تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     04-09-2013

حجاب اور کارپوریٹ اخلاقیات

دنیا بھر میں کسی بھی روشن خیال مفکر، جمہوریت پسند دانشور، حقوقِ ا نسانیت کے علمبردار سماجی کارکن یا سیکولر سیاسی رہنما کو انسانی ترقی، معاشی خوشحالی اور تہذیبی ارتقاء پر گفتگو کرتے دیکھیں تو ان سب کی نفرت کا نشانہ صرف ایسی عورت بنتی ہے جو لوگوں کی ہوسناک نظروں اور لاشعور میں مچلتے غلیظ خیالات کی زد سے بچنے کے لیے اپنے چہرے اور جسم کو ڈھانپ کر باہر نکلتی ہے۔ میں ایک مرد ہوں اور میں ان تمام’’ مردانِ حر‘‘ کی نظروں میں چھپی ہوس کو بخوبی جانتا ہوں جو کسی کم لباس خاتون کو بازار میں، کسی ماڈل کوفیشن شو میں ، کسی گلوکارہ کو سٹیج پر یا کسی جاذبِ نظر خاتون کو دفتر کے استقبالیہ کائونٹر پر دیکھ کر پیداہوتی ہے۔ میں ان کے غلیظ جملے اور فقرے بھی تحریر کر سکتا ہوں لیکن میں سعادت حسن منٹو نہیں کہ مجھے آزادیٔ اظہار کے نام پر معاشرے میں صرف جنس ہی نظر آئے۔ مردوں کی نظروں کی یہ ہوسناکی ، ان کی فقرے بازی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سنگین جرائم میرے ملک تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں یہ خطرناک حد تک پائے جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں دوپٹہ گلے سے سرکنے پر آنکھیں پھسلتی ہیں اور مغرب میں مختصر ترین لباس مردوں کی گردنیں موڑتا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ حقوق کی کہانی کی ساری تان عورت کو گھر کی چار دیواری سے باہر لا کر محفل کی زینت بنانے پر کیوں ٹوٹتی ہے؟ آپ کسی بھی مفکر، دانشور ، جمہوریت پسند انسانی حقوق کے ترجمان سے مل لیں، اسے اس بات پر کبھی اعتراض نہیں ہو گا کہ آپ نمازیں پڑھیں، روزے رکھیں، حج کریں، زکوٰۃ دیں، داڑھی رکھیں، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنیں ، دن رات قرآن کی تلاوت کریں… لیکن جونہی کوئی خاتون اپنی اولاد کی تربیت اور گھر جیسے بنیادی ادارے کی دیکھ بھال کے لیے ا پنے آپ کو وقف کرتی ہے تو انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پڑھ لکھ کر برباد کر رہی ہے، فرسودہ، دقیانوس، ترقی کی دشمن! لیکن سب سے زیادہ غصہ اُس خاتون پر آتا ہے جو باہر تو آجاتی ہے لیکن چہرہ اور جسم ڈھانپ کر نکلتی ہے۔ کیا یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے؟ اگر یہ مذہبی مسئلہ ہوتا تو سب سے پہلے عیسائی راہبائیں (Nuns) اس نفرت کا شکار بنتیں۔ لیکن چونکہ انہوں نے حجاب کے لیے ترکِ دنیا کی شرط رکھ دی ہے اور باقی معاشرے کو کھلی چھوٹ دے دی ہے اس لیے گوارا ہے کہ چلو کتنی عورتیں راہبائیں بن جائیں گی۔ لیکن اگر حجاب معاشرے میں عام ہو جائے تو بڑا طوفان آئے گا‘ اس لیے کہ حجاب کے مقبول ہونے کی ایک بنیادی نفسیاتی وجہ ہوتی ہے۔ دنیا میں تمام نفسیاتی ماہرین اور معاشرتی محقق اس بات پر متفق ہیں کہ عورت سب سے زیادہ نفرت اور حقارت کسی غیر مرد کی آنکھوں کی ہوسناکی اور بے حیائی سے کرتی ہے۔ عریاں ترین لباس والی عورت بھی‘ اگر وہ جنسی کاروبار کے لیے بازار میں نہ کھڑی ہو تو اسے بھی مردوں کی غلیظ نظروں سے نفرت ہوتی ہے۔ مردوں کی نظروں کی ہوسناکی اور عورتوں کی بے حجابی کے درمیان جو رشتہ قائم ہوتا ہے اس سے دنیا میں کئی سو بلین ڈالرز کا کاروبار چلتا ہے۔ عریانی کا تحفظ اسی کاروبار کی بقا کی جنگ ہے۔ یہ کاروبار آرائشِ حسن کے سازوسامان سے شروع ہو کر فیشن انڈسٹری ، میڈیا، ایڈورٹائزنگ اور لباس کی مخصوص تراش خراش کے فن سے ہوتا ہوا مکروہ ترین فحش فلموں اوربدن فروشی کے عالمی مافیا تک جا نکلتا ہے۔ آپ ذرا اس پوری انڈسٹری کا جائزہ لیں تو آپ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ صرف سر کے بالوں کو سنوار نے کے لیے سیکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیاں شیمپو سے لے کر بال سیدھا کرنے، رنگ کرنے، گھنگھریالے بنانے اور ان کو جاذبِ نظر بنانے کے لیے طرح طرح کی ادویات اور لوشن بنا رہی ہیں۔ اگر ٹانگیں اور بازو دکھانا مقصود ہوں تو ان کی خوبصورتی اور دلکشی کے لیے علیحدہ سازو سامان بنانے والی کمپنیاں اپنا کاروبار پھیلائے ہوئے ہیں۔ غرض پائوں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک کوئی مقام ایسا نہیں جسے کاروبار کا موضوع نہ بنایا گیا ہو اور اسے بازار میں لاکر نہ کھڑا کیا گیا ہو۔ اس سارے کاروبار کو میڈیا کی چکا چوند اور فیشن شوز کی بھرمار اور ماڈلز کی جسمانی ہیت اور اُن کے خدوخال کو دنیا بھر کی عورتوں کے لیے ایک آئیڈیل بنا کر پیش کرنے سے مضبوط اور مستحکم کیا جاتا ہے۔ کبھی سائززیرو آئیڈیل ہوتا ہے اور چند سالوں بعد بھرے ہوئے جسم کی تعریفوںمیں اخبارات کے صفحے کالے ہوتے ہیں۔ ان سب کی معراج عالمی مقابلۂ حسن ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس سال مغربی ممالک میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا ، اس کے اگلے سال یعنی1921ء میں امریکہ کے اٹلاٹنک سٹی میں یکم مئی کے ساتھ دو ہفتہ وار چھٹیاں بھی مل گئیں۔ لوگوں کو مصروف رکھنے کے لیے ہوٹل کے مالکان نے تیرا کی کے لباس میں ملبوس خواتین کا مقابلہ کر وایا اور ایک خاتون کے سرپر ملکۂ حسن کا تاج پہنا دیا گیا۔ اس دن سے لے کر آج تک جنگ ہو، بدحالی ہو، سیلاب یا زلزلہ ہو، مقابلۂ حسن نہیں رُکا۔ 1951ء میں برطانیہ کے ایرک مورے نے اسے قواعدو ضوابط والا مقابلہ بنایا۔ دنیا کے ہر خطے سے مخصوص مفادات کے تحت ملکۂ حسن منتخب کی گئی اور پھر ہر خطے کی خواتین کو اس نمائش کی دوڑ میں مدہوش کر دیا گیا۔ بھارت میں جس سال ایشوریا رائے اور سشمیتا سین ملکۂ عالم اور ملکۂ دنیا کا اعزاز جیتیں‘ پورے بھارت میں صرف تین پلاسٹک سرجن تھے‘ صرف دو سال بعد ان کی تعداد پانچ سو ہوگئی اور آج ان کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ایک دفعہ خواتین کو زینتِ بازار بنانے کے بعد پورے معاشرے میں جو ہیجان پیدا ہوتا ہے، مردوں میں جو جنسی محرکات پیدا ہوتے ہیں ان کو آگ دکھانے اور اس کاروبار کو وسیع تر کرنے کے لیے فحش مواد کی ایک بہت بڑی انڈسٹری وجود میں لائی گئی۔ جس سے ہر سال70ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ ان میں سے15ارب ڈالر صرف امریکہ سے کمائے جاتے ہیں ۔سالانہ20 ارب ڈالر صرف فحش فلموں کی فروخت سے حاصل ہوتے ہیں، آٹھ ارب ڈالر فحش رسالے اور میگزین بیچ کر حاصل کیے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر فحش سائٹس سے تین ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے مکروہ دھندہ 13 سال سے کم عمر بچیوں کی تصاویر اور فلموں کا ہے جس سے تین ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں اور اس وقت انٹرنیٹ پر ان کی ایک لاکھ کے قریب ویب سائٹس ہیں جبکہ باقی فحش سائٹس کی تعداد45لاکھ اور فحش انٹرنیٹ پیجز کی تعداد تین کروڑ 75 لاکھ ہے۔ دنیا بھر سے تین ارب کے قریب افراد یہ تصویریں اور فلمیں اپنے کمپیوٹروں میں محفوظ کرتے ہیں۔ صرف امریکہ کی تین لاکھ25ہزار بچیاں ان فحش تصویریں اور فلموں کے لیے اپنے جسم کی نمائش کرتی ہیں۔ اس دھندے سے جو ہیجان پیدا ہوتا ہے اور عورت کی ہر مقام پر عریاں موجودگی جس طرح ان معاشروںکے بھیڑیوں کو ہوس کے بازار میں لاکھڑی کرتی ہے،وہیں سے جسم فروشی کا دھندہ کبھی مساج پالروں کی شکل اور پھر کہیں(Escort) سروس کے نام پر پوری دنیا میں عام ہوتا ہے۔ پوری دنیا کے غریب ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں کمسن بچیوں اور عورتوں کو ان مساجر پارلروں اور طوائف گھروں میں لا بٹھایا جاتا ہے جن کی نگرانی تنو مند غنڈے اور تربیت یافتہ کتے کر رہے ہوتے ہیں۔ جنگ ، بھوک ، بیماری اور افلاس زدہ علاقوں کی لڑکیاں بھی اس کاروبار میں جھونکی جاتی ہیں۔ جہاں کہیں ورلڈ کپ یا کسی اور طرح کا عالمی اکٹھ ہوتا ہے ایسی عورتوں کا ایک سیلاب وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس ساری صورت حال سے جو معاشرہ جنم لیتا ہے اس میں ہر ایک سیکنڈ میں دو خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، پوری دنیا میں ہزاروں سیریل ِکلر یعنی جنونی قاتل جنم لیتے ہیں جو عورتوں کو اغوا کر کے جنسی تشدد کے بعد قتل کرتے ہیں۔ ہر سال دس لاکھ بچے صرف امریکہ میں کم سن لڑکیاں جنم دیتی ہیں جو بغیر شادی کے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں اکثریت خیراتی اداروں کے سپرد ہو جاتی ہے۔ ایک ہولناک اور بھیانک تصویر ہے جو دفتروں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے سے شروع ہوتی ہے اور پرُ تشدد قتل وغارت تک جاتی ہے۔ لیکن ان سب سے کئی سو ارب روپے کی انڈسٹری چلتی ہے۔ اسی لیے جو عورت حجاب پہننے کا اعلان کرتی ہے وہ اس اربوں ڈالر کی آمدنی کے سا منے کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ نمائش نہیں بننا چاہتی جو اس سرمایہ کمانے کے چکر کا آغاز ہے۔ ایسی مخالفت کو آغاز میں ہی کچلنے کے لیے یہ اخلاقیات سے محروم سرمایہ دار حقوقِ نسواں، جمہوری اقدار اور معاشرتی ترقی کے تیر ہاتھوں میںلیے حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسی آواز کو دبانے کے لیے جوان کے پیٹ پر لات مارنا چاہتی ہے۔ (عالمی یوم حجاب کے لیے خصوصی تحریر)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved