کسی بھی ماحول کے حقیقی دشمن بہت سے ہوتے ہیں۔ کچھ اندرونی اور کچھ بیرونی۔ بیرونی دشمنوں کو آسانی سے شناخت کرلیا جاتا ہے اور اُن سے نمٹنے کے بارے میں حکمتِ عملی وضع کرنا بھی زیادہ دشوار نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ متعلقہ حکمتِ عملی کے حوالے سے بھرپور عزم اور قوتِ عمل نہ ہونے کے باعث بسا اوقات مطلوب نتائج کا حصول ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ خیر‘ بیرونی دشمنوں سے نمٹنے کا ذہن تو بنا ہی لیا جاتا ہے۔ اندرونی دشمنوں کا کیا کریں؟ ایک طرف تو اِنہیں شناخت کرنا قدرے دشوار ہوتا ہے اور دوسرے اگر کسی نہ کسی طور شناخت ممکن ہو جائے تب بھی اُن کے خلاف کھل کر کچھ کرنا ممکن نہیں ہو پاتا کیونکہ جب کچھ کرنے کی ٹھان لیجیے تو اُن کے حمایتی اور ٹھیکیدار راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہر معاشرے کو اُس کے حصے کے سازشی ملتے ہیں۔ ہر کرپٹ انسان اپنے معاشرے کا غدار اور سازشی ہے۔ جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والا ہر انسان اپنے معاشرے کا دشمن ہی تو ہے۔ جن کے دم سے تعمیری سرگرمیوں کو فروغ نہ ملے اور منفی اثرات تیزی سے پھیلیں اُنہیں معاشرے کا دوست اور ہمدرد کیونکر تصور کیا جاسکتا ہے؟ ہمارے ہاں بھی بیرونی اور اندرونی دشمن الگ الگ ہیں۔ بیرونی دشمنوں کو ہم آسانی سے شناخت کرسکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بیرونی آقاؤں کے گُن گاتے نہیں تھکتے اور اُن کے اصل مفادات بھی بیرونی آقاؤں کی مرضی سے نتھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی جائیدادیں اور دیگر اثاثے بیرونِ ملک رکھتے ہیں۔ کسی کا اپنی دولت کو اپنے ملک میں نہ رکھنا صریحاً اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ اِس ملک پر بھروسا نہیں رکھتا، اِس سے محبت نہیں کرتا اور اِس کا خیر خواہ نہیں۔ ہم اپنے معاشرے کی ساخت بھی جانتے ہیں اور ترتیب و ترکیبِ عمل بھی۔ یہاں بہت کچھ بگڑا ہوا ہے۔ جو کچھ اب تک سلامت و برقرار ہے وہ بھی اپنے ممکنہ منطقی نتائج مرتب کرنے سے قاصر ہے۔ چند ایک شعبے بہتر حالت میں تو ہیں مگر اپنے حصے کا کام نہیں کر پارہے کیونکہ اُن سے بطریقِ احسن کام لینے والا ماحول دستیاب نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پورا معاشرہ کرپٹ ہوچکا ہے اور اب کسی بھی اعتبار سے اصلاحِ احوال کی کوئی امید نہیں۔ مکمل کرپٹ ہو جانے کی صورت میں کوئی بھی معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا اور کام تو بالکل نہیں کر سکتا۔ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ آج ہمارے ہاں بگاڑ اچھا خاصا ہے مگر پھر بھی اس قدر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کہ اصلاحِ احوال کی امید ہی ترک کردی جائے۔ خرابیاں اپنی جگہ اور امکانات اپنی جگہ۔ معاشرہ خرابیوں اور خامیوں کے باوجود پنپ رہا ہے‘ لوگ جی بھی رہے ہیں اور حسبِ توفیق و استعداد پنپ بھی رہے ہیں۔ معاشرے کے دشمنوں اور غداروں میں وہ بھی شامل ہیں جو امید کی راہیں بند کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ یہ اصل سازشی ہیں جو ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں۔ مایوسی میں مبتلا اور مایوس کن باتیں کرنیوالے آج ہمارے ہاں بکثرت ہیں۔ ایک مصیبت یہ بھی ہے جن کے پاس مایوس ہونے اور مایوس کن باتیں کرنے کا کوئی جواز نہیں وہ بھی لوگوں کو بددل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا پورٹلز نے ایسے لوگوں کا کام اور آسان کردیا ہے۔
کل ہی کی بات ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک آڈیو وژوئل پوسٹ دیکھی۔ کوئی صاحب خاصی بلند آواز سے اس قوم کو خبردار کر رہے تھے کہ ''یہاں کچھ بھی درست ہونے والا نہیں۔ سات عشروں سے بھی زائد مدت سے صرف لُوٹ مار ہو رہی ہے۔ جس کا داؤ چلتا ہے وہ مال بٹور کر اُڑ جاتا ہے۔ سیاست دان اور بیورو کریٹس جی بھرکے کرپشن کرنے کے بعد ملک سے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا محض حماقت ہے کہ کبھی کچھ بہتر ہوسکے گا‘‘۔ یہاں تک تو بات ایک حد تک درست تھی۔ ہمارے ہاں کرپشن ہر دور میں رہی ہے۔ اب بھی ہے تو حیرت کیسی کہ یہ تو ہر دور کا معاملہ رہا ہے۔ مگر اِسی پوسٹ میں آگے چل کر موصوف عام آدمی کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''اب یہ ملک کسی بھی اعتبار سے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ یہاں اب کچھ بھی درست ہونے والا نہیں۔ ایسے میں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنا بھلا سوچے‘‘۔ اپنا بھلا کس طور سوچا جائے؟ موصوف کا اس حوالے سے مشورہ ہے ''جس کے پاس چالیس‘ پچاس لاکھ روپے ہیں وہ اس ملک میں نہ رہے۔ سارا مال سمیٹے اور کسی بھی ایسے ملک کی راہ لے جو مستقل رہائش آسانی سے دے دیتا ہو، جہاں شہریت کا حصول مشکل نہ ہو‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ خلیجی ممالک وغیرہ جانے سے خبردار کیا گیا کیونکہ وہاں اب رہنے کی گنجائش نہیں رہی اور مستقل رہائش کی سہولت بھی آسانی سے میسر نہیں۔ سوشل میڈیا کی اس آڈیو وژوئل پوسٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس ملک کا بُرا چاہنے والے کس کس طرح اس ملک کے لوگوں سے دشمنی نکال رہے ہیں، اُنہیں کس کس طرح ورغلاکر مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی کسی بھی پوسٹ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ ملک لاکھ خرابیوں کے باوجود قائم ہے، معاشرہ اب تک برقرار ہے۔ پریشانیاں اگر ہیں تو سب کے لیے ہیں۔ معاشی خرابیوں نے معاشرتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے اور معاملات بگاڑے ہیں مگر پھر بھی بہت کچھ اب تک باقی ہے۔ خرابیاں کس معاشرے میں نہیں؟ افغانستان اور صومالیہ جیسے ممالک میں حکومتی نظام تہس نہس ہوچکا ہے مگر پھر بھی وہاں لوگ کسی نہ کسی طور جی رہے ہیں اور خرابیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے زندگی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ مشرقی پڑوس ہی کی مثال لے لیجیے۔ وہاں طرح طرح کی تفریق پائی جاتی ہے۔ معاشی الجھنیں بھی ہیں اور معاشرتی پیچیدگیاں بھی۔ افلاس کی لکیر سے نیچے جینے والوں کی تعداد وہاں کم و بیش 70 کروڑ ہے۔ اس کے باوجود لوگ اچھی طرح جینے کے حوالے سے پُرعزم ہیں اور کسی نہ کسی طور خرابیوں کو ایک طرف ہٹاکر ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموار کر ہی لیتے ہیں۔ اگر حالات سے دُکھی ہوکر مایوس ہونے کا آپشن اپنایا جائے تو بھارت سے کروڑوں افراد اِس تیزی سے نکلیں گے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی۔
ہر معاشرے میں بہت سی الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں کا معاملہ زیادہ ٹیڑھا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی معاشی، معاشرتی اور نفسی نوعیت کی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ ہاں‘ اُن کی نوعیت مختلف ہے اس لیے ہم معاملات کو کسی اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انسان کے لیے سب سے اچھا ماحول وہی ہوتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا اور پروان چڑھتا ہے۔ جو پاکستانی ترکِ وطن کرکے مغرب یا مشرقِ وسطیٰ میں بستے ہیں اُن کی اولاد اگر وہاں پیدا ہوئی ہو تو پاکستان میں پوری موزونیت کے ساتھ سکونت پذیر نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ماحول اُنہیں راس نہیں آسکتا۔ اُن کے والدین کو بھی ملک سے باہر آباد ہونے میں بہت سی نفسی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ یہ معاملہ کہیں اور آباد اور پیدا ہونے کا ہے۔ ہم یہاں کے ہیں تو پھر ہمیں اپنی زمین سے محبت کیوں نہ ہو؟
مایوسی پھیلانے والوں سے ہوشیار رہیے۔ یہ کہیں بھی اور کسی بھی روپ میں ہوسکتے ہیں۔ جن کی سوچ منفی ہو وہ بات بات پر ملک کو بُرا کہتے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں مایوسی کے بیج بونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سوں کو اس کی عادت سی ہو جاتی ہے۔ اِس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اِس وقت پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ معاشی الجھنیں بھی ہیں اور سیاسی عدم استحکام بھی۔ معاشرتی اور نفسی سطح پر بھی بہت سی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ اِس کے باوجود مایوس ہونا کسی بھی درجے میں اچھا یا مفید آپشن نہیں۔ آپ اِسی معاشرے میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جو برائے نام آمدن پر خاصے سُکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایسے بہت سے لوگ انتہائی درجے کے شکوے کرتے ملیں گے جن کی ماہانہ آمدن لاکھوں میں اور اُن کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ مایوس ہونے کے لیے کسی منطق کی ضرورت نہیں۔ انسان اگر سوچ لے کہ اُسے مایوس ہونا ہے تو بس اِتنا سوچ لینا ہی کافی ہے۔ طے کر لیجیے کہ کوئی کتنی ہی کوشش کرے‘ مایوس نہیں ہونا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved