جماعت اسلامی کوئی محدود سوچ کی حامل مذہبی تنظیم یا روایتی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ یہ ایک تحریک اور فکر ہے۔ یہ فکر کسی فرد کی ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت کی ہدایات واحکام کی روشنی میں مرتب ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار مختلف پیرایوں میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ حاکم کائنات اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے بندوں پر اسی کا حکم چل سکتا ہے۔ مختصر الفاظ میں قرآن نے بغیر کسی اشتباہ کے اس کا اعلان فرما دیا ہے: اِنِ الْحُکْمُ اِلّا لِلّٰہ۔ (سورۂ یوسف) اسی طرح نبیٔ رحمتﷺ کا ارشاد ہے: لَاطَاعَۃ لمَخْلُوق فی مَعْصِیَّۃ الخالق۔ ترجمہ: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔(البانی، عن نواس بن سمعانؓ) جماعت اسلامی کی دعوت کا منبع یہی تعلیمات ہیں۔ اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے عوامی تائید ضروری ہے۔ اس کے لیے عوام کی تربیت کا اہتمام لازمی ہے۔
جماعت اسلامی نے اس کام کے لیے ہمہ جہت جدوجہد کی ہے۔ اپنی استطاعت اور قوت کے مطابق ہر سطح کے منتخب اداروں تک رسائی کی کوشش کی اور اس کا اہتمام کیا کہ جو افراد وہاں پہنچ پائیں وہ امانت ودیانت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کریں۔ ان کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر حال میں کلمۂ حق بلند کریں اور اپنے دامن کو کسی آلائش سے آلود نہ ہونے دیں۔ قوم نے ہماری دعوت اور افراد کی قدر نہیں پہچانی، مگر ہم نہ مایوس ہیں نہ بددل ہیں، نہ راستہ ترک کرنے کے بارے میں کبھی سوچا ہے۔
جماعت کا نام آپ نے ضرور سنا ہوگا، لیکن جب بھی سنا ہوگا شاید یہ سوچ کر گزر گئے ہوں گے کہ ایسی مذہبی اور سیاسی جماعتیں تو بہت سی ہیں‘ اس میں کیا انفرادیت اور خاصیت ہے۔ آئیے! بات کو یہیں سے شروع کریں کہ زندگی کیا ہے؟ یہ آپ کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ زندگی ہے تو دنیا کی ہر نعمت سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں، اور آخرت کی ساری لازوال نعمتیں بھی کما سکتے ہیں۔ اگر زندگی ہی اصل نعمت ہے تو پھر زندہ رہنا ایک خوش گوار تجربہ اور لذت بخش کام ہونا چاہیے۔ آپ غور فرمائیں تو آپ کا دل خود پکار اٹھے گا کہ آج زندگی پریشانیوں کے بوجھ تلے پسی جارہی ہے اور زندہ رہنا ایک تلخ تجربہ اور تکلیف دہ کام بن گیا ہے۔ پیٹ بھرنے کی فکر میں، اور جن کا بھر جاتا ہے ان کو اور بھرنے کی فکر میں تگ و دو کرتے صبح سے شام ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ساری عمر انہی فکروں میں گزر جاتی ہے کہ دن دوگنی رات چوگنی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ خرچ نہیں پورا ہوتا، رہنے کے لیے صاف ستھرا مکان میسر نہیں، بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے نہیں ملتے اور مل جائیں تو ڈگریوں کے باوجود روزگار کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، علاج کے لیے کمر توڑ اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر بس سے باہر ہیں۔
وطن عزیز کو دیکھیے تو ہر طرف ظلم اور فساد کا راج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو برابر بنایا ہے۔ لیکن چند لوگوں نے اپنے حق سے زیادہ زر، زمین اور طاقت حاصل کرلی ہے۔ اپنے جیسے انسانوں کی گردنوں پر سوار ہو کر ان پر غربت و جہالت مسلط کر رکھی ہے۔ اپنے ہم وطنوں کو کمزور پا کر ان کے حقوق دبا لیے ہیں اور ان کو زندگی کی معمولی خوشیوں سے بھی محروم کر رکھا ہے۔ بد دیانتی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور جائز سے جائز کام بھی سفارش اور رشوت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ مجرموں سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ہی شہریوں کی عزت محفوظ نہیں، جیبیں خالی کرکے بھی انصاف نصیب نہیں ہوتا، تعلیم کا معیار پست ہے اور اخلاق کا معیار اس سے بھی کہیں زیادہ گرا ہوا ہے۔ گھر کے اندر ہوں یا باہر، دل و نگاہ کو پاک رکھنا محال ہے۔ سرکاری افسر عوام کے خادم بننے کے بجائے ان کے آقا بن بیٹھے ہیں۔
امت کو دیکھیے، تو اگرچہ دنیا کا ہر چوتھا آدمی مسلمان ہے، مگر مسلمان کا دنیا میں وزن ہے نہ عزت۔ دنیا کی غالب قومیں دونوں ہاتھوں سے اس کو لوٹنے اور دبانے میں لگی ہوئی ہیں، مگر وہ بے بس تماشائی ہے یا خوشی خوشی ان کے دام میں پھنستا ہے۔ آپ اکثر سوچتے ہوں گے کہ مسائل کا یہ جنگل کیسے صاف ہوسکتا ہے اور زندگی اطمینان کا گہوارہ کس طرح بن سکتی ہے۔ جماعت کا پیغام اسی سوال کا جواب ہے۔ اگر مسلمان آج دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور ان کے مصائب سب سے بڑھ کر ہیں تو وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم نے وہ مشن فراموش کر دیا ہے، جس کے لیے یہ امت اٹھائی گئی تھی۔ ہم اللہ اور اس کے رسول سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ ہم نے اس دنیا کو ہی اپنا محبوب و مطلوب بنا لیا ہے اور خدا کے دین کے لیے اپنے وقت اور مال کا کوئی حصہ صرف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان قرآن پڑھتے اور رسولﷺ کی محبت کا دم بھرتے ہیں، لیکن ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بالکل نہیں جھجکتے۔
جماعت ہر مسلمان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ خدا کو خدا اور رسولﷺ کو رسول مان لینے کے بعد تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زندگی کے کسی بھی حصے میں ان کے خلاف چلو بلکہ تمہارا فرض ہے کہ پوری زندگی میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو۔ اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم جمع اور منظم تنظیم ہو کر ایک جماعت نہ بن جاؤ۔ اس کارِ رسالت کو ادا کرنے کے لیے ہی سید مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں جس کی سرگرمیاں انتخابات تک محدود ہوں، نہ ہی یہ ایک مذہبی جماعت ہے جس کی دلچسپیاں صرف اعتقادی و فقہی اور روحانی مسائل ہی کے لیے مخصوص ہوں بلکہ اس کی جدوجہد کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ ہم اللہ کے مطیع اور فرمانبردار بندے بن جائیں اور اس کی رضا اور قربت حاصل کریں۔
یہ رضا اور قربت ایک ایسے انقلاب کے لیے جدوجہد سے ہی حاصل ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں دلوں پر بھی اللہ کی حکومت قائم ہوجائے اور پوری زندگی کے جملہ معاملات پر بھی، خواہ وہ پرائیویٹ ہوں یا پبلک واجتماعیت سے متعلق ہوں۔ یہ اعلان کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اس پر حکم بھی اللہ ہی کا چلنا چاہیے۔ یہی اس ہمہ گیر انقلاب کی دعوت ہے۔ جماعت کا پروگرام یہی ہے کہ اس پیغام کے ذریعے اہلِ وطن کو جگائے۔ جو ساتھ دیں ان کی تربیت کرکے ان کو منظم قوت بنا دے، معاشرے میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچے مسلمان کی سی عملی زندگی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور عوام کی قوت سے زندگی کے ہر شعبے میں بالخصوص حکومت میں جوہری تبدیلیاں لائے اور فرماں روائی کا اختیار اللہ کے مطیع وفرماں بردار بندوں کے حوالے کردے۔
سید مودودی کی یہ تحریک پُرامن طریقے اور دعوت کے ذریعے سے پاکستان کو ایسی فلاحی واسلامی ریاست بنانے میں کوشاں ہے:جو خلافت راشدہ کا نمونہ ہو ۔ جو ہر شہری کو اس کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، انصاف) کی ضمانت دے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کرے۔ جہاں تمام بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہوں۔ جہاں عوام انتخابات کے ذریعے اپنی مرضی سے جسے اقتدار میں لانا چاہیں لاسکیں اور جسے ہٹانا چاہیں‘ ہٹا سکیں۔
یہ چند مخصوص لوگوں کا گروہ نہیں بلکہ عوام الناس کی تحریک ہے۔ وہ عوام الناس جو ظلم اور نا انصافی پر کڑھتے ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ظلم کا شکنجہ گھر بیٹھ کر کڑھنے یازبانی جمع خرچ سے نہیں ٹوٹ سکتا۔ یہ شکنجہ تبھی ٹوٹے گا جب آپ خود جدوجہد میں شامل ہوں گے۔اگر اس ظلم کا جال بچھانے والوں کا ساتھ دیں گے تو پھر دنیا کے مصائب وآخرت میں جواب دہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا آپ خود اٹھ کر اپنے وقت اور مال کا ایک معقول حصہ اللہ کے کام میں لگا دیں۔ جب آپ کی طرح سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ دن دور نہیں جب ظلم اور بے انصافی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے، عدل کا سورج طلوع ہوگا اور ہم سب پر صرف اللہ کی حکومت ہوگی۔ آپ کا ضمیر، آپ کا ملک، آپ کی ملت، دکھی انسانیت، سب آپ کو پکار رہے ہیں۔ دنیا میں عزت و سربلندی آپ کی منتظر ہے۔ قرآن پکار رہا ہے: ''کونوا انصار اللّٰہ‘‘ اللہ کے مددگار بن جاؤ۔ ہم سب کو اس کا جواب دینا ہے: ''نحن انصار اللّٰہ‘‘ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved