پانی کے دریاؤں کے ساتھ ساتھ شکووں اور شکایات کے دریا بھی بہتے رہتے ہیں۔ کون ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے حالات اور زندگی کے بارے میں شکوہ کُناں نہیں؟ انسانی مزاج میں شکایت پسندی بھی شامل ہے۔ لوگ کسی جواز کے بغیر بھی شکایت کرتے نہیں تھکتے۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو بہت سی شکایات خود بخود دم توڑ دیں مگر یہاں ہیں ہی کتنے جو حقیقت پسندی کو حرزِ جاں بنانے پر یقین رکھتے ہوں؟ اللہ تعالیٰ کی نمایاں ترین صفات میں عدل سرِفہرست ہے۔ یہ کائنات توازن، اعتدال اور عدل کی بدولت حسنِ استقامت سے ہم کنار ہے۔ عدل نہ ہو تو یہ کائنات بھی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے عدل ہی کے ذریعے اِس کائنات کے حُسن میں اضافہ کرتے رہنے کا اہتمام کیا ہے۔ ایک عدل تو وہ ہے یعنی کائنات کی ساخت کا معاملہ۔ اُس پر اگر ہم اپنے فرض کو پہچانیں اور اپنے فکر و عمل سے انصاف و توازن یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہیں تو اس کائنات کا حسن بڑھتا ہے۔
زندگی ہر کسی کو کیا دیتی ہے؟ بہت کچھ! مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بہت کچھ سے مطمئن نہیں ہوتے، وہ سب کچھ چاہتے ہیں۔ سب کچھ؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ کسی بھی انسان کو سب کچھ تو کسی بھی حال میں نہیں مل سکتا۔ اگر یہ فرض کرلیں کہ سب کچھ کسی نہ کسی طور مل جائے تو بھی اُس سے استفادہ کیونکر ممکن ہوگا؟ زندگی ہمیں عمومی سطح پر جو کچھ دیتی ہے وہ اس قدر ہوتا ہے کہ ہم بھرپور استفادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ انسان کے مزاج کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ کوئی اگر قانع ہو تو ایک روٹی پر بھی گزارہ کرلیتا ہے اور اگر کسی نے شکر گزار نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہو تو چار‘ پانچ روٹیاں کھاکر بھی پیٹ نہیں بھرتا، پیٹ تو شاید بھر جاتا ہو، نیت نہیں بھرتی۔ ایسے میں شکر گزاری کیسے پیدا ہو؟ بہت سوں بلکہ بیشتر کا مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی ملتا ہے اُس سے مطمئن نہیں رہتے اور کچھ نہ ملنے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ صریحاً ناشکری ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی نہ ہو وہ ہمیشہ روتا ہوا ملے گا۔ حالات کا شکوہ، ذاتی زندگی کا رونا اگر مستقل نوعیت کا ہو تو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا کیونکہ ایسی حالت میں زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی راہ ہموار نہیں ہو پاتی۔
کامیاب زندگی وہ ہے جس میں انسان کسی بھی طرح کا شکوہ کرتا نہ پایا جائے۔ شکوہ سنج رہنا انسان کے پورے وجود کو گُھن لگا دیتا ہے۔ گلے شکوے کرتے رہنے کی عادت دیمک کی طرح وجود کو اندر ہی اندر چاٹتی رہتی ہے۔ زندگی ہم سے بہت کچھ مانگتی ہے۔ یہ بھی قدرت کا طے کردہ نظام ہے۔ زندگی صرف لیتی نہیں‘ دیتی بھی ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں یا ہمیں جو کچھ کرنا پڑتا ہے اُس سے کہیں زیادہ ہمیں ملتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم کچھ ملنے پر شکر گزار نہیں ہوتے اور نہ ملنے پر شکوہ کُناں ہونے سے مجتنب نہیں رہتے۔ اگر بظاہر بلا جواز طور پر کچھ ہاتھ سے جاتا رہے تو ہم روتے‘ واویلا کرتے نہیں تھکتے مگر جب کسی جواز کے بغیر بہت کچھ مل رہا ہو تب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کو ترجیح نہیں دیتے۔ ماحول میں آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو کسی حال میں خوش نہیں ہوتے۔ وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ جو کچھ زندگی نے اُنہیں دیا ہے وہ بہت کم ہے یا پھر اُن سے زندگی کا سلوک انصاف پر مبنی نہیں۔ وہ اپنے حالات کو انتہائی نوعیت کا گردانتے ہیں۔ برسوں کی ''ریاضت‘‘ کے نتیجے میں اُن کے ذہنوں میں یہ بات گھر کرچکی ہوتی ہے کہ زندگی نے اُن سے اچھا سلوک روا نہیں رکھا، یا تو کچھ دیا ہی نہیں یا اگر کچھ دیا بھی ہے تو وہ استحقاق سے بہت کم ہے۔
ناشکری کی سوچ بہت سے معاملات کے تفاعل سے پنپتی ہے۔ انسان اپنے ماحول میں بہت سی نا انصافیاں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ بہت سوں کے بُرے اعمال و افعال کے نتائج کو وہ محض دیکھتا ہی نہیں بلکہ اُن کے نتائج بھی بھگتتا ہے۔ جو لوگ حقیقی معنوں میں بدعنوان ہیں اُن کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر انسان اُن سے نفرت کرنے کے بجائے حسد محسوس کرنے لگتا ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے غلط افکار و اعمال کے نتیجے میں حاصل کیا ہے وہ مجھے کیوں حاصل نہیں ہوسکا۔ بُری سوچ رکھنے والے کسی بھی انسان کی زندگی سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ اُس جیسا نہیں ہونا مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ بروں کی برائیوں سے عبرت پکڑنے کے بجائے ہم میں سے بیشتر محض حسد محسوس کرتے ہیں یا پھر احساسِ محرومی۔ یہ انتہائی نوعیت کی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ جب معاشرتی ڈھانچا کمزور پڑ جائے، اقدار کا عمل دخل ہماری زندگی میں کمزور پڑ جائے تو ہم کسی بھی برائی سے نفرت کرنے اور اُس سے نجات پانے کی سوچ پروان چڑھانے کے بجائے اُسے اپنانے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اِسے حماقت کے سوا کہا بھی کیا جاسکتا ہے؟
معیاری انداز سے جینے کے لیے سوچنا ناگزیر ہے۔ سوچنے ہی سے کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے مگر ہر وقت سوچنا اور بلا جواز طور پر سوچنا کسی کام کا نہیں۔ ایسا کرنے سے ذہن کا بوجھ بڑھتا ہے اور وہ ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ہم زندگی بھر جو کچھ سوچتے ہیں وہ ہماری شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے، ہمارے اعمال کو متاثر کرتا ہے، ہماری معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کی ساخت پر بھی اُس کا واضح اثر مرتب ہوتا ہے۔ محض سوچنا کافی نہیں، معیاری انداز سے سوچنا ہی کسی کام کا ہوتا ہے۔ ہم سوچنے کے معاملے میں معیار کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ ایک بنیادی خامی اور خرابی ہے۔ معاملات کو منفی نقطۂ نظر سے دیکھنا زندگی کا توازن بگاڑتا ہے۔ جو کچھ بھی زندگی سے ملا ہے اُس کا شکر ادا کرنا لازم ہے کیونکہ ایسا کرنے ہی سے فکر و نظر میں حقیقی استحکام کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہمارے تمام معاملات ہماری مرضی کے نہیں ہوتے اور ہو بھی نہیں سکتے۔ بہت کچھ دوسروں کی سوچ پر بھی منحصر ہوتا ہے اور پھر یہ بات کیوں بھولی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمارے لیے بہت کچھ طے کر رکھا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہمارے خالق و مالک کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ ہمیں نیت کا پھل ملتا ہے۔ نیت ہی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ ہمیں زندگی کیا دے گی اور کن چیزوں یا باتوں سے محروم رکھے گی۔ ہم جیسی نیت رکھیں گے ویسی ہی زندگی ہمیں عطا کی جائے گی یا ہوتی جائے گی۔
قناعت پسندی بہت بڑا وصف ہے اور اس وصف کو پروان چڑھانے کے لیے خاصی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایک عمر اِس ایک وصف کو پروان چڑھانے میںکھپ جاتی ہے۔ خیر‘ اگر ایسا ہو جائے تب بھی سودا برا نہیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسا بھی نہیں ہو پاتا۔ لوگ قانع ہونا سیکھتے ہی نہیں اور اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ قائع ہونا سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ جس میں شکر گزاری نہیں وہ کسی بھی حال میں خوش نہیں رہ سکتا۔ بہت زیادہ سوچنا محض الجھنا ہے۔ ذہن کو زیادہ سے زیادہ الجھن صرف سوچنے سے ملتی ہے، بالخصوص غیر متعلق سوچنے سے۔ بہت سے معاملات ہمارے ہوتے ہی نہیں اور ہم خواہ مخواہ اُن کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اس طرح کا سوچنا ہمارے لیے الجھنیں بڑھاتا ہے۔ ذہن اس لیے نہیں ہوتا کہ ہر وقت کسی نہ کسی حوالے سے سوچا ہی جائے اور بلا جواز طور پر کڑھن محسوس کی جائے۔ زندگی نے کیا دیا ہے اور کیا نہیں دیا اِس کے بارے میں سوچنے سے ہم کچھ نہیں پاسکتے۔ جو کچھ ہے اُس پر شکر گزار ہونے ہی سے دل و نظر کا استحکام ممکن ہے۔ اگر یہ روش نہ اپنائی جائے تو پھر ؎
سوچیے اور اُلجھتے ہی رہیے
کیا ملا زندگی سے‘ کیا نہ ملا
جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا ہے اُس پر قانع ہو رہنا ہی ڈھنگ سے جینے کا بنیادی طریق ہے۔ شکر گزار اور قانع رہنے ہی سے اُس مال میں برکت عطا کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بن مانگے یا جاں فشانی کے صلے میں عطا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صرف مقدار نہیں بلکہ معیار بھی مانگنا چاہیے۔ زندگی کا حقیقی استحکام اِسی میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved