سروں کی ملکہ اور فلمی دنیا میں اپنی آواز سے جادو جگانے والی برصغیر کی لیجنڈری پلے بیک سنگر لتا منگیشکر کو اس جہان سے گئے ایک سال ہونے کو ہے مگر مداحوں کی طرف سے لتا جی کی شخصیت اور گائیکی کے شعبے میں ان کی لا زوال خدمات پر خراجِ تحسین و ستائش کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ آنجہانی لتا منگیشکر کے چاہنے والے صرف بھارت میں نہیں بستے‘ جنوبی ایشیا کے باقی کئی ملکوں سمیت پاکستان میں بھی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ مختلف دیشوں اور ایک دوسرے سے الگ شعبہ ہائے زندگی‘ مختلف عمروں‘ الگ جنسوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود سب کا یکساں الفاظ‘ یکساں لہجے اور یکساں انداز میں ایک فنکار کو اس کے فن پر خراجِ تحسین پیش کرنے سے ایک چیز واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ جغرافیائی تقسیم اور سیاسی اختلافات کے باوجود‘ کلچر قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کتنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ فن سے لگن کے علاوہ لتا منگیشکر کی شخصیت میں منکسر المزاجی کا ہر مداح نے جس طرح ذکر کیا ہے‘ اس سے برصغیر کی ایک اور عظیم شخصیت ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کی طرف ناگزیر طور پر دھیان چلا جاتا ہے۔
کلاسیکی راگوں کی گائیکی میں بڑے غلام علی خان‘ پنڈت بھیم سین جوشی (بھارت رتنا)‘ استاد دلیر خان‘ استاد سلامت علی خاں اور استاد فتح علی خاں کا مقام بہت اونچا ہے لیکن موسیقی کے فن میں مہارت کا تنقیدی جائزہ لینے والوں میں اکثر کی رائے یہ ہے کہ ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم اپنی سریلی آواز کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کے فن پر مکمل عبور حاصل ہونے کی وجہ سے اپنے تمام ہم عصر گائیکوں میں نمایاں تھیں اور اس کا خود بڑے غلام علی خاں نے ایک تقریب میںروشن آراء بیگم کی پرفارمنس کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا تھا۔ یہ تقریب 1950ء کی دہائی میں لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔ اُس میں بڑے غلام علی خاں اور روشن آراء بیگم نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب جانکاری نہ ہونے کے باوجود عام لوگوں میں بھی کلاسیکی موسیقی سننے کا شوق تھا۔ اس لئے جب کبھی ایسی تقریب منعقد ہوتی تو لوگوں کی بڑی تعداد اپنے محبوب فن کاروں کو سننے کے لیے موجود ہوتی تھی۔ لاہور کی اس تقریب میں ہزاروں سامعین کے سامنے بڑے غلام علی خاں سے پہلے روشن آراء بیگم پرفارم کرتی رہیں‘ مجمع میں سکوت کا عالم طاری رہا۔ سب مبہوت ہو کر ملکہ موسیقی کو سن رہے تھے۔ ان کے بعد بڑے غلام علی خاں کی باری آئی۔
ان دنوں کلاسیکی موسیقی کی گائیکی میں بڑے غلام علی خاں کا طوطی بولتا تھا مگر روشن آراء کے گانے کے بعد بڑے غلام علی خاں مجمع کو جما کر نہ رکھ سکے اور جلد ہی سامعین نے پنڈال خالی کرنا شروع کر دیا۔ تقریب کے بعد بڑے غلام علی خاں نے انتہائی فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے روشن آراء بیگم کے فن کی تعریف کی۔
روشن آرا بیگم کا اصل نام وحید النسا بیگم تھا۔ وہ 19 جنوری 1917ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ روشن آرا بیگم تقسیم ہند سے پہلے کیرانہ گھرانے کی خیال گائیکی میں ایک بلند مقام حاصل کر چکی تھیں۔ 1930ء کے عشرے میں وہ کلکتہ سے بمبئی منتقل ہو گئیں اور اسی وجہ سے بمبئی والی روشن آراء بیگم کہلاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی راگ پیش کرنے سے پہلے جب اُس کا الاپ کرتیں تو اُسی میں راگ کے مرکزی سروں کو کھول کر بیان کر دیتی تھیں اور الاپ ہی سے راگ کی پوری شناخت سامنے آ جاتی تھی۔
پاکستان کے عوام اور ہر حکومت نے موسیقی کی بہت قدر کی۔ موسیقی کے شعبے میں ان کی خدمات کے عوض ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کو دیگر اعزازات کے علاوہ صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا‘ مگر پاکستان میں کلاسیکی موسیقی اور کلاسیکی موسیقی کے گائیکوں کی آرکائیو رکھنے والے لطف اللہ خاں کے مطابق بھارت میں بھی ملکہ موسیقی کو چاہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے کیونکہ بیگم صاحبہ پچھلی صدی کے مشہور گائیک‘ سنگیت رتن خاں صاحب عبدالکریم خاں کی شاگردہ تھیں۔ بھارت میں منعقد ہونے والی ایک تقریب کا ذکر مطلوب ہے۔ وہ تقریب خاں صاحب عبدالکریم خاں کی وفات (1937ء) کے بعد 1950ء کی دہائی میں منعقد ہوئی تھی۔ لطف اللہ کے مطابق:
جب سٹیج پہ آنے کیلئے ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کا نام پکارا گیا تو ہال میں موجود تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیوں سے ان کا استقبال کیا اور اس وقت تک تالیوں کے ساتھ کھڑے رہے جب تک بیگم صاحبہ نے سٹیج پر اپنی نشست سنبھال نہیں لی۔ لطف اللہ کے مطابق: روشن آراء بیگم کے لیے بھارتی سامعین کی طرف سے عزت و احترام کا یہ اظہار محض اس لیے نہیں تھا کہ وہ ایک عظیم موسیقار خان عبدالکریم خان کی شاگردہ تھیں بلکہ خود روشن آراء بیگم کے فن کے لیے خراجِ تحسین تھا۔
موسیقی میں اتنا اعلیٰ مقام اور شہرت حاصل کرنے کے باوجود ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کے مزاج میں کتنی عاجزی‘ انکساری‘ سادگی‘ اور اخلاق تھا اس کا علم مجھے اس وقت ہوا جب مجھے پاکستان ٹیلی وژن کا ملکہ موسیقی پر ایک پروگرام دیکھنے کا موقع ملا۔ اس پروگرام میں مشہور میوزک نقاد سعید ملک نے بتایا کہ بیگم صاحبہ جب ریڈیو پاکستان یا پاکستان ٹیلی وژن لاہور میں اپنا پروگرام ریکارڈ کروانے کے لیے لالہ موسیٰ سے تشریف لاتیں تو انہوں نے کبھی اس بات کا برا نہیں منایا کہ گیٹ یا دفتر کے دروازے پر کوئی ان کا استقبال کرنے کیلئے موجود نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ کسی نے بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ اس وقت پورے جنوبی ایشیا میں کلاسیکی موسیقی میں کوئی گائیک آپ کے برابر کا نہیں‘ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اپنے علاوہ کس کو بہتر سمجھتی ہیں تو جواب آیا ''بھائی ہمارے علاوہ سبھی بہتر ہیں‘‘۔
ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم ذرا فربہ جسم کی مالک تھیں۔ نقش بھی تیکھے نہیں تھے اور رنگ بھی سانولا تھا مگر سعید ملک کے مطابق جب وہ گاتیں تو دنیا کی حسین ترین خاتون لگتی تھیں کیونکہ ان کی آواز بہت سریلی تھی اور دوسرے وہ سُر کے ساتھ گاتی تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گاتے وقت ان کا چہرہ اور ہاتھ بالکل ساکت اور گہرے سمندر کی طرح پُر سکون ہوتے تھے۔
روشن آراء بیگم نے کلاسیکی‘ نیم کلاسیکی‘ ٹھمری‘ دادرا اور غزل حتیٰ کہ فلموں میں بھی گانے گا کر اپنا نام پیدا کیا ہے۔ افتخار عارف کی غزل ''ہونے کو تو کیا ہوا نہیں ہے‘‘ گا کر ملکہ موسیقی نے سُر اور آواز کا اتنا حسین امتزاج پیدا کیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک انٹرویو میں افتخار عارف نے بتایا کہ ایک دن مجھے بتایا گیا کہ ملکہ موسیقی مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرنا چاہتی ہیں‘ یہ سن کر پہلے تو ایک لمحے کیلئے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کہاں میں اور کہاں ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم! تاہم جب رسیور اٹھایا تو دوسرے سرے سے بیگم صاحبہ بولیں اور فرمانے لگیں: ''عارف بھائی میں آپ کی غزل گانا چاہتی ہوں۔ آپ کی اجازت درکار ہے‘‘۔ افتخار عارف نے کہا کہ میں نے بیگم صاحبہ سے کہا کہ اس سے بڑی میرے لیے اعزاز کی اور کیا بات ہو سکتی ہے؟ ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے فلموں کیلئے بھی کچھ گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔ انہوں نے 5 دسمبر 1982ء کو وفات پائی۔ کلاسیکی موسیقی سے شغف رکھنے والے آج بھی انہیں کلاسیکی موسیقی کی سب سے بڑی گلوکارہ مانتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved