چند روز پہلے ہم سب پاکستانی اپنے ''بھائی جان‘‘ سے محروم ہو گئے۔ پاکستان کے ایک انتہائی ممتاز صنعت کار ایس ایم منیر (شیخ محمد منیر) راہی ٔ ملک عدم ہوئے‘ ان کی عمر 77سال تھی‘ صحت کوئی مثالی نہ تھی‘ گردے تبدیل ہو چکے تھے‘ دِل کا بائی پاس ہو چکا تھا‘ ہاتھ میں عصا بھی تھام لی تھی‘ اس کے باوجود کام پر لگے ہوئے تھے۔کام‘ کام اور کام ان کی زندگی کا ماٹو تھا۔ اپنے والدِ گرامی سے منسوب ڈین گروپ کے سربراہ تھے‘ اربوں کیا کھربوں میں کھیلتے تھے لیکن عاجزی اور انکساری گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ ضرورت مندوں کے کام آتے‘ بے نواؤں کی نوا بن جاتے‘ اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کے لیے بھی باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ خاندان کا ہر شخص اُن کے اشارے کا منتظر رہتا اور اسے حکم سمجھتا‘ وہ بھی دوسروں کی ضروریات کو مقدم رکھتے‘ جو بھی اُن سے ملتا دیوانہ ہو جاتا‘ سب اُنہیں بھائی جان کہہ کر آسودہ ہوتے اور وہ سب کو بھائی بن کر دکھاتے۔ ایوان ہائے صنعت و تجارت کی سربراہی کی‘ ٹریڈنگ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو مقرر ہوئے۔ صدرِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز اور تمغۂ ایثار اُن کی خدمت میں پیش کیا‘ غیر سرکاری تنظیموں نے انہیں بے شمار اعزازات سے نوازا۔ عمر کا بڑا حصہ کراچی میں گزرا تھا‘ گزشتہ دِنوں لاہور میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا یا یہ کہیے کہ اِس شہر کو اپنا جی ایچ کیو بنا لیا۔ چمڑے اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں تو اُن کا گروپ نام پیدا کر ہی چکا تھا‘ خود وہ کراچی کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے‘ کاروبار کو نئی وسعتوں سے آشنا کرنے میں لگے رہتے۔ ہر رفاہی اور تعلیمی ادارے کی مدد کے لیے تیار رہتے‘ شوکت خانم کینسر ہسپتال سے لے کر چھوٹے شہروں اور قصبوں تک میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں پیش پیش رہے۔
نومبر کا مہینہ جو ابھی گزرا ہے‘ اس کی آٹھ تاریخ کو ڈاکٹر امجد ثاقب نے لاہور میں اُن کے اعزاز میں عشایے کا اہتمام کیا تھا۔ لاہور تشریف آوری پر اُن کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اعزا و احباب بڑی تعداد میں جمع تھے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب تو اُن پر فریفتہ تھے ہی‘ سابق گورنر پنجاب چودھری سرور بھی لفظوں کے پھول لے کر حاضر تھے۔ گوہر اعجاز اُن پر نثار ہو رہے تھے‘ ہر شخص مسرور تھا کہ اُن کا زیادہ تر وقت اب یہاں گزرے گا۔ کراچی میں اُن کے احباب ہر ماہ اُن کی ''برتھ ڈیٹ‘‘ مناتے تھے۔ وہ شاید واحد شخص تھے کہ اُن کی پیدائش پر ہر ماہ اِس طرح تقریبِ مسرت کا انعقاد ہوتا تھا۔ ارادہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ لاہور میں بھی اِس روایت پر عمل ہوگا لیکن کسے خبر تھی کہ اُن کے لیے عالمِ جاوداں میں رہائش کا بندوبست ہو چکا ہے۔ ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ براستہ کراچی اللہ کے حضور پیش ہو گئے‘ اہلِ لاہور ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اب ڈین گروپ کی سربراہی ایس ایم نصیر کے کاندھوں پر ہو گی‘ اللہ تعالیٰ اُنہیں ہمت عطا فرمائے کہ اپنے جلیل القدر بھائی کی روایات کو زندہ رکھ سکیں۔ اُن کے روشن دماغ بیٹے ایس ایم نوید اور بھتیجے ایس ایم تنویر اور ایس ایم عمران اُن کی طاقت بنے رہیں۔
ایس ایم منیر کی زندگی بجھے اور افسردہ ماحول میں روشنی دکھاتی ہے‘ حوصلہ دیتی ہے کہ ہم اپنی اجتماعی کمزوریوں پر قابو پا سکتے اور پاکستان کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ پچھلی صدی کے اوائل ہی کی تو بات ہے کہ جب ڈین گروپ کے سربراہ (شیخ محمد دین) اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں مدراس پہنچے تھے اور 25روپے ماہوار پر ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ یہیں سے اُن کی توجہ کاروبار کی طرف ہوئی‘ اپنی محنت کی بدولت وہ تیزی سے آگے بڑھے‘ بہت کم وقت میں بہت کچھ حاصل کر لیا۔ پاکستان بنا تو سب کچھ چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے‘ جہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ آگے کی کہانی ایس ایم منیر کی زبانی سنئے کہ جو ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے معتبر راوی کی زبانی ہم تک پہنچی ہے:
''والد نے قیام پاکستان کے بعد دادو‘ سندھ میں اپنے کاروبار کا آغاز پٹرول پمپ اور اسلحہ کی ایک دکان سے کیا۔ دادو ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ میرے والد کے عزائم شہر کی فصیلیں عبور کرنے لگے اور وہ تین سال بعد کراچی منتقل ہو گئے۔ مجھے کراچی میں ایک انگلش میڈیم سکول میں داخلہ مل گیا۔ تیسری اور چوتھی جماعت میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف میرے ساتھ پڑھتے رہے۔ گھر‘ سکول اور محلے میں مجھے ایک ہی شخصیت متاثر کرتی اور وہ تھے میرے والد۔ میں اُن کی محنت دیکھتا تو حیرت زدہ رہ جاتا۔ اُن کی اِس محنت کا ثمر یہ نکلا کہ 1960ء میں وہ ایک بار پھر چمڑے کے ایکسپورٹر بن گئے۔ ایفائے عہد اُن کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ ان سے بڑا بات کا دھنی میں نے نہیں دیکھا۔ نہایت منکسر‘ مذہب کے پابند اور روایت کے دلدادہ۔ اپنا عہد نبھانے کے لیے انہوں نے ایک بار تمام کاروبار یہاں تک کہ گھر بار بھی دائو پر لگا دیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس پہ ہمارے خاندان کو آج تک فخر ہے۔ اُس سال عالمی سطح پر کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ چمڑے کی قیمت میں اچانک اضافہ ہونے لگا لیکن اس اضافے کے باوجود والدِ محترم حسبِ وعدہ پرانے نرخوں پہ ایکسپورٹ کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''مجھے دیوالیہ ہونا منظور ہے لیکن اپنی زبان اور ساکھ پہ حرف نہیں آنے دوں گا‘‘۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ ہمارا سارا اثاثہ اِس اصول کی نذر ہو گیا۔ صرف ایک گاڑی‘ گھر اور کچھ زیور باقی بچا لیکن ہمارے والد کی نیک نیتی نے ہمیں دوبارہ سہارا دیا۔ہماری ترقی کا راز ہمارے خاندان کے باہمی اتفاق‘ رات دن محنت اور ہماری سادگی میں مخفی ہے۔ ہماری نوجوان نسل نیک‘ صالح اور ترقی کی دلدادہ ہے۔ بیرونِ ملک پڑھنے کے باوجود ان کی جڑیں اِسی مٹی میں ہیں۔ انہوں نے کہیں اور جا کر بسنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ میں اپنی زندگی میں ساڑھے چار سو سے زیادہ مرتبہ ملک سے باہر جا چکا ہوں۔ دنیا کا چپہّ چپہّ چھان مارا لیکن مکمل ایمانداری سے کہتا ہوں کہ جتنے کاروباری امکانات اِس ملک میں موجود ہیں وہ کہیں اور نہیں۔ ہماری ملوں اور کاروبار سے سینکڑوں افراد کو روزگار ملتا ہے۔ سیلز اور انکم ٹیکس کی مد میں ہم کروڑوں روپے قومی خزانہ کو واپس کرتے ہیں۔ میں کئی ایک سرکاری اداروں میں بغیر مراعات کے کام کرتا ہوں۔ ہمیں اتنا بہت کچھ ملا‘ اِسے لوٹانا بھی تو ہماری ذمہ داری ہے۔ میں وہ دن کیسے بھول سکتا ہوں جب میں نے ممبئی کے نزدیک شولا پور نامی ایک قصبہ میں جنم لیا۔ دو سال بعد میری اہلیہ نے بھی اسی شہر کے اِسی ہسپتال کے اسی کمرہ میں جنم لیا۔ آج قوموں کے درمیان مقابلہ میدانِ جنگ میں نہیں معیشت اور علم کے میدان میں ہوتا ہے۔ ہمیں دنیا کو معاشی میدان میں شکست دینا ہے۔ قتل و غارت یا جنگ و جدل انسانیت کے مسائل کا حل نہیں۔
ایس ایم منیر اپنی کامیابی کا راز تین الفاظ میں بیان کرتے تھے‘ محنت‘ دیانت اور قسمت‘ اگر محنت اور دیانت کو شعار بنایا جائے تو قسمت بھی مہربان ہو جاتی ہے‘ خدا بندے سے خود پوچھتا ہے کہ بتا تیری رضا کیا ہے؟ کیا ہم سب پاکستانی اپنے مرحوم بھائی جان کی یہ بات پلّے سے باندھ سکتے ہیں؟
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved