بیوگی ایک ایسا غم ہے کہ میری دعا ہے کسی عورت کو اس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شریک حیات کی جدائی کا غم کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے یہ بات مجھے 24اکتوبر کو پتا چلی۔ یہ پورا سال ہی ہم نے تکلیفوں میں گزارا لیکن کبھی شکوہ کناں نہیں ہوئے۔ میں صبر کرتی رہی اور ارشد ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہر بات کا جواب دلیل سے دیا جاتا ہے۔ پر اُن کے دشمنوں نے بات کے جواب میں دلیل نہیں گولی کا استعمال کیا۔ سیدھا سر کا نشانہ لیا اور ایک تنقیدی آواز کو خاموش کروا دیا۔ میں نہیں مانتی کہ کینیا کی پولیس نے ارشد کو غلطی سے قتل کردیا‘ یہ ایک ٹارگٹ کلنگ ہے۔ اُن جیسے بہادر صحافیوں کو ہمیشہ جان کا خطرہ رہتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اہلِ قلم تبدیلی لا سکتے ہیں‘ اس لیے وہ ہمیشہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ ان کو کرپشن سے بہت نفرت تھی۔ وہ اس بات پر سخت رنجیدہ ہوتے کہ پاکستانی قوم کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے‘ اُس کے وسائل سے اشرافیہ اپنے اثاثے بنا رہی ہے۔ پاکستان بدحال ہوتا جا رہا ہے اور اس پر حکمرانی کرنے والے امیر۔ وہ اس نظام میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ وہ ایک ایسا نظام چاہتے تھے جس میں سب برابر ہوں‘ جس میں عوام کو بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ انہیں اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ وہ خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ چلے گئے‘ پر ہاں جاتے ہوئے اپنے ساتھ لاکھوں دعائیں لے کر گئے۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ ارشد اس سب میں نہ پڑیں کیونکہ اس سے نجی زندگی متاثر ہوتی ہے‘ پر وہ اپنا راستہ چن چکے تھے۔ وہ اسی پر چلے اور شہیدِ صحافت کہلائے۔ چالیس روز گزر گئے ہیں‘ میرے آنسو رکے ہیں نہ مجھے یقین آتا ہے کہ وہ چلے گئے ہیں۔ مجھے اب بھی لگتا ہے کہ جیسے وہ ابھی آواز دیں گے کہ جیا میری بات سنو۔ ابھی ان کی کال آئے گی کہ گیٹ کھول دو یا ابھی انکا واٹس ایپ پر میسج آئے گا۔ پر ایسا نہیں ہوتا۔ میں بار بار دروازے اور گیٹ کی طرف دیکھتی ہوں کہ شاید وہ واپس آجائیں۔ ان کو اپنی نظروں کے سامنے الوادع کیا۔ ان کی قبر پر جاتی ہوں لیکن اب بھی مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ نہیں ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھے کبھی گھر سے پاؤں باہر رکھنا نہیں پڑا پر جب ان کا جسد خاکی آیا تو مجھے ایسی ایسی جگہیں دیکھنا پڑیں کہ شاید ہی کبھی کسی عورت یا بیوہ نے دیکھی ہوں۔ سرد خانہ‘ پوسٹ مارٹم کا کمرہ‘ ہزاروں لوگوں کا رش جو ارشد کے لیے رو رہے تھے اور کفن میں لپٹا شوہر‘ یہ سب دیکھنا اور سہنا بہت مشکل تھا اور ہے۔ میں ان کو آہستہ آہستہ آواز دیتی رہی کہ ارشد اُٹھ جاؤ‘ آفس نہیں جانا‘ دیر ہورہی ہے لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ ان کے چہرے پر سکون تھا اور دھیمی سی مسکراہٹ۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا: یہ جب کینیا سے آئے تو ان کا چہرہ خاموش تھا اور یہ کلین شیو تھے۔ اب یہ مسکرا رہے ہیں‘ رنگ کتنا صاف ہوگیا ہے اور شیو بھی بڑھ گئی ہے۔ دیکھنا یہ ابھی جاگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا: یہ شہادت کی علامت ہے۔
ہماری گیارہ سال تک رفاقت رہی۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ مناظر آتے رہے جو ہم نے ساتھ گزارے۔ اپنے ناقابلِ تلافی نقصان پر پھوٹ پھوٹ کر رونا آتا رہا۔ جب ان کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا تو میں فیصل مسجد کی گیلری سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اتنے زیادہ لوگ اُن کی نمازِ جنازہ میں آئے کہ میں روتے روتے کچھ دیر کے لیے چپ ہوگئی اور حیران ہوئی کہ ارشد سے لوگ اتنا پیار کرتے ہیں۔ آج اُنہیں گئے چالیس دن ہوگئے ہیں‘ لوگ اُن کی قبر پر اب بھی پھول نہیں خشک ہونے دیتے۔ ہر وقت وہاں دعا کرنے والوں‘ قرآن خوانی کرنے والوں‘ اور پھول رکھنے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔ میں ان تمام عقیدتوں اور محبتوں کا قرض کبھی نہیں اتار سکتی‘ نہ ہی میری صحت اس چیز کی اجازت دے رہی ہے کہ میں کچھ کر سکوں۔ جتنی ہمت ہوتی ہے اتنا ان کے انصاف کے لیے آواز بلند کرتی ہوں‘ اس کے بعد نڈھال ہوکر رونے لگ جاتی ہوں۔
رواں سال میں طویل عرصہ تک بیمار رہی‘ اُسی دوران ارشد پر مقدمات پر مقدمات درج ہوتے گئے۔ ان کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ ارشد پر درج ہونے والے مقدمات پر میں بہت حیران ہوئی کہ اتنے محبِ وطن صحافی سے یہ سلوک کیوں ہورہا ہے۔ جب بھی ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا‘ انہوں نے بہادری سے اُس کا سامنا کیا لیکن میں ہر مقدمے کے اندراج پر بہت روئی۔ ہم عورتیں حساس ہوتی ہیں‘ جنگوں سے کتراتی ہیں کیونکہ جنگوں میں ہار ہمیشہ عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہیں۔ پر ارشد تو کرپشن کے خلاف جہاد کررہے تھے‘ وہ ہمیشہ ثبوتوں کے ساتھ بات کرتے اور اپنی بات پر ڈٹ جاتے۔ میں نے ارشد کو بہت بار کہا: اتنا سچ نہیں بولتے۔ میں بطور بیوی ڈرتی تھی لیکن وہ اپنی ذات میں درویش تھے۔ ان کو وطن سے بہت محبت تھی اور کرپشن کرنے والوں سے وہ شدید نالاں تھے۔ پورے ملک میں ان پر مقدمے درج ہوئے‘ میرا دل بری طرح ٹوٹ گیا کہ میرے شوہر جو اس ملک کے بڑے اینکر بھی ہیں‘ کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہورہا ہے۔ ارشد کے جانے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا ہے جو اب ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ میں کوشش کررہی ہوں کہ کسی طرح اپنی بکھری زندگی اور ذات کو سمیٹ سکوں لیکن ہمت ہی نہیں ہوتی‘ کیونکہ غم ہی اتنا بڑا ہے۔
جس وقت وہ دنیا نیوز کے ڈائریکٹر نیوز بنے تو وہ میری زندگی کا بہترین دور تھا۔ میں لاہور گئی تو مجھے لاہور بہت اچھا لگا۔ وہاں کا ماحول‘ وہاں کے لوگ مجھے بہت اچھے لگے۔ میں اس وقت کم عمر تھی‘ لاپروا تھی لیکن آہستہ آہستہ گھر گرہستی سیکھ لی۔ آج بھی لاہور میں گزرا وقت جب یاد آتا ہے تو لگتا ہے وہ ایک فیری ٹیل تھی۔ ارشد دنیا ٹی وی کو اپنی فیملی سمجھتے تھے۔ جب ایک دہائی بعد میں نے ان سے دنیا اخبار جوائن کرنے کی اجازت مانگی تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ تم اتنے بڑے پلیٹ فارم پر لکھو گی۔ تمہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا‘ ہمیشہ اپنے ایڈیٹرز کا احترام کرنا۔ میں ہر کام ارشد کی اجازت سے کیا کرتی تھی۔ وہ کسی چیز سے منع نہیں کرتے تھے لیکن میں اجازت لینا لازمی سمجھتی تھی۔
جب وہ ملک سے باہر چلے گئے تب بھی وہ گھریلو ذمہ داریاں پوری کرتے رہے تاکہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ میں شوقیہ کام کرتی تھی‘ گھر کی ساری ذمہ داریاں ارشد نے اپنے ذمے لے رکھی تھیں۔ وہ مجھے اکثر کہتے یوٹیوب کیا کرو یا ٹی وی سے آنے والی آفر کو رد مت کیا کرو‘ اپنا ٹیلنٹ ضائع مت کرو۔ میں ان کو کہتی: گھر میں ایک ہی سٹار اور سلیبرٹی ہوتا ہے تو وہ آپ ہیں‘ مجھے صرف لکھاری رہنے دیں۔ پھر وہ کہتے جیسے تمہاری مرضی۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ سوشل میڈیا یوز کرنے کی آزادی دی اور اس کے ساتھ کبھی میرے کالمز کے موضوعات پر دخل نہیں دیا۔کبھی مجھے میرے آزادیٔ اظہارِ رائے سے محروم نہیں کیا۔
وہ بہت محنت کرتے تھے‘ انہیں انگریزی اور اردو پر مکمل عبور حاصل تھا۔ عام اینکرز کی طرح وہ ٹیم کے محتاج نہیں تھے‘ خود ہی ساری ریسرچ کر لیتے تھے اور مکمل تیاری کے ساتھ اپنا پروگرام کرتے تھے۔ اپنے ہر پروگرام میں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرتے اور مسلح افواج کی قربانیوں کو اجاگر کرتے۔ انہوں نے ہر ملٹری آپریشن کور کیا۔ نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی ملٹری ایونٹس کو کور کیا۔ ان کو لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر فالو کرتے تھے۔ وہ بہت عاجزی اور انکسار پسند تھے پر اپنی دھن کے پکے تھے۔ کسی بات پر اگر قائم رہنے کا تہیہ کر لیتے تو پھر ان کو کوئی نہیں اس بات سے ہلا سکتا تھا۔ اس لیے وہ نہ ڈرے نہ جھکے‘ نہ کوئی ان کو خرید سکا‘ اس لیے ان کی آواز خاموش کروا دی گئی۔ پر ان کا کام‘ ان کے اقوال‘ ان کی شاعری‘ ان کی وڈیوز عوام میں بیداری پیدا کرگئے۔ وہ شہید ہیں‘ زندہ ہیں۔میں نے ان کو 23اکتوبر کو میسج بھیجا کہ میں ایک کالم پر کام کررہی ہوں۔ اس دن میں سانس لینے میں تکلیف محسوس کررہی تھی‘ کورونا کے بعد اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انہیلر لینا پڑتا ہے یا نیبولائز کرنا پڑتا ہے۔ میری دل کی دھڑکن بے ترتیب ہورہی تھی تو میں نے سوچا کہ بجائے یہی سوچتی رہوں کہ میری طبیعت خراب ہے‘ کچھ کام کرلیتی ہوں۔ میں نے ان کو میسج کیا اور یہ ہمارے درمیان ہونے والی آخری گفتگو تھی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved