تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     03-12-2022

تنقید کا رواج

تنقید اگر اصلاح کے لیے ہو تو نہ صرف خوش دلی سے برداشت بلکہ قبول بھی کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تنقید برائے تنقید ایک رواج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سوشل میڈیا نے تنقید کو طوفانِ بدتمیزی میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بیشتر افراد میں شعور والی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں اور نہ ہی کسی کی اپنی کوئی سیاسی رائے نظر آتی ہے کیونکہ سیاسی رائے اور مثبت سوچ رکھنے والا انسان خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ ایک حد تک ہی اپنی پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے اور جہاں معاملہ ریاست کا ہو‘ قومی اداروں کی ساکھ کا ہو یا ملکی مفاد کا ہو تو وہاں ایک ذمہ دار اور محب وطن شہری سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کا سوچتا ہے، بطور ایک ذمہ دار شہری وہ اپنی سماجی و قومی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتا ہے اور ملک و قوم، ریاست یا قومی اداروں کی حرمت پر کوئی حرف نہیں آنے دیتا۔ وہ پارٹی موقف سے اختلاف بھی کرتا ہے اور اپنی قیادت کو قائل بھی کرتا ہے کہ ہمیں سیاست سے پہلے ریاست کا سوچنا چاہئے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور یہی ایک ذمہ دار اور سیاسی طور پر بالغ شہری کی شناخت ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ وہاں ہوتا ہے جہاں جمہوریت مستحکم ہو، لوگوں میں شعور ہو، انہیں اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کی سمجھ بوجھ ہو۔ ہمارے ملک میں نہ تو حقیقی جمہوریت ابھی تک پروان چڑھ سکی ہے اور نہ ہی لوگوں میں پختہ شعور بیدار ہو سکا ہے۔ ذمہ داریاں تو دور کی بات‘ عوام کو اپنے حقوق کا بھی کچھ علم نہیں ہے۔ اسے قوم کی بدقسمتی ہی کہیے کہ سوشل میڈیا پر اگر کوئی کسی کوگالی بھی دیتا ہے تو اس کے فالوورز بغیر سوچے سمجھے ایسی پوسٹوں کو نہ صرف لائیک کرتے ہیں بلکہ کمنٹس میں ایک گالی اپنی طرف سے شامل کرکے اس پوسٹ کو آگے شیئر کر دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ بھلے گالی دینے والے کا تعلق ان کی ہم خیال جماعت سے ہے لیکن جس کو وہ گالی دے رہاہے اور جس سے متعلق قابلِ اعتراض تنقید کر رہا ہے‘ وہ سب سے پہلے اس ملک کا شہری ہے اور ہمارا ہم وطن ہے‘ اور اسی تعلق کی نسبت سے ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جس شخص کے پیچھے لگ کر اپنے کسی ہم وطن کو برا بھلا کہا جا رہا ہو‘ وہ مستقبل میں اپنی موجودہ سیاسی جماعت کو چھوڑ کر اپنے مفادات کی خاطر اُسی سیاسی پارٹی کا حصہ بن جائے جسے وہ آج برا بھلا کہہ رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے پارٹی بدلنا یا وفاداری تبدیل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ وہ آج جس کے حامی ہیں‘ کل کو اس کو خلاف بھی محاذ کھول سکتے ہیں۔ آج جسے کرپٹ، ملک دشمن اور غدار ثابت کیا جا رہا ہے‘ عین ممکن ہے کہ کل کو اس کے سیاسی دفاع کی ذمہ داریاں نبھائی جا رہی ہوں۔ ایسے میں عام لوگوں کو اپنے سیاسی پیشوائوں کی بے جا تقلید کرتے ہوئے کسی دوسرے پر بلاوجہ تنقید نہیں کرنی چاہئے اور اس حوالے سے خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ سیاستدانوں کو موقف بدلنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں لگتی مگر عوام ایسے نہیں ہیں۔ بیشتر افراد کو اپنے کہے کا پاس ہوتا ہے۔ ان کے لیے موقف بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ میں اپنے گزشتہ کالموں میں ایسی کئی مثالیں پیش کر چکا ہوں جنہوں نے اپنا مفاد دیکھ کر راتوں رات وفاداریاں تبدیل کر کے اپنے حلقے کے لوگوں اور اپنے سپورٹرز کو نئے امتحان میں ڈال دیا لیکن یقین کریں کہ اس سے فرق محض ایک عام آدمی، ایک معزز شہری اور ایک ووٹر ہی کو پڑتا ہے اور وہی اس سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ اس کا نام نہاد لیڈر تو اپنی وفاداری کا سودا کر کے یا ہوائوں کے بدلتے رخ دیکھ کر قدموں میں گر جانے کو بھی وقت کی ضرورت قرار دے دیتا ہے اور اپنے مفاد کو حلقے کے ووٹروں کی خاطر قربانی قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتا ہے لیکن اس کے وہ ووٹرز‘ جو اس کی بے جا تقلید میں خواہ مخواہ کی دشمنیاں مول لے لیتے ہیں‘ انہیں ایسی بے جا مخالفت ساری زندگی بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے‘ جسے سمجھنے کے لیے معاشرے کو شاید ابھی کچھ مزید وقت لگے گا۔
آج کااصل موضوع تو اداروں پر بے جا تنقید ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ سراسر غلط روش ہے کیونکہ بعض اوقات ملکی مفاد میں تنقید برائے اصلاح کے حق پر بھی قدغن لگانا ضروری ہو جاتا ہے، لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کوئی کسی ریاستی ادارے کے خلاف پوسٹیں شیئر کر رہا ہے تو کوئی کسی ادارے کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔ اسے بدقسمتی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر موجود ہر شخص دفاعی تجزیہ کار بھی ہے‘ بین الاقوامی امور کا ماہر بھی‘ وہ سوشل سائنٹسٹ بھی ہے اور آئین و قانون کا ماہر بھی۔ ایسے ایسے افراد بھی اداروں کی کارکردگی اور تقرر و تبادلوں پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں جنہیں اداروں کے قواعد و ضوابط تو دور کی بات‘ ادارے کی فارمیشن کے بارے میں بھی کچھ پتا نہیں ہوتا۔ پچھلے چند برسوں سے سیاست کی آڑ لے کر اداروں پر کیچڑ اچھالنا ایک رواج بن کر رہ گیا ہے۔ جنہیں اپنے گھر‘ اپنے محلے میں بھی اہمیت نہیں دی جاتی‘ وہ بھی اعلیٰ حکام کے نام لے لے کر ان پر تنقید کرنا اپنی بڑائی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ موجودہ حکمران اتحاد کے بعض رہنمائوں کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ جن میں اداروں اور اہم شخصیات کو نام لے لے کر ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ موجودہ اپوزیشن پارٹی‘ پی ٹی آئی جب تک اقتدار میں تھی تو اداروں سے تعلقات کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتی تھی اور کھلے عام اعتراف کرتی تھی کہ حکومت اور ادارے ایک پیج پرہیں لیکن پھر جب اداروں نے طے کیا کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں تک ہی خود کو محدود رکھیں گے اور سیاسی معاملات سے دور رہیں گے تو سابق حکمران جماعت کو یہ بات ناگوار گزری اور پھر اداروں کی غیر جانبداری کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نیوٹرل ہونے کو بھی ایک طعنہ بنا دیا گیا۔ خطرناک امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہزاروں جعلی اکائونٹس موجود ہیں جن کا مقصد مخالفین کو گالیاں دینا اور الٹی سیدھی تنقید کو وائرل کرنا ہوتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل ان جعلی اکائونٹس سے وائرل ہونے والے مواد کو قومی ٹرینڈ سمجھ کر لاعلمی کے سبب اسے فالو کرنا اور پھیلانا شروع کر دیتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ بھی اکثر سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ ہر فیصلہ چونکہ ایک فریق کے حق میں اور ایک کے خلاف ہوتا ہے‘ اس لیے جس کے خلاف فیصلہ آتا ہے‘ وہ عدلیہ کو آسان ہدف سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیتا ہے‘ یہ جانے بغیر کہ عدالتی فیصلے کے محرکات کیا تھے‘ وہ کیا نکات تھے جن کے سبب فیصلہ دیا گیا‘ آئینی و قانونی بحث و تمحیص کو سمجھے بغیر تنقید برائے تنقید کا ایک محاذ کھول لیا جاتا ہے۔ بحیثیت ایک سابق کورٹ رپورٹر‘ میری ذاتی رائے میں جس طرح پہلے توہینِ عدالت پر بلاتفریق نوٹسز جاری کیے جاتے تھے‘ اب بھی ویسی ہی پالیسی کی ضرورت ہے ورنہ خدشہ ہے کہ صورتحال ایسے ہی رہی تو لوگ سرعام قانون شکنی شروع کر سکتے ہیں اور یہ روش کسی بھی طور پر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ یہ درست ہے کہ توہین‘ عدالت اور ملزم کے مابین معاملہ ہوتا ہے اور عدالت کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ توہینِ عدالت پر نوٹس لے، سزا دے یا پھر معاف کر دے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عدلیہ اور انصاف کی تو پہچان ہی ترازو ہے جس کے دونوں پلڑوں کو بالکل برابر رکھنا آج ایک چیلنج بن چکا ہے۔
ہمیں ہمیشہ یہی درس دیاگیاکہ ریاست اور حکومت دو الگ الگ ادارے ہیں‘ حکومت پر تو تنقید کی جا سکتی ہے مگر ریاست کے معاملے میں خاموشی ہی بھلی۔ اسی طرح ریاستی اداروں کا احترام بھی لازم ہے۔ یہی ہماری تعلیم ہے اور اسی بات کی ہمیں تربیت ملی، یہی ہماری اخلاقی و ثقافتی اقدار بھی ہیں اور یہی ادارہ جاتی پالیسی بھی۔ اسی لیے میری دانست میں قومی اداروں پر بے جا تنقید کرنے اور اپنے مفادات کے لیے دبائو ڈالنے کی کوشش کرنے والے ایک جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ان سے قانونی طور پر نمٹا جانا چاہیے۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ ریاستی اداروں پر تنقید کا سب سے زیادہ فائدہ ملک دشمن قوتیں اٹھاتی ہیں اور اس سے دنیا بھر میں ملک و قوم کی بدنامی ہوتی ہے لہٰذا ایسی کسی بھی حرکت پر قانون کو حرکت میں آنا چاہئے اور اداروں سے متعلق زبان درازی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تاکہ بے جا تنقید کی غلط روش کا سدباب کیا جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved