِ پریشاں سے کیسے نبرد آزما ہو پائیں گے کیونکہ یہاں حال کا کچھ پتا ہے نہ مستقبل کی کوئی ضمانت۔ گاہے سوچتا ہوں کہ ہماری سوچوں کے برعکس کسی فلاحی ریاست میں پیدا ہونے والوں کے دکھ یکسر مختلف ہوتے ہوں گے‘ انہیں ایسے وسوسوں اور اندیشوں کا سامنا نہیں ہوتا ہوگا کہ ان کے بعد ان کے پسماندگان حکمرانوں کی گورننس کے متحمل کیسے ہو سکیں گے۔ ایسے میں یہ اندیشے دن کا چین برباد کرنے اور رات کی نیند لوٹنے کے علاوہ مرنے کا خوف بھی دہرا کر ڈالتے ہیں۔عدم سے وجود اور وجود سے فنا کی طرف سرپٹ دوڑتا ہر ذی روح اس جہانِ فانی میں پہلا سانس لیتے ہی یوں بلک بلک کر روتے ہوئے اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے کہ یہ رونا پھر آخری سانس تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کبھی ہنستے ہنستے رو پڑتا ہے تو کبھی اپنے رونے پر ہنستا ہے۔ کیلنڈر کے خانوں میں بٹا انسان گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ ایک ایسے سفر پر گامزن رہتا ہے جس میں نہ اس کی مرضی شامل ہے اور نہ ہی اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا گیا ہے۔ نہ ملک مرضی کا‘ نہ ماں باپ اور بہن بھائی‘ نہ حالات پسند کے اور نہ ہی وسائل پر کوئی اختیار۔
دسمبر جب بھی لوٹ کر آتا ہے تو سال بھر کا میزانیہ سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ مہینے تو سبھی رنگین و سنگین یادوں سے جڑے ہوتے ہیں‘ کوئی مہینہ کسی کی جدائی کا زخم ہرا کر جاتا ہے تو کوئی مہینہ کسی کے ملنے کی یاد تازہ کر جاتا ہے۔ ان سبھی مہینوں کی یادیں دسمبر میں ایک ایسی بیل کی صورت اختیار کر جاتی ہیں جو نفسیات اور اعصاب کو ایسے لپیٹ لیتی ہے کہ کوئی اس سے جتنا بھی بچنا اور نکلنا چاہے بچ نہیں سکتا۔ یہ یادیں کس کو کتنا بے چین اور گھائل کرتی ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے بس یہی کہا جا سکتا ہے جس تن لاگے سو تن جانے۔ اکثر کیسز حال مست اور چال مست کے زمرے میں بھی آتے ہیں‘ انہیں نہ سال چڑھنے کا پتا لگتا ہے اور نہ ہی سال کے جانے کا کوئی احساس ہوتا ہے۔ آگہی کے عذاب سے ناآشنا یہ سبھی ذی روح کچھ اس طرح مزے میں زندگی گزارتے ہیں کہ نہ ملنے کی خوشی اور نہ بچھڑنے کا غم جبکہ آگہی کے عذاب سے دوچار لوگ کبھی بچھڑنے والوں کو روتے ہیں تو کبھی بچھڑنے کے خوف سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ ماں باپ جیسی عزیز از جان ہستیوں سمیت کیسی کیسی ناگزیر صورتیں خواب و خیال بن کے رہ گئی ہیں۔ ہر دلعزیز دوست احباب ہوں یا عزیز و اقارب‘ کس کس کا نام لوں۔ سبھی کو چشم تصور میں شب و روز ساتھ لیے پھرتا ہوں۔ نیند کو آدھی موت کہا جاتا ہے اور رات کو جب بھی اس آدھی موت کے لیے بستر پر جاتا ہوں تو بچھڑنے والوں کی یادوں اور باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آدھی موت سے تادیر دور کیے رکھتا ہے۔ ماں باپ‘ اساتذہ‘ عزیز و اقارب‘ دوست احباب کو چشم تصور میں اپنے اردگرد محسوس کرنا اور ان سبھی کے لیے دعائے مغفرت روز کا معمول ہے۔
شہر خموشاں میں میرا آنا جانا ویسے بھی بہت پرانا ہے لیکن جب سے ماں باپ جیسی عزیز از جان ہستیاں یہاں آن بسی ہیں تو یہ آنا جانا اب روزمرہ کے معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ جب بھی یہاں آتا ہوں ایک قبر کے کتبے پر لکھا ہوا یہ فقرہ 'میں اہم تھا یہی وہم تھا‘ ہمیشہ ہی منہ چڑاتا ہے گویا کہہ رہا ہو کہ تم کس مغالطے میں ہو‘ زندگی کے جھمیلوں سے گہماگہمی تک‘ قصرِ اقتدار سے لے کر محفلِ یاراں تک‘ سماجی میل جول سے لے کر ستائشِ باہمی تک‘ شب و روز سے لے کر ماہ و سال تک‘ سب مغالطے ہی مغالطے ہیں۔ تمہاری آنیاں جانیاں ہوں یا خاطر داریاں‘ عہد و پیماں ہوں یا وفا داریاں‘ وضع داریاں ہوں یا دل داریاں‘ ان سبھی کی اوقات کیا ہے‘ پانی کا بلبلہ اور ہوا کا جھونکا‘ موت تمہاری ساری منصوبہ بندیوں اور مضبوط ارادوں سے کہیں زیادہ پائیدارہے۔ اپنے آپ کو بہت مصروف اور ناگزیر سمجھتے ہو‘ اپنے ارد گرد لوگوں کا ہجوم پا کر کیا سمجھتے ہو‘ کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا‘ ہرگز نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے قبر کا یہ کتبہ مجھ سے ہم کلام ہو اور اس پر لکھا ہوا فقرہ زندگی کی اصل حقیقت اور اوقات چیخ چیخ کر باور کروا رہا ہو۔ قدم من من کے محسوس ہوتے ہیں‘ باوجود ہزار کوشش کے راستہ بدل نہیں پاتا کہ اس قبر سے بچ کر گزر جاؤں۔ دعائے مغفرت اپنی جگہ‘ میں تو باقاعدہ گپ شپ بھی کر لیتا ہوں۔ بالخصوص ماں باپ کے ساتھ دکھ سکھ شیئر کرنے کے علاوہ نجانے کیا کچھ کہہ کر اپنے اعصاب اور نفسیات کو ہلکا کر لیتا ہوں اور یوں محسوس ہوتا ہے وہ میری بات نہ صرف سن رہے ہیں بلکہ میری اسی طرح رہنمائی بھی کر رہے ہیں جیسے بچھڑنے سے پہلے کرتے رہے۔ دسمبر کے آتے ہی اعصاب اور نفسیات کو یادوں کے حملے کچھ اس طرح تہہ وبالا کیے دیتے ہیں کہ بے اختیار یہ اشعار ناسٹلجیا مزید بڑھا ڈالتے ہیں؛
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گھُپا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کُہرے کی مانند دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے تنہائیوں میں سو رہے ہیں اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا‘ تو کیسے برف پگھلے گی‘ اسے کہنا کہ لوٹ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ جانے والے لوٹ آئیں۔ وہ تو بس اپنی یادوں کی کرچیاں چھوڑ جاتے ہیں جنہیں چنتے چنتے ہمارے ہاتھ نہ صرف لہولہان رہتے ہیں بلکہ ان کی یادوں کے سپنے دیکھنے والی آنکھیں بھی جب ان کرچیوں سے بھر جاتی ہیں تو وہ بھی بے اختیار چھلک پڑتی ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved