تیس برس قبل چودھری پرویز الٰہی سے متعلق مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہر چھوٹابڑا لیڈر ایک ہی فقرہ کہتا تھا کہ ''پرویز الٰہی جتنی مرضی کوششیں کر لیں‘ جس قدر چاہیں جوڑ توڑ کر لیں ان کے ہاتھوں میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی لکیر ہی نہیں۔ ہوتا بھی یہی تھا کہ حالات و واقعات کئی بار چودھری صاحب کی وزارتِ اعلیٰ کے اس قدر قریب آئے کہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اگلے ہی روز اس منصب پر فائز ہو جائیں گے لیکن پھر نجانے کیا ہوتا کہ وزارتِ اعلیٰ کیلئے ان کا خواب چکنا چور ہو کر رہ جاتا۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہی ''ہاتھ میں چیف منسٹری کی لکیریں نہ ہونے‘‘ کے حوالے سے برسوں اڑایا جانے والا مذاق مخالفین کو واپس دے مارا۔
یہی بات سابق وزیراعظم عمران خان پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ مخالفین نے کیسا کیسا مذاق نہیں بنایا؟ کہنے والوں نے تو یہ تک کہا کہ وہ شیروانی کا بٹن تک نہیں دیں گے۔ بعض حضرات نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم بن گئے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے عمران خان وزیراعظم بن ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کے ہاتھ میں وزارتِ عظمیٰ کی لکیر نہیں ہے مگر اگست 2018ء میں جب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو سبھی زبانیں ایسے گنگ ہو گئیں کہ جیسے کبھی ان سے کوئی آواز نکلی ہی نہیں تھی۔ یہاں سے پتا چلتا ہے کہ بات محض ہاتھ کی لکیروں کی نہیں ہوتی۔ قسمت کا رخ جس طرف ہو‘ ہاتھ کی لکیریں بھی اسی طرف مڑ جاتی ہیں۔ صادق ملک نے دسمبر1997 ء میں ایک غیر ملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج سجاد علی شاہ‘ جہانگیر کرامت‘ صدر فاروق لغاری سمیت کوئی بھی شخص میاں نواز شریف کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ ان کی حکومت کو اس وقت کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن 1999ء کے آخری مہینوں میں کچھ ایسے حالات ہو جائیں گے کہ ان کی حکومت ختم ہو جائے گی جس میں مجھے بے نظیر بھٹو کا کوئی ہاتھ نظر نہیں آ رہا۔ بس کچھ ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ نواز شریف فیملی پر تکالیف اور مصیبتوں کا ایک لمبا دور شروع ہو جائے گا۔
دیکھا جائے توپاکستان کے بیشتر حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کوئی نہ کوئی رہنما یا روحانی پیشوا رہا ہے۔ پیر پگاڑا ہماری سیاست کا معروف کردار رہے ہیں۔ اگرچہ سیاسی طور پر وہ بہت بڑی قوت تو نہ تھے؛ تاہم روحانی طور پر وہ کافی طاقتور لوگوں خاص طور پر وزیروں، مشیروں اور ممبرانِ اسمبلی کے پیر سمجھے جاتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے پیر با با جی دھنکا کی کہانی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جوان کوچھڑیاںمارتے ہوئے متوقع کامیابی کی نوید سنایا کرتے تھے۔ بابا دھنکا سے نواز شریف کو اتنی عقیدت تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بابا دھنکا کی درگاہ کے پاس ہیلی پیڈ بھی بنوایا تھا، جبکہ اس سے قبل یہاں تک پکی سڑک بینظیر بھٹو اپنے دورِ حکومت میں بنوا چکی تھیں۔ پھر جنابِ زرداری کے ان پیر صاحب کے قصے بھی اخبارات کی زینت بن چکے ہیں جن کے کہنے پر ایک بار صدرِ محترم ایوانِ صدر چھوڑ کر کراچی اور دبئی میں رہائش پذیر ہو گئے تھے کیونکہ ذرائع کے مطابق پیر صاحب نے صدرِ محترم کو پہاڑوں کے پاس جانے سے منع کیا تھا، اسی طرح ایک بار کافی عرصے تک صدرِ محترم اپنے شہر کراچی جانے سے گریزاں رہے کیونکہ سمندرسے بچ کر رہنے کی تاکید کی گئی تھی۔ مشہور ہے کہ بھٹو کیس کے دوران جب بیگم بھٹو اور بی بی جب ہر طرف سے مایوس ہو گئیں تو ان کے کچھ مشیروں نے انہیں روحانی طاقتوں سے مدد کا مشورہ دیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر شاہ عبدا لطیف بھٹائی کے مزار پر گئیں جہاں ایک مجذوب نے ان سے کہا ''تمہارے سر کا سائیں نہ رہے تو بھی بادشاہت تمہارے گھر میں ہی رہے گی‘‘۔ اس وقت اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا مگر بعد ازاں جب بھٹو خاندان کی سیاست میں جگہ بننے لگی تو بے نظیر بھٹو اکثر اپنی نجی محافل میں اس مجذوب کی بات کو یاد کرتی تھیں۔ اسی طرح 1993ء کے انتخابات کے دوران فیصل آباد آمد پر ایک مقامی سیاسی شخصیت نے بی بی کی ملاقات ایک نجومی یا پامسٹ سے کرائی تھی جس نے بی بی کو بتایا کہ حکومت تو آپ کی بن جائے گی مگر آپ کا اقتدار زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال تک چلے گا۔ کہتے ہیں کہ بے نظیر یہ سن کر چونک پڑیں اور بتایا کہ اس سے پہلے بھی (گوجر خان میں مقیم) ایک خاتون نے انہیں یہی کہا تھا۔ اسی طرح چکوال کے قریب جاتلی میں مقیم ایک مجذوب سے بھی بی بی کی ملاقات ہوئی تھی جس کی گواہی راجہ پرویز اشرف اور ناہید خان بھی دیں گے جو اس ملاقات میں بی بی کے ہمراہ تھے۔
دو برس قبل‘ ستمبر 2020ء میں صادق ملک اسلام آباد کے ایک صحافی کے گھر میں ایک شخص کے ہاتھ کا پرنٹ دیکھ رہے تھے۔ وہاں پر جو باتیں ہوئیں‘ وہ پھر سہی‘ فی الوقت یہ بتا دوں کہ اس صحافی صاحب سے اب تک میری ایک ہی ملاقات ہوئی ہے اور وہ بھی وزیراعظم ہائوس کے لان میں۔ میڈیا سے متعلق افراد کی ایک خصوصی میٹنگ بلائی گئی تھی جس کے لیے مجھے بھی لاہور سے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ ملاقات 30 دسمبر 2019ء کی دوپہر کو ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران میں نے رانا ثناء اللہ کی منشیات مقدمے میں ضمانت ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی ہونے والی حجامت سے متعلق وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے چند سخت سوالات کیے تھے۔ میرے ان سوالات کو وہاں موجود لگ بھگ سبھی لوگوں نے سخت ناپسند کرتے ہوئے ناک بھوں چڑھانا شروع کر دی۔ میں یہ سارا منظر بغور دیکھ رہا تھا۔ سوائے وزیراعظم عمران خان کے‘ سبھی افراد میرے سوالات پر نالاں نظر آ رہے تھے؛ تاہم وزیراعظم نے میرے سوال کو پسند کرتے ہوئے وہاں موجود دو وزرا اور تین مشیران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ صاحب کے سوالوں کا جواب دیں مگر سب خاموش رہے کیونکہ کسی کے پاس ان سوالوں کے جوابات نہیں تھے۔ ''دربارِ شاہی‘‘ کے آداب سے ناوقفیت میری غلطی تھی کیونکہ اس گستاخی کے بعد ''امپورٹڈ مشیران‘‘ نے میرا وزیراعظم ہائوس میں داخلہ ایسا بند کیا کہ بطور وزیراعظم عمران خان سے میری اگلی ملاقات سات اپریل کو ان کی حکومت ختم ہونے سے دو روز پہلے ہوئی۔ یہ ملاقات سید علی زیدی کی وجہ سے ممکن ہو پائی تھی۔ جیسے ہی میں وزیراعظم صاحب کے آفس میں داخل ہوا تو وہاں موجود چند مشیران مجھے دیکھ کر چہرے پر ایسے تاثرات لے آئے جیسے کسی بن بلائے اور ناپسندیدہ مہمان کو اپنے گھر میں دیکھ کر منہ بنایا جاتا ہے۔ یہ مشیران مجھ سے اس قدر خائف ہو چکے تھے کہ میڈیا پرسنز کی اس فہرست میں‘ جنہیں وزیراعظم ہائوس میں مدعو کیا جاتا تھا‘ میرا نام شامل ہونے کے با وجود مجھے نہیں بلایا جاتا تھا اور اس بات کی گواہی ہمارے ساتھی کالمسٹ اور تجزیہ کار کنور دلشاد صاحب بھی دیں گے۔ آج مجھے یہ بتاتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ مجھے خان صاحب نے ''کنسلٹنٹ‘‘ کا عہدہ دینے کی آفر بھی کی تھی جس کا حکم نامہ آج بھی میرے پاس موجود ہے لیکن انہی چند مشیران کی وجہ سے میں نے معذرت کر لی تھی۔ شاید میرے ہاتھ میں ایسے کسی حکومتی عہدے کی لکیر نہیں تھی یا شاید میں اس اہم ذمہ داری کے قابل نہیں تھا۔
تحریک انصاف کا وہ ٹولہ اب بھی خان صاحب کے اردگرد موجود ہے۔ بہت سے حضرات کے لیے شاید یہ بات ناقابلِ یقین ہو کہ جب سے عمرا ن خان وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے گئے ہیں‘ اس ٹولے نے میری ان سے ایک بھی ملاقات نہیں ہونے دی۔ نہ ہی کبھی پارٹی کی میڈیا بریفنگ میں مجھے مدعو کیا گیا ہے۔ راقم خان صاحب سے متعلق جو کچھ بھی لکھتا ہے‘ محض اپنے دل اور ضمیر کی آواز اور ملکی حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر لکھتا ہے۔ میری تحریر چونکہ بہت سے طبقوں کو انتہائی ناگوار گزرتی ہے‘ اس لیے سوشل میڈیا سیلز کی جانب سے میرے آرٹیکلز پر کسے جانے والے فقرے اور منفی تبصرے میری ہمت اور نظریے کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ صادق محمود ملک کے وہ میزبان گزشتہ دو برسوں سے عمران خان سے ناراض ہو کر ان کے مخالفین کی صف میں شامل ہو چکے ہیں اور ہم آج بھی وہیں کھڑے اپنے نظریے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved