تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     04-12-2022

گم شدہ قیادت

عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے والی جمہوریت کی تلاش جاری ہے‘ یہ الفاظ ملک کے موجودہ حالات کا خلاصہ بیان کرتے ہیں جو اس وقت ہر قسم کے بحران کی زد میں ہے۔ ہر روز معیشت کمزور سے کمزور ہو رہی ہے۔ڈیفالٹ کا خطرہ ریکارڈ سطح تک جا پہنچا‘ ریکارڈ تعداد میں صنعتیں بند ہورہی ہیں‘ مہنگائی قابو سے باہر ہے‘ روپیہ قدر کھو رہا ہے‘ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس دوران ایک تعیناتی پر غیرضروری سیاسی تناؤ نے پہلے سے موجود غیریقینی پن اور تنازعات کی حدت بڑھائے رکھی۔ تحریک انصاف کالانگ مارچ شروع ہوگیا۔ اس افراتفری کے عالم میں جب کہ ملک ایک نازک موڑ پر کھڑا تھا اور مرکزی حکمران جماعت قیادت سے محروم۔
قیادت ایک ایسا جہاز ہے جو مسلسل طوفانی لہروں کی زد میں رہتا ہے۔ عظیم رہنما وہ ہوتے ہیں جنہیں ہمیشہ چیلنجوں اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرنا آتا ہے۔ وہ عظیم اس لیے ہوتے ہیں کیوں کہ وہ ان حالات کا سامنا کرتے ہیں‘ ان سے لڑتے ہیں‘ ناممکنات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور آخر کار اپنی قوتِ ارادی اور مہارت سے انہیں ممکن بنا دیتے ہیں۔ ایسے لیڈر بہت طاقت ور بن جاتے ہیں۔ ان کا کردار‘ رویہ‘ طرزِ عمل‘ صلاحیت اور ماضی کا ریکارڈ اُنہیں بال و پر دیتا ہے۔ فی الحال اقتدار کی جنگ نے ملک میں قیادت کے بحران کو بے نقاب کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کے مسائل‘ پی ڈی ایم اور اپوزیشن‘ اپوزیشن اور میڈیا کے درمیان جاری رسہ کشی کی بنیاد یہ ہے کہ کون زیادہ سے زیادہ وسائل‘ پوزیشن اور طاقت کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو کنٹرول اور مطیع کر سکتا ہے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ملک کے لیے کیا جارہا ہے لیکن دراصل یہ کشمکش اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ہے۔ اور یہی قیادت کا نقص ہے۔ قیادت کی بنیاد طاقت پر ہوتی ہے۔ طاقت کی بنیاد پر استحکام کو دوام ملتا ہے۔ آئیے ان عوامل کو دیکھیں جو پاکستان میں سیاسی قیادت کو اتنا ہنگامہ خیز بنا دیتے ہیں۔ وہ ابھرتے ہیں‘ شہرت کے آسمان کو چھوتے ہیں اور پھر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔
1۔ قائدانہ کردار یا طاقت کا سہارا: پاکستان میں اعلیٰ انتظامی عہدے تک پہنچنے کا راز طاقت کی اصل راہداریوں سے درست روابط میں مضمر ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں مقتدرہ قومی سطح کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے‘ لیکن ملکِ عزیز میں یہ رجحان کچھ زیادہ ہی موجود ہے۔ براہِ راست مداخلت کا دور تو شاید اب گزر چکا لیکن اب بھی کلیدی عہدوں کو کنٹرول میں رکھنا ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت نے سیاسی جماعتوں کو باور کرا دیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے ان کے ساتھ گٹھ جوڑ ضروری ہے۔ ہاں پارٹی کی اپنی مقبولیت کی بنیاد بھی ایک حقیقت ہے لیکن یقینی نمبر حاصل کرنے کے لیے کسی پوشیدہ ہاتھ اور پارٹی کا تال میل ضروری سمجھا جاتا ہے۔ عام انتخابات میں اکثر جماعتیں اس بساط پر اپنی چالیں چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور بعض اوقات سیاست سے باہر رہنے والے بھی اپنی معاونت کی قیمت اپنی مرضی کی پالیسی سازی کی صورت وصول کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دامن پر بھی اقتدارمیں آنے کے لیے سہولت کاری کا داغ لگا ہوا ہے۔ ایک نئی جماعت ہونے کے ناتے وہ ابھی اس الزام سے نمٹنے کی کوشش کررہی تھی کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اسے اقتدار سے باہر نکالنے کے لیے گٹھ جوڑ کا فیصلہ کر لیا۔ عام انتخابات میں جیتنا یا ہارنا اب بھی سیاسی انجینئرنگ کے اعتبار سے ایک مشکل سیاسی واقعہ ہے‘ لیکن عدم اعتماد کی کامیابی ملی بھگت کا نتیجہ ہی تھی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ لکیر تبدیل کرنے والی جماعتیں کس کی حمایت یافتہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف رہنماؤں کی قیادت کا گراف اس قدر ناقابلِ اعتبار ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے تمام ممنوعات کی لکیر عبور کرکے تمام جماعتوں اور اُن کے حامیوں کے خلاف ڈٹ جانے کی مثال قائم کی۔ انہوں نے اور اُن کی جماعت نے ہراساں کیے جانے اور جسمانی اذیتوں کا سامنا کیا۔ اس سے اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی ماضی میں ایسا کرنے کی کوشش کی ‘ انہوں نے ایسا صرف اس وقت کیا جب ان کی خواہشات کو رد کیا گیا۔ مزید برآں‘ انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں تھی اور اس طرح وہ جماعتیں کبھی بھی ایسا مؤقف اختیار نہیں کر سکیں جو رائے عامہ کے لیے اہمیت رکھتا ہو۔
2۔ قیادت کی بنیاد رسمی یا غیر رسمی اتھارٹی: اصل سوال یہ ہے کہ آپ کی قیادت کس بنیاد پر کھڑی ہے؟ کیا آپ کوئی مؤقف‘ کوئی نقطہ نظر رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے نظریے کو کوئی اہمیت بھی دی جا رہی ہے؟ کیا اس کا سلسلہ طاقت کے مرکز سے جڑا ہوا ہے؟ کیا یہ آپ کے پیدائشی نسب کو حاصل میراث کی مانند ہے؟ یا یہ آپ کے کردار‘ آپ کے اعمال‘ آپ کے طرزِ عمل سے طاقت حاصل کرتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب تعین کرے گا کہ کیا آپ کی قیاد ت محض بجلی کا ایک کوندا ثابت ہوتی ہے یا اس کا اثر آپ کے بعد آنے والے زمانوں تک رہے گا۔ ان تمام لیڈروں‘ جو قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں‘ سے یہ سادہ سا سوال پوچھنا چاہیے کہ آپ میں سے کتنے لوگ اس شخص کی پیروی کریں گے اگر اس کے پاس موجودہ عہدہ‘ یا سیٹ نہ ہو تو؟ اس سے ان کی قیادت کی حقیقت کھل جائے گی۔ یہ رسمی نہیں بلکہ کسی کے رویے اور کردار پر مبنی غیر رسمی اتھارٹی ہے جو لوگوں کو پیروی کرنے پر مائل کرتی ہے۔ جب نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ چھوڑی تو وہ عوامی تحریک نہ چلا سکے اس کے برعکس عمران خان جب سے اپنے عہدے سے ہٹائے گئے ہیں‘ مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت اپنی طاقت‘ عہدے اور مرتبے سے نہیں بلکہ اپنے کردار اور طرزِ عمل سے حاصل کرتی ہے۔
3۔ سامنے آکر قیادت کرنی ہے یا پس منظر میں رہ کر: قیادت کا مطلب مارچ کی دھن ترتیب دینا ہے۔ قیادت کا مطلب ہی سبقت ہے۔ مشکل حالات میں آگے بڑھ کر ایک مثال قائم کرنا ہے تاکہ پیروکاروں کو ایسا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ موجودہ بحران نے پی ڈی ایم کی قیادت اور اپوزیشن کی قیادت کے فرق کو ظاہر کر دیا ہے۔ (ن) لیگ کی قیادت اقتدار کی کرسی پر ہوتے ہوئے قیادت کرتی ہے۔ کرسی جاتی ہے توشریف خاندان لندن کی طرف رخت سفر باندھ لیتا ہے۔ نواز شریف کو پرویز مشرف نے گرفتار کیا تو خاندان نے ڈیل کی اور جدہ چلے گئے۔ پھر مشرف سے این آر او لیا اور واپس آگئے۔ جب 2018ء میں نواز شریف کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پھر سے آٹھ ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ملک سے باہر چلے گئے۔ اب تین سال ہو چکے ہیں‘ ان کے ویزے میں توسیع سے انکار کر دیا گیا۔ ان کی پارٹی زبوں حالی کا شکار ہے۔ حکومت شدید بحران کی زد میں ہے۔ واپس آنے اور محاذ سنبھالنے کے بجائے وہ برطانیہ اور یورپ میں گھوم رہے ہیں۔ اس دوران عمران خان پر کم از کم دو درجن مقدمات ہو چکے ہیں‘ وہ مخالفین کے نشانے پر ہیں‘ اُن پر ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے‘ ایک اور کی دھمکی بھی موجود ہے‘ اور وہ اب بھی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف واپس نہیں آرہے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کے لیے جان بھی دیں گے۔
قیادت مثال مانگتی ہے۔ قیادت کی قربانی اُس کا اثر پھیلاتی ہے۔ اگر لیڈر ڈرتا ہے‘ بھاگتا ہے‘ چھپتا ہے تو اُس کے حامی بھی ایسا ہی کریں گے۔ یہ نہ صرف سیاست بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر لاگو ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved