پاکستان اور بھارت کے تعلقات دوطرفہ بداعتمادی اور مخاصمت کی ایک طویل داستان ہے۔ان میں ایسے ا دوار بھی آئے ہیں جب ان کے درمیان روابط محدود یا سرے سے مفقود ہو گئے۔ ان کے کشیدہ تعلقات میں پہلے کبھی ایسا تعطل نہیں آیا جیسا کہ ان دنوں دیکھنے میں آیا ہے۔جیسے ہی نریندر مودی نے بھارتی وزیر اعظم کامنصب سنبھالا اس کے دو مہینے کے اندر اندر دونوں ممالک کے تعلقات منجمد ہو گئے۔ وہ مئی 2014ء کے آخری ہفتے میں وزیراعظم بنے اور اگست کے اوائل میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات معطل کردیے تھے جو ہنوز تعطل کا شکار ہیں۔محدود تجارت اور آمدو رفت کا جو سلسلہ نچلی سطح تک جاری رہا وہ بھی اگست 2019ء میں اس وقت منقطع ہو گیا جب بھارت نے اپنے آئینی دائرہ کار میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کوختم کر دیا حالانکہ اسے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370کے تحت تحفظ حاصل تھا۔ مقبوضہ کشمیر کو ریاستی سٹیٹس سے محروم کر کے اسے بھارتی وفاق کے تحت دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔بھارت کی دستوری تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ریاست کو ڈائون گریڈ کر کے دو یونین علاقوں میں تقسیم کیا گیا؛چنانچہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر طرح کے تجارتی تعلقات معطل کر دیے اورکشمیر کے خصوصی آئینی سٹیٹس کو تبدیل کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہرطرح کی سفری سہولتوں پر سخت پابندی عائد کر دی اور اس کے سابقہ سٹیٹس کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات میں ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی کہ پاکستا ن اور بھارت فروری 2021ء میں اس امر پر متفق ہو گئے کہ لائن آف کنٹرول پر امن اور استحکام لانے کے لیے نومبر2003ء کی مفاہمتی یادداشت کی روشنی میں پھر سے کام کا آغاز کیا جائے گا‘تاہم اس امر کی موہوم سی امید بھی نظر نہیں آتی کہ دونوں ممالک میں اگست 2019ء سے پہلے والے تجارتی اور عملی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ مودی حکومت اپنی کشمیر پالیسی پر بضد ہے اور اس ایشو پر کوئی نرمی دکھانے سے انکاری ہے۔وہ پاکستان کے اس مطالبے کو بھی در خورِ اعتنا نہیں سمجھتی کہ بھارت کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی مسلسل خلا ف ورزیوں کا سلسلہ بند کریں۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا متنازع ایشو ہے۔ بھارت اسے جنوری 1948ء میں یہ کہتے ہوئے اقوام متحدہ کے فورم پر لے گیا کہ پاکستان کشمیر میں جارحیت کامرتکب ہو رہا ہے۔یواین سلامتی کونسل اور یواین کمیشن برائے پاکستان و بھارت نے اگست 1948ء اور جنوری 1949ء میں دوقراردادیں منظور کیں جن کے تحت کشمیر میں جنگ بندی کردی گئی‘کشمیر میں سیز فائر لائن بنا دی گئی اور یہ قرار پایا کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔1948-49ء میں بھارت استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل پر راضی ہو گیاتاہم استصواب رائے کے فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال کرتا رہا۔ اسے شاید یہ امید تھی کہ شیخ عبداللہ او ران کے حواری کشمیر کو اس کی جھولی میں ڈال دیں گے مگر 1953ء میں شیخ عبداللہ او ربھارت میں اس امر پر اختلاف رائے پیدا ہوگیا کہ کشمیر ی عوا م کو اپنے سیاسی مستقبل کاخود فیصلہ کرنے کاحق حاصل ہے۔شیخ عبداللہ کو کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب سے برطرف کرکے گرفتا رکر لیا گیا۔ان کی جگہ ایک ایسے بھارت نواز شخص کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جس نے کشمیر اسمبلی سے بھارت کے حق میں ووٹ کا بندوبست کیا۔
پاکستان اور اقوام متحدہ نے اس عمل کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے استصواب رائے کے متبادل کے طورپر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔1953-54ء سے ہی بھارت سرکاری سطح پر کشمیرمیں اقوام متحدہ کی قرار داد کی رُو سے استصواب رائے سے مسلسل انکار کررہا ہے۔مسئلہ کشمیر ایک بڑے تنازعے کے طورپر‘ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں رکاوٹ بنا ہوا ہے جس سے دونوں ممالک کے مجموعی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کے ڈانڈے 1947 ء تک ملتے ہیں۔کئی چھوٹی جنگوں کے علاوہ دونوں ممالک میں1948-49ء‘ 1965ء اور 1971ء کی بڑی جنگیں بھی ہو چکی ہیںیا دونوں ممالک کشمیر کی لائن آف کنٹرول پرایسی متحارب عسکری کارروائیوں میں مصروف رہے جن کی وجہ سے ہر عالمی فورم پر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکارپاکستان او ربھارت کے مابین مخالفانہ جذبات کومزید فروغ ملا۔ پاکستان کو عالمی سطح پر بھارت کی طرف سے مسلسل پروپیگنڈا اور سفارتی حملوں کا سامنا رہا۔
مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اب تک چار سطحوں پرکوششیں کی گئی ہیں مگر یہ تنازع ہنوز حل طلب ہے۔ان سفارتی کوششوں میں اقوام متحدہ‘ دوست ممالک‘دوطرفہ مذاکرات اور مختلف ٹریکس کے ذریعے غیر سرکاری ڈائیلاگ شامل ہیں۔یو این او نے متعدد مرتبہ اپنی قراردادو ں کونافذکرنے کی کوششیں بھی کی ہیں‘تاہم بھارت نے اس سلسلے میں تعاون کرنے سے انکار کیا۔مسئلہ کشمیر 1954-55ء میں امریکا اور سوویت یونین میں جاری سرد جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا؛ چنانچہ دیگر ممالک کے لیے اس مسئلے کو خالص قانونی میرٹ پر حل کرنے میں کوئی کردار ادا کرنا مشکل ہوگیا۔سعودی عرب‘ایران اور ترکی کے سوا پاکستان کواس مسئلے پر مسلم ممالک کی طرف سے غیر مشروط سپورٹ نہ مل سکی۔بعض ممالک کی طرف سے ثالثی اور سہولت کاری کا عندیہ دیا گیا مگر بھارت نے اس آپشن کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو مرتبہ اہم مذاکرات ہوئے۔ 1962-63ء میں دونوں ممالک میں وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات ہوئے مگروہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔دوطرفہ مذاکرات کا ایک اہم دور 2004-08ء میں ہواجس کے بعدکشمیر سمیت آٹھ ایشوز پر بات چیت کے لیے ڈائیلاگ گروپس تشکیل دیے گئے۔انہی مذاکرات کے دوران پرویز مشرف نے کشمیر پر اپنا چار نکاتی فارمولا پیش کیاجس پر دونوں حکومتوں نے سیر حاصل بحث کی تھی‘تاہم یہ عمل اس وقت تعطل کا شکار ہوگیا جب پرویز مشرف کے خلاف 2007ء میں ایک سیاسی تحریک شروع ہوگئی اور 2008ء میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیااورپھر نومبر 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوگیا۔اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولا سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ پاکستان‘بھارت‘امریکا اور برطانیہ میں قائم غیر سرکاری گروپس او ر تھنک ٹینکس دونوں ممالک کے مابین غیر سرکاری ڈائیلاگ کا بندوبست کرتے رہے او ریہ سلسلہ 1980ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا۔کچھ ایسے گروپس آج بھی متحرک ہیں۔ کشمیر کی تاریخ اور دنیا بھرمیں ایسے تنازعات کے حل کے تناظر میں یہ گروپس مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دیگر آپشنز پر بھی غور کرتے رہے۔ یہ آپشنز رپورٹس اور آرٹیکلز کی صورت میں اخبارات او ر مؤقرجرائد میں بھی شائع ہوتے رہے‘ تاہم یہ تمام کوششیں گورنمنٹ پالیسیوں میں تبدیلی لانے میں ثمر آور ثابت نہ ہو سکیں۔
پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات کبھی اتنے ابہام کا شکار نہیں ہوئے جتنے نریندرمودی کے بھارتی وزیر اعظم بننے کے بعد ہوئے ہیں(یعنی2014ء سے لے کر تادم تحریر)چونکہ ان کی حکومت دائیں بازو کی سخت گیر سیاست اور ہندو انتہا پسند گروپس کی نمائندہ جماعت کی شناخت رکھتی ہے جس نے تجارت اور تمام دوطرفہ متنازع امور جن میں مقبوضہ کشمیر‘سیاچن‘ سرکریک اور سندھ طاس معاہدے کے تناظرمیں دریائی پانی کی تقسیم شامل ہیں‘پربات چیت کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔غالب امکان یہی ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں ابھی تادیر سردمہری جاری رہے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved