تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-09-2013

کیا مسلمان حکمران امریکی روبوٹ ہیں؟

آج کرہ ارض کے چاروں طرف بہنے والا خون کس کا ہے؟ بیشتر ،مسلمانوں کا۔ افسوس! خون بہانے والے ہاتھ بھی مسلمانوں کے ہیں مگر یہ خونریزی وہ کسی دوسرے کے اشارے پر کر رہے ہیں۔ شام میں جاری قتل و غارت پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اتوار کو ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا کہ امریکہ کو زہریلی گیس سے ہلاک ہونے والوں کے خون اور بالوں کے تجزیے سے نئے ثبوت مل گئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ زہریلی گیس کس نے استعمال کی؟ لیکن جان کیری شاید یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ یہ گیس 1930ء میں سب سے پہلے کس نے استعمال کی اور آج یہ گیس کس کے پاس ہے؟ دمشق کے نواح میں معصوم بچوں پر زہریلی گیس کا استعمال اس قدر بہیمانہ فعل ہے کہ اس ظلم کے محرک اﷲ کے غضب سے نہیں بچ سکیں گے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اسے کس نے استعمال کیا اور اب اس سے کون فائدہ اٹھانے جا رہا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اسرائیل کا عرصہ دراز سے منصوبہ تھا کہ وہ اپنے رستے میں رکاوٹ بننے والے شام کو اپنے اندر ضم کرنے کے بعد باقی تمام رکاوٹوں کو بھی عبور کرلے اور پھر نیل اس کے قدموں میں ہو۔ آج عراق کی طرح وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD)کے ذخیروں کی طرح زہریلی گیس کی باتیں کرنے والا امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل نے کتنی بار یہ گیس استعمال کی؟ کون نہیں جانتا کہ فلسطینی بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کا اسرائیل کی صہیونی فوجیوں نے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بار قتل عام کیا لیکن عالمی ضمیر سویا رہا۔ جھوٹ بولنا اور جھوٹ کو مہارت سے پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرناامریکیوں کا شیوہ رہاہے۔ امریکیوں کا منصوبہ یہ ہے کہ اگلے دس برسوں میں اسرائیل کی سرحدیں مصر سے بھی آگے جا کر شروع ہوں۔ چند نادان مسلمان ممالک اس مکروہ منصوبے میں اسرائیل اور امریکہ کیلئے سیڑھی کا کردار ادا کرر ہے ہیں۔ شاید انہیں احساس اس وقت ہو گا جب وہ اپنی مرضی سے جی سکیں گے نہ ہی مر سکیں گے۔ دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ اس ہولناک عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکی دوستی پر نازاں کچھ ممالک شاید نہیں جانتے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی دوستی آج خطرے کی علا مت بن چکی ہے اور اس کی تشریح امریکیوں کے علا وہ اور کوئی نہیں سمجھتا کیونکہ وہ اپنے کسی بھی منصوبے کا آغاز اپنے قریبی دوست سے ہی کرتے ہیں اور امریکہ وہ سرجن ہے جو اپنے سامنے لیٹے ہوئے مریض کا آنکھیں بند کر کے آپریشن کرتا ہے۔ چند برسوں سے تبدیلی یا امریکی زبان میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام پر مختلف مسلم ممالک میںیکے بعد دیگرے ابھرنے والی خون آشام تحریکوں میں ان ممالک کے شہری یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی دیوانہ وار شامل ہو رہے ہیں کہ ان کے پیچھے سوائے امریکی ایجنڈے اور امریکی مفادات کے اور کچھ بھی نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دو دہائیوں سے ہونے والے عام انتخابات بھی امریکی خواہشات کی تکمیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے پاکستان کیلئے ’’وائسرائے‘‘ کا منصب کس کو اور کتنے عرصے کیلئے سونپنا ہے۔اسلامی ممالک کے مختلف حصوں میںایک ایک کر کے جیلوں کا ٹوٹنا محض اتفاق نہیں بلکہ لیبیا سے ایک ہزار اور پھر سوڈان، صومالیہ، یمن ،عراق اور شام کے بعد پاکستان کی بنوں اور ڈیرہ اسما عیل خان کی جیلوں سے خطرناک قیدیوں کو چھڑا لے جاناکسی غیبی طاقت کا نہیں بلکہ امریکہ کا ہی کارنامہ ہے۔ عراق سے بحرین، یمن سے تیونس اور پھر لیبیا سے شام تک مسلمانوں کی جان اور املاک کو آگ کے شعلوں میں جلتا ہوا دیکھ کر سب خاموش ہیں۔ امریکہ کے سامنے کسی کو دم مارنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ پاکستان کو تو یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ اپنے نمائندوں کے ذریعے آئین اور جمہوریت کی پاسداری کا روزانہ سبق دیتے ہیں لیکن مصر میں فوج کی جانب سے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ دینا معمول کی کارروائی سمجھی جا رہی ہے۔ مصر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے پر یورپی یونین اور دولت مشترکہ اورامریکی کانگریس اور سینٹ کی جمہوریت نوازی کہاں گئی؟ اگر کوئی اس نقطہ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس بارے میں اختلاف کرے تو یہ اس کا حق ہے لیکن جب ہم عراق،شام، فلسطین، افغانستان، سو ڈان، صومالیہ، یمن ، مصر،لیبیا اور پاکستان میں جاری انارکی اور دہشت گردی کی طرف دیکھتے ہیںتو اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس کی بنیادی وجہ سوائے امریکہ کے اور کوئی نہیں۔ کسی بھی ’’انقلابی یا اسلامی تحریک‘‘ کے نتیجے میں مسلمان ممالک کے درمیان ہونے والی چپقلشوں اور اختلافات نے ہی مسلم دنیا میں تباہی اور بربادی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے بلکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آپس میں پیدا ہونے والے یہ اختلافات اپنی جگہ‘ بہت سے معاملات میں حکمرانوں کی ضد اور پسند و ناپسند بھی مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے میں معاون رہی ہے۔ بعض عرب حکمرانوں کے ذاتی اختلافات اب تک لاکھوں مسلمانوں کو موت کی وادیوں تک پہنچا چکے ہیں۔ ضرورت تو یہ تھی کہ مسلمان ممالک آگے بڑھ کر ان اختلافات کو سمیٹنے کی کوشش کرتے اور خلوص نیت سے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ کسی بھی دو مسلم ممالک میں یہ اختلافات اور غلط فہمیاں کیسے پیدا ہوئیں؟ کس نے ان اختلافات کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا اور ایسا کرنے والے شخص یا ادارے کی نیت کیا تھی؟ یہ بھی معلوم کیا جاتا کہ جہاں سے اور جن کی وجہ سے یہ اختلافات پیدا ہوئے وہ لوگ اب کہاں ہیں؟ آج ان کا کیا کردار ہے اور وہ کس بلاک میں بیٹھے ہیں؟ اگر یہ کام کر لیا جاتا تو آج مسلمان ممالک ’’غلامانہ‘‘ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔ اب بھی ہمارے مسلمان حکمران اگر سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کونسی طاقتیں ان میں بدگمانی پیدا کر کے انہیں آپس میں لڑا رہی ہیں تو جو حقائق سامنے آئیں گے وہ یقینا حیران کن ہوں گے۔ امریکہ اپنے مفادات کیلئے جن شخصیات کو استعمال کرتا ہے اگر کبھی ان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ وہ غیر محسوس طریقوں سے نمایاں ہوئے اور آج ایشیا اور عرب ممالک کی قسمتوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مختلف تنظیموں کے نام سے امریکی پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے۔ انہیں مختلف طریقوں سے اہم مقام دلوایا جاتا رہا اور اس دوران ان کے دلوں میں یہ بات نقش کی جاتی رہی کہ تم ہی اس ملک کی قسمت کے مالک ہو گے۔ ان کا شکار بننے والے بھی یہ حقیقت ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہی طاقتیں دنیا میں سب کچھ ہیں‘ یہی اصلی بادشاہ ہیں اور جو چاہیں جب چاہیںکر سکتے ہیں۔ ہمارے حکمران اور دوسرے با اثر طبقے جب تک بڑی طاقتوں کے ان حربوں سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوں گے اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر مسلم امہ میں حقیقی اتفاق و اتحاد پیدا نہیں کریں گے‘ ہم اسی طرح ایک دوسرے کو مارتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved