دسمبر آپہنچا۔ پورے ملک میں موسم بدل گیا‘ اسلام آباد میں ٹھنڈ اور شمالی علاقوں میں باقاعدہ سردیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔سنگھاڑے اور شکر قندی ٹھیلوں پر نظر آنے لگی ہے۔ لوگ اب جیکٹ اور سویٹرز میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ سموگ نے آہستہ آہستہ غلاف پھیلانا شروع کردیا ہے جو پہلی بارش کا منتظر ہے۔پورے ملک میں اس موسم کا انتظار اور خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ یہ پہننے‘ اوڑھنے‘کھانے پینے‘ گھومنے پھرنے کا موسم ہے۔شاعری کا موسم ہے۔ چائے اور کافی کا موسم ہے۔ دو تین سال پہلے جاڑوں میں ایک شعر کہا تھا:
تم ہو اور سردی میں خوشبو کافی کی
میں نے شاید باقی عمر اضافی کی
ویسے تو اب کافی کا تعلق نہ کسی مخصوص ملک سے ہے اور نہ کسی خاص موسم سے لیکن سردیوں کے ساتھ وابستہ رومان اپنی جگہ قابل ِاحترام ہے۔آج صبح جب کافی کے گرم گھونٹ پی رہا تھاتو میں نے سوچا کہ اگر میں کسی کو یہ بتاؤں کہ کافی کا لفظ عربی لفظ قہوے سے نکلا ہے تو لوگ حیران ہوں گے اور اگر میں یہ بھی ذکر کردوں کہ کافی مسلمان درویشوں کا مشروب ہے اور انہی کے ذریعے زیادہ تر دنیا میں متعارف ہوا تو دنیا بھر میں کافی کی غیر معمولی مقبولیت کے سبب اس پر یقین ہی نہیں کیا جائے گا۔
کافی اب تو خیر70سے زائد ممالک میں پیدا کی جاتی ہے لیکن کافی کے پودے جینس کوفیا (genus Coffea) کے اصل وطن گرم بارانی جنگلات والے افریقی اور بحر ہند کے ممالک مثلاً ایتھوپیا‘ مڈغاسکر‘ ماریشس‘ ری یونین وغیرہ ہیں۔کوفیا کے اندر کی پھلیاں پکنے پر انہیں چن لیا جاتا ہے اور خشک کرلیا جاتا ہے۔ خشک پھلیوں کوبھون کر پیس لیا جاتا ہے۔بس یہی کافی ہے۔اسے مختلف درجہ ہائے حرارت پربھوننے اور بعد میں تیار کرنے کے طریقوں نے ذائقوں میں بھی تنوع پیدا کردیا ہے۔بنیادی طور پر کافی کی دو اقسام ہیں۔ عربیکا (Arabica) جو نفیس قسم ہے اور روبسٹا(Robusta) جو ذرا سخت اور تلخ فصل ہے۔خطِ استوا پر واقع ممالک میں خصوصاً جنوبی امریکہ میں یہ خوب کاشت کی جاتی ہے۔
یہ جو میں نے اوپر بات کی تھی کہ کافی کالفظ دراصل عربی سے آیا ہے وہ بے دلیل نہیں ہے۔اگر سامی زبانوں پر ایک نظر ڈالیں جو دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں تو '' قہہ ‘‘ کے مادے کا مطلب ہے گہرا رنگ یا تاریک۔یہی لسانی مادہ عربی لفظ '' قہوے ‘‘ کا منبع ہے۔ عربی لغات دان ''قھی ‘‘ کا مطلب بتاتے ہیں بھوک ختم کرنے والا۔قہوہ کا لفظ عثمانی ترکوں نے عربی سے لیا اور یہ ترکی میں قہوے(kehve) کے طور پر رائج ہوگیا۔ترکوں سے ولندیزی یعنی ڈچ زبان میں یہی لفظ کوفی (koffie) کے نام سے آیا اور 1582ء میں انگریزی زبان میں پہلی بار کافی (coffee ) کے نام سے متعارف ہوا۔
چلیے یہ تو اس لفظ کے متعارف کرانے کی بات تھی۔کافی پہلی بار کس نے متعارف کروائی یہ بھی مزے کی بات ہے۔ کئی روایات ہیں اور ہر روایت میں کوئی نہ کوئی مسلمان موجود ہے۔ ایک قدیم روایت کے مطابق شیخ عمر نامی بزرگ جو بڑے مستعجا ب الدعوات مشہور تھے ‘ موشہ ‘یمن میں رہتے تھے۔ایک زمانے میں انہیں ان کے آبائی وطن سے جلا وطن کرکے وصاب نامی دشت میں جلا وطن کردیا گیا جہاں ایک غار ان کا مسکن تھا۔یہ ایسا ویرانہ تھا جہاں کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔ شیخ عمر نے ایک خود رو جھاڑی دیکھی اور اس کی پھلیوں سے بھوک مٹانے کی کوشش کی مگر یہ سخت تلخ تھیں۔انہوں نے ان پھلیوں کو بھونا لیکن یہ اور سخت ہوگئیں۔پھر انہوں نے ان پھلیوں کوپانی میں اْبالا تاکہ نرم ہوسکیں۔ نتیجہ ایک خوشبودار‘ توانائی بخش بھورا مشروب تھا جسے پینے سے شیخ عمر کو توانائی مل گئی اور وہ اس ویرانے میں زندگی کرنے کے قابل ہوگئے۔ یہ کافی کی دریافت تھی۔جب موشہ میں اس معجزاتی مشروب کی داستانیں پہنچیں تو شیخ عمر کو واپس بلا لیا گیا۔اس طرح یمن میں پہلی بار کافی متعارف ہوئی۔یمن کی خانقاہوں میں یہ مشروب تیزی سے مقبول ہوا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ جان دار قہوہ عبادت گزاروں کو رات بھرجاگنے میں مدد دیتا تھا۔
یہ مسلمان صوفیا اور کافی کی دوستی کا آغاز تھا۔تعارف کے بعدیمنی تاجرمشرقی افریقہ سے یمن میں کافی کے بیج لانے لگے اور سب سے پہلے یمن کی مسلم خانقاہوں میں علمااور درویشوں کے حلقوں میں پھلیاں یعنی بینز بھون کر اور پیس کر اسی طرح کافی بنائی گئی جیسے آج کل رواج ہے۔پھر یمن میں اس کی کاشت شروع ہوئی۔ پندرہویں صدی کے وسط میں کافی کے پودے کی کاشت اور تعارف میں یمن ہی کے احمد الغفار کا نام بھی قابلِ اعتماد شہادتوں میں موجود ہے۔ محمد بن سعیدنے پہلی بار کافی عدن میں متعارف کروائی۔ایک اور صوفی بزرگ علی بن عمر نے عرب دنیا میں کافی کو فروغ دیا۔یہ بزرگ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھی ملک العادل کے ساتھ بھی کافی مدت رہے۔معروف مسلمان عالم ابن حجر الہیثمی ایک مشروب کا ذکر کرتے ہیں جس کا نام قہوہ ہے اور وہ ذیلہ کے علاقے میں اُگنے والے ایک پودے سے بنایا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے کافی سب سے پہلے صوفی بزرگ بابا بودان ہندوستان لائے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دورانِ سفر کافی کے بیج اپنے جسم کے ساتھ باندھ کر ان کی حفاظت کی اور ہندوستان میں میسور کے علاقے میں کافی کا پہلا پودا لگایا۔ سولہویں صدی میں کافی ایران‘ ترکی اور شمالی افریقہ پہنچ چکی تھی۔وہاں سے کافی یورپ میں داخل ہوئی اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پھیلتی گئی۔
یورپی سیاحوں معالجوں اور سفیروں نے اس مشروب کو حیرت سے دیکھا۔1583ء میں ایک جرمن ڈاکٹر لیونہارڈ راوولف (Leonhard Rauwolf)نے مشرق وسطیٰ کے اپنے دس سالہ دورے کے بعد لکھا'' لکھنے والی سیاہی کی طرح کا ایک سیاہ مشروب جو بہت مزے سے صبح صبح پیا جاتا ہے‘ معدے کی بیماریوں سمیت کئی بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ایک جھاڑی کے پھل اور پانی سے بنایاجانے والا یہ مشروب بڑے سے چینی کے برتن میں ڈال کر سب کو پیش کیا جاتا ہے اور دائرے میں موجود باری باری ہر شخص اس میں سے پیتا ہے ‘‘۔یورپ‘ امریکہ اور جنوبی امریکہ تک کافی کی رسائی اور اس کے اثرات کی ایک لمبی داستان کو چھوڑتے ہیں۔مختصر یہ کہ برازیل اب کافی کی پیداوار میں دنیا میں نمبر ایک ہے۔ اور دنیا بھر میں کاشت سے لے کر پیے جانے تک کافی کے کاروبار سے منسلک افراد اربوں ڈالرز کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔صرف پھلیوں کو بھوننے اور خشک کرنے سے لے کر مختلف انداز کی کافی تیار کرنے کے طریقوں پر ڈھیروں ڈھیر کتابیں تصنیف ہوچکی ہیں۔ترکی کافی (Turkish Grind)‘ ایسپریسو (Espresso)‘ فرنچ پریس(French Press)‘کے پے چینو(Cappucino)‘آئرش کافی (Irish coffee)‘ آئس کافی ‘بلیک لیٹے(Black Latte) ‘ کیفے امریکانو۔ ذائقے گنتے جائیے اور حیران ہوتے جائیے لیکن ٹھہریے بات ذائقوں پر ختم نہیں ہوتی۔ تیار شدہ کافی کی سطح پر مختلف خوبصورت ڈیزائن بنانے کا فن اب لیٹے آرٹ کے نام سے مقبول ہوچکا ہے اور تجارتی کمپنیاں اس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔
اور اب ہم اس یقین کیساتھ کافی پیتے ہیں کہ یہ مغربی دنیا کی عطا ہے۔ مغربی برانڈز کی کافی میری طرح آپ بھی پسند کرتے ہوں گے۔ یہاں تواس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے ان لمبی قباؤں اور سفیدعماموں والے علمااور درویشوں کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھ لیا کریں جو بھوری اورخاکستری چھوٹی اینٹوں کی بنی ہوئی خانقاہوں میں حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اوراب ایک دنیا ان کے منفرد مشروب کی حلقہ بگوش ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved