تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-12-2022

موسیقی، کتابیں اور دوست

زندگی کن عناصر مل کر بنتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے بیٹھیے تو بولتے اور لکھتے ہی چلے جائیے مگر حق ادا نہ ہوسکے گا۔ زندگی بہت سے معاملات سے مل کر بنتی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں بہت کچھ لینے اور بہت کچھ دینے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ یہ تخلیق کسی واضح مقصد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ دانش بھی یہی کہتی ہے کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں خلق کیا گیا ہے اُس کے پس پردہ کچھ نہ کچھ حکمت ضرور کارفرما ہوگی اور انسان تو بہترین مخلوق ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کی تخلیق کا کوئی واضح مقصد نہ ہو؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہر انسان کو اول و آخر اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی رِضا کے تابع رہے، اُس کی رضا کے حصول کی خاطر زندگی بسر کرے اور اپنے وجود سے اِس دنیا اور اِس میں بسے ہوئے انسانوں اور دیگر مخلوق کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔ غور کیجیے تو ہر انسان پر لازم ہے کہ اپنے وجود سے دوسروں کو بھرپور فائدہ پہنچائے کیونکہ اُسے خود بھی تو بہت سوں سے فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے۔ زندگی کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہے۔ یہی اصول پوری کائنات میں کار فرما ہے۔ ہم کسی بھی انسان کو یا کسی اور مخلوق کو اپنے وجود سے غیر معمولی حد تک فائدہ کب پہنچا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے اُس وقت جب ہم کچھ کرنے کے قابل ہوں۔ اگر ہم میں قابلیت کا معیار کمتر ہو تو ہم خود بھی اپنی زندگی سے بھرپور لطف کشید نہیں کرسکتے اور کسی دوسرے کے لیے بھی کچھ خاص نہیں کر سکتے۔
زندگی کا معیار بلند کیے بغیر پُرلطف انداز سے جینا ممکن نہیں۔ زندگی صبح کو شام اور شام کو صبح کرنے کے معمول کا نام نہیں۔ یہ تو خالص حیوانی سطح ہے۔ انسان کو محض کھانے پینے، سونے جاگنے اور تھوڑا بہت کام کرنے کے لیے خلق نہیں کیا گیا۔ ہر انسان کو اپنے خالق و رب کی مرضی کے تابع رہتے ہوئے جینا ہے۔ اس کے لیے زندگی میں استحکام پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ زندگی کا استحکام اس امر سے مشروط ہے کہ ہم اپنے وجود سے کس حد تک انصاف کرتے ہیں۔ ہم جس معمول کو اپناتے ہیں وہی بتاتا ہے کہ ہم اپنے وجود کے حوالے سے سنجیدہ ہیں یا نہیں‘ اگر ہیں تو کس حد تک اور نہیں ہیں تو کس حد تک۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ اپنے آپ کو بے رَس معمولات کے پنجرے میں بند کرکے سُکون کا سانس لے۔ معاشی جدوجہد ناگزیر ہے مگر زندگی صرف معاشی جدوجہد کا نام نہیں۔ زندگی کا معاشرتی پہلو کسی بھی طور نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی انسان خود کو صرف کمانے میں کھپادے تو زندگی کا سارا حسن غارت ہو جاتا ہے۔ زندگی ایک ہی ڈھب پر چلتی رہی تو یہ طرز زندگی کو بے رنگ کردیتی ہے۔ زندگی تنوع کا نام ہے۔ تنوع ہی سے زندگی کی ساری رنگینی ہے۔ ہم یکسانیت کے ساتھ زندہ تو رہ سکتے ہیں‘ جی نہیں سکتے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے والے عوامل بہت سے ہیں۔ معمولات سے ہٹ کر ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ زندگی کے حسن میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ زندگی کے حسن میں اضافہ کتنا اور کس طور کرنا ہے۔ یہ فیصلہ کچھ ایسا مشکل بھی نہیں مگر ہاں‘ اِس کے مطابق زندگی بسر کرنا اور تبدیلیوں کے لیے خود کو تیار کرنا ضرور مشکل ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ چند معمولات کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جانتے وہ بھی ہیں کہ اِس طور بسر کی جانے والی زندگی زیادہ کام کی نہیں ہوتی۔ کبھی آپ نے کچھ دیر ٹھہر کر‘ گوشہ نشینی اختیار کرکے اپنے وجود اور دنیا سے اپنے تعلق کے بارے میں سنجیدگی سے کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے؟ آج کی شہری زندگی انسان کو کمانے اور خرچ کرنے کے سوا کسی کام کا نہیں چھوڑتی۔ سوچیے تو خیال آتا ہے کہ ہم خالص حیوانی سطح پر جی رہے ہیں یعنی محض کھانے پینے، سونے جاگنے ہی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ انسان اس سطح سے بلند ہونے کے بارے میں سوچ ہی نہیں رہا۔ صرف کمانے کی دُھن سر پر سوار رہتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا ہے جو زندگی کو حقیقی معنوں میں زندگی بناتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمیں اندازہ نہیں کہ زندگی کا حسن کن معاملات سے بڑھتا ہے؟ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہماری تخلیق کا بنیادی مقصد اپنے مالک و خالق کی رضا کا حصول ہے؟ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر کرنا ہے؟ کیا ہمیں یاد نہیں کہ زندگی محض سانسوں کے تسلسل کا نام نہیں بلکہ اِس سے کئی قدم آگے جاکر ہمیں طبیعت اور شخصیت کو بلند کرنے والے افعال بھی سرانجام دینے ہیں؟ شخصیت کے باطنی پہلو کو پروان چڑھائے بغیر ہم اپنے خالق کی رضا کا حصول یقینی بنانے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک کثیف اور دوسرا لطیف۔ کثیف پہلو یہ ہے کہ ہم خود کو اور متعلقین کو زندہ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف رکھیں، خوراک سمیت تمام بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مطلوب وسائل کا حصول یقینی بنائیں۔ یہ بھی لازم ہے! اگر کوئی اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کماحقہٗ جدوجہد نہیں کرتا تو زندگی الجھتی ہے۔ انسان کو گھر بھی بسانا ہوتا ہے اور اُسے چلانا بھی پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی کا کثیف پہلو ہے۔ لطیف پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے معاشی اور بنیادی معاشرتی معمولات سے کچھ وقت نکال کر ایسی سرگرمیوں میں حصہ لے جو اُس کی طبیعت کو پروان چڑھانے میں مدد دیں۔ زندگی میں صرف رشتے اہم نہیں‘ دوست بھی ناگزیر ہیں۔ زندگی صرف معاشی افعال کو انجام دینے کا نام نہیں بلکہ فنونِ لطیفہ میں دلچسپی لینا بھی اہم ہے تاکہ طبیعت کِھلی کھلی رہے، دل شادماں رہے۔
آج کا انسان زندگی کے لطیف پہلو کو نظر انداز کر بیٹھا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تو لوگ طبیعت کھلی کھلی رکھنے پر تھوڑی بہت توجہ دے بھی لیتے ہیں، ہمارے جیسے پچھڑے ہوئے معاشروں کا بہت بُرا حال ہے۔ لوگ سمارٹ فون پر دنیا بھر کی غیر متعلق چیزیں دیکھتے ہیں مگر کچھ پڑھنے اور طبیعت کو بلندی عطا کرنے والی تخلیقات سے مستفید ہونے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ ذہنوں میں یہ تصور گھر کرگیا ہے کہ زندگی صرف کمانے، خرچ کرنے اور موج اُڑانے کا نام ہے۔ لوگ طبیعت کو ہشاش بشاش رکھنے کی خاطر مادّی وسائل کو ناگزیر سمجھنے لگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پُرلطف زندگی کے لیے مادّی وسائل کا غیر معمولی تناسب سے میسر ہونا ناگزیر نہیں۔ یہ حقیقت تو تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ مادّی وسائل کے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہو پاتا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ فنونِ لطیفہ سے مستفید ہوئے بغیر جینا بھی کوئی جینا نہیں۔ لوگ غیر معمولی تناسب سے مادّی وسائل حاصل کرنے میں کامیاب ہونے پر بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے، اُن کی زندگی میں حقیقی شادمانی دکھائی نہیں دیتی۔ زندگی کے ظاہر کو باطن پر اور باطن کو ظاہر پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ دونوں پہلوؤں میں توازن پیدا کرنا اور اُس توازن کو برقرار رکھنا لازم ہے۔ تھوڑی بہت کمی بیشی چل سکتی ہے، زیادہ عدم توازن کی گنجائش نہیں۔ زندگی کے لطیف پہلو کو نظر انداز کرنے سے کثیف پہلو بھی بگڑ جاتا ہے۔ طبیعت کو بلند رکھنے پر توجہ دی جائے تو معمول کی‘ سطحی زندگی بھی کام کی دکھائی دینے لگتی ہے۔ آج کا انسان اگر فنونِ لطیفہ کی طرف جھکے، معیاری دوستی کو ترجیح دے، حقیقی معیاری موسیقی سے لطف اندوز ہو، معیاری کتابیں پڑھے تو بہت کچھ پاسکتا ہے۔ طبیعت کو حقیقی معنوں میں بلندی عطا کرنے والے اسباب یہی ہیں۔
آج کے ہمارے معاشرے میں مل بیٹھنے کو تو اچھی خاصی ترجیح دی جارہی ہے، حقیقی معیاری دوستی پر متوجہ ہونے کو کم ہی لوگ تیار ہیں۔ فنونِ لطیفہ سے بیگانگی یوں اپنائی جارہی ہے کہ کسی بھی معیاری گلوکار کو سُننا سوہانِ روح لگنے لگا ہے۔ کتابوں سے دوستی برائے نام ہے۔ یہ مجموعی کیفیت زندگی کو ٹھکانے لگانے والی ہے۔ فضول سرگرمیوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے انسان کو معیاری انداز سے اپنے معمولات میں ایسی تبدیلیاں لانی چاہئیں جو زندگی کا رُخ تبدیل کریں، معیار بلند کریں۔ معیاری موسیقی سے محظوظ ہونا، اچھے دوستوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت اور کتابوں سے دوستی ہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو انسان کو معمول کی‘ حیوانی سطح سے بلند کرنے کا ذریعے بنتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved