تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-12-2022

واپسی کا کوئی سوال نہیں

دنیا ایک بار جس مقام تک پہنچ جائے پھر اُس سے پیچھے نہیں ہٹتی‘ واپس نہیں جا پاتی۔ اقبالِؔ عظیم مرحوم نے کہا تھا ؎
واپسی کا کوئی سوال نہیں
گھر سے نکلے ہیں آنسوؤں کی طرح
ہمارا اور زندگی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ دنیا کا کام ہے بڑھتے رہنا۔ ہر عہد میں کچھ نہ کچھ نیا ہوتا رہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں زندگی کا ڈھانچا تبدیل ہوتا رہا ہے‘ انسانوں کو بہت کچھ ملتا رہا ہے۔ جب تحقیق اور ایجادات و اختراعات کا بازار گرم ہوتا ہے تب دنیا تیزی سے تبدیل ہوتی ہے۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے ملنے والی کامیابی ہمیں وہاں لے جاتی ہے جہاں عمرانی علوم بھی پیش رفت یقینی بنانے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ یوں معاشی معاملات بھی بدلتے ہیں اور نفسی معاملات بھی پہلے سے نہیں رہتے۔ عظیم سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے فطری اور بشری علوم و فنون کے حوالے سے معاملہ یوں بیان کیا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے عقل کی وہ سطح بروئے کار نہیں لائی جا سکتی جو مسئلے کے پیدا ہونے کے وقت تھی! یعنی تیزی سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں سے بہ طریقِ احسن نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے کہ دانش کا معیار بلند کیا جائے۔ اس دنیا کا سارا کاروبار اِسی طور چلتا آیا ہے۔ ہر عہد کے انسان نے اپنے آپ کو علم و فن کے میدان میں آزمایا ہے۔ یہ طبع آزمائی دنیا کو اَپ گریڈ کرنے کا ذریعہ بنتی آئی ہے۔تغیر ہی سے دنیا کا حُسن ہے اور تغیر ہی انسان کے لیے سب سے بڑا دردِ سر رہا ہے۔ یہ بھی قدرت کا نظام ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز ''بیگیج‘‘ کے بغیر نہیں ملتی۔ ہر سہولت اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی پریشانی اور پیچیدگی بھی لاتی ہے۔ پیچیدگی سے نمٹنا اور سہولت سے کما حقہ مستفید ہونا ہمارے کرنے کا کام ہے۔ انگریزی میں ایک معروف کہاوت ہے کہ دنیا میں فری لنچ جیسی کوئی چیز نہیں یعنی ہر معاملے میں کچھ پانے کے لیے کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے۔
تغیر اپنے ساتھ بہت سی ذمہ داریاں بھی لاتا ہے۔ تغیر کے نتیجے میں کسی کے لیے سنہرے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور کسی کے لیے ناموافق حالات۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ جن کی اچھی تربیت یقینی بنائی گئی ہو وہ زندگی کے اس کھیل کو سمجھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جب بہت کچھ بدل رہا ہو تو انسان کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے اور اپنے آپ کو بدلنے کا ذہن بھی بنانا پڑتا ہے۔ زندگی پیش رفت کا نام ہے۔ مُڑ کر دیکھنے کی گنجائش ایک خاص حد تک ہے۔ گزرا ہوا زمانہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اُس کی طرف مڑ کر دیکھا جائے‘ کچھ سیکھا جائے‘ عبرت پکڑی جائے۔ گزرے ہوئے زمانے میں جینا ممکن نہیں۔ کوئی اگر اپنے ذہن سے گزرے ہوئے زمانے کو مکمل طور پر کھرچ کر پھینکنے میں کامیاب نہ ہو تو یہ کوئی بہت خطرناک بات نہیں مگر گزرے ہوئے زمانے میں اپنے پورے وجود کو سمو دینا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ایسا کرنے سے حال تو بے حال ہوتا ہی ہے‘ آنے والے زمانے کے بارے میں سوچنے اور کچھ کرنے کا ذہن بنانے کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی۔ ہر عہد کی دنیا بہت سے چیلنج لے کر چلتی ہے۔ کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے انسان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ چیلنج نام ہی ایسی کیفیت کا ہے جو انسان کو محنت کرنے کی تحریک دے۔ آج دنیا زیادہ الجھی ہوئی اس لیے لگتی ہے کہ بہت کچھ ایجاد ہو چکا ہے یا کھوجا جا چکا ہے۔ ایسے میں انسان کو بہت کچھ دیکھنا اور سمجھنا پڑ رہا ہے۔ ایجادات و اختراعات نے زندگی کو بیک وقت آسان اور مشکل بنا رکھا ہے۔ جو کچھ ہمارے لیے سہولت کا ذریعہ ہے وہی ہماری راہ میں طرح طرح کی الجھنیں بھی پیدا کر رہا ہے۔ سب کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ایسے میں انسان کے لیے مشکلات کا بڑھنا فطری امر ہے۔
جو زمانے گزر چکے ہیں وہ اب کہاں آئیں گے؟ سو‘ دو سو سال پہلے ترقی کی رفتار خاصی سُست تھی۔ بہت کچھ تھا جو گزرے ہوئے زمانوں سے چلا آرہا تھا۔ ایجادات کا بازار گرم نہیں تھا۔ اختراعات کا معاملہ بھی کمزور تھا۔ ایسے میں زندگی کی مجموعی رفتار خاصی کم تھی۔ یہ کم رفتار بہت حد تک نعمت تھی کیونکہ زندگی میں زیادہ بھاگ دوڑ نہیں تھی۔ بیشتر معاملات سادہ تھے۔ لوگ ہزاروں سال کے عمل میں پروان چڑھنے والی اقدار کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ کچھ ایجاد ہو بھی جاتا تھا تو زندگی کے ڈھانچے کو تبدیل کرتا تھا نہ ہلاتا تھا۔ آج معاملات بہت مختلف ہیں۔ اب انسان کے لیے گزرے ہوئے زمانوں کی طرف دیکھنے اور اُن میں گم رہنے کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔ مقابلہ سخت ہے۔ سبھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو معاشرے پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی مر تو خیر نہیں گئے مگر اُن کا زندہ رہنا خاصے شرم ناک انداز سے ہے۔ وہ بنیادی سہولتوں تک کو ترستے ہیں۔ عزت کے ساتھ معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے کے لیے اب کسی بھی معاشرے کو بہت کچھ کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی تواتر کے ساتھ۔
ہم ایک ایسے عہد کا حصہ ہیں جس میں کوئی بھی معاشرہ غیر متعلق نہیں رہ سکتا۔ اب بقا صرف اُن کے لیے ہے جو اپنے آپ کو علم و فن کے میدان میں زندہ رکھیں۔ کچھ نہ کرنے کا آپشن اب برائے نام رہ گیا ہے۔ جن معاشروں نے خود کو ترقی اور استحکام کی دوڑ سے الگ کر لیا ہے اُن کا حشر ہم نے دیکھا ہے۔ کئی خطے شدید پس ماندگی کا شکار ہیں کیونکہ اُنہوں نے ہمت ہار دی ہے اور ترقی و استحکام کی دوڑ میں شریک ہونے کا ذہن ہی نہیں بنا پارہے۔ کچھ یوں بھی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا اِن خطوں کو پس ماندہ رکھنے پر تُلی ہوئی ہے۔ افریقا کی مثال بہت نمایاں ہے۔ ایسے میں کسی بھی خطے یا معاشرے کے لیے اب واپسی کی گنجائش نہیں بچی اور آگے بڑھنے کے سوا آپشن نہیں۔
آج دنیا بھر میں علم و فن کی دنیا سے وابستہ ماہرین اور تجزیہ کار اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کو زندہ رہنا اور پروان چڑھنا ہے تو لازم ہے کہ فطری علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بنائے۔ عصری علوم و فنون میں کماحقہ مہارت پیدا کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ زندہ رہنے کی گنجائش پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ زمانہ جا چکا ہے جب کوئی بھی ملک یا معاشرہ باقی دنیا سے لاتعلق رہتے ہوئے بھی جی لیتا تھا۔ اب کوئی بھی معاشرہ پس ماندگی کا آپشن اپنانے کی صورت میں یکسر غیر متعلق ہوکر رہ جاتا ہے اور پھر اُس کے مقدر میں صرف ذلت رہ جاتی ہے۔ زمانے کی روش ہی کچھ ایسی ہے کہ اب کسی بھی معاشرے کے پاس پیچھے رہ جانے کا آپشن نہیں بچا۔
پاکستان جیسے معاشروں کے لیے بھی سو طرح کے چیلنج ہیں۔ ہر چیلنج ہماری توجہ چاہتا ہے۔ چیلنج ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ اُن کا ڈٹ کر سامنا کیا جائے‘ اپنے آپ کو ثابت کیا جائے۔ بے دِلی اور بے ذہنی کے ساتھ جینے میں کچھ نہیں رکھا۔ لازم ہے کہ بھرپور عزم کے ساتھ معیاری زندگی بسر کرنے کی تیاری کی جائے اور اس حوالے سے فکر و عمل کی راہ پر یوں گامزن ہوا جائے کہ دنیا دیکھے اور سراہے۔ علم و فن کی دنیا ہمیں بھی آواز دے رہی ہے۔ عصری علوم سے بے بہرہ رہ جانا کسی بھی درجے میں کوئی آپشن نہیں۔ محض جینے کے لیے نہیں بلکہ اپنی بقا یقینی بنانے کے لیے بھی لازم ہے کہ جوکچھ دنیا میں چل رہا ہے اُسے پوری توجہ اور عزم کے ساتھ اپنایا جائے۔ ایسا کیے بغیر ہم شدید پس ماندگی ہی کی زندگی بسر کرتے رہیں گے اور یوں رفتہ رفتہ ہماری جان پر بن آئے گی۔
تمام چھوٹے اور غیر متعلق سے معاملات کو ایک طرف ہٹاکر ملک کو عصری علوم و فنون کی راہ پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے۔ اب چونکہ صرف آگے بڑھنے کا آپشن بچا ہے اور واپسی کا کوئی سوال نہیں اِس لیے ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی بھی شعبے کی تازہ ترین پیش رفت پر متوجہ ہوئے بغیر بھی ڈھنگ سے جیا جا سکتا ہے۔ ہم خاصا وقت ضائع کر چکے ہیں۔ وقت کا مزید ضیاع بقا کا مسئلہ بھی پیدا کر سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved