عمران خان کا صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا آپشن فی الحال بیک فائر کرتا نظر آرہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے مارچ تک پنجاب اسمبلی قائم رہنے کا بیان‘ پی ٹی آئی کیمپ کو بیک فٹ پر جانے کو مجبور کرچکا ہے ‘ جس کی جھلک ہمیں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کے بیان سے ملتی ہے جو درمیانی راستے کی بات کرتے ہوئے جون جولائی میں الیکشن کی خواہش کا ا ظہار کررہے ہیں۔ زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو پی ٹی آئی اگر رواں ماہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرتی ہے‘ تب تو انہیں صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب مارچ تک مل سکتا ہے لیکن اسمبلی توڑنے کی بات اگر جنوری تک جاتی ہے تو پھر 23 مارچ سے ماہ رمضان کا آغاز ہوجائے گا اور روایتی طور پر پاکستان میں رمضان کے مہینے میں نہ پولیٹکل کمپین کی جاتی ہے اور نہ ہی الیکشن۔ دوسری بات یہ کہ قانون کے مطابق‘ عام انتخابات سے چار ماہ قبل ضمنی انتخابات نہیں ہوتے اس لیے تحریک انصاف اس فیصلے کے حوالے سے مشکل میں گرفتار نظر آتی ہے کہ آیا صوبائی اسمبلیاں توڑیں یا نہ توڑیں اور آخر حکومت سے کیسے قبل از وقت انتخابات حاصل کریں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں بہت سے تجزیہ کار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان بند گلی میں آن کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اپنا آخری پتا بھی کھیل چکے ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے۔ لیکن یاد رہے کہ سیاست تو کھیل ہی ناممکن کو ممکن بنانے کا ہے۔ عمران خان واقعی سیاست دان ہیں تو تسلیم کرلیں گے کہ عوامی مقبولیت اور سپورٹ کے باوجود وہ جلد انتخابات کروانے کا ٹارگٹ پورے نہیں کر سکے۔ اس سے آگے ان کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ مذاکرات کا راستہ ہے۔ واقفانِ حال کے مطابق عمران خان پارلیمنٹ میں واپس جانے کے آپشن پر غور کررہے ہیں لیکن اس آپشن کے استعمال کے لیے انہیں فیس سیونگ کی ضرورت ہے لیکن پی ڈی ایم ان کو فیس سیونگ دینے پر راضی نہیں۔ گوکہ صدر عارف علوی اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مابین دوبارہ بات چیت ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ رابطے واقعی بریک تھرو ثابت ہوسکتے ہیں؟
عمران خان کو اگر اس بند گلی سے نکلنے کا کسی سے صائب مشورہ مل سکتا ہے وہ چودھری پرویز الٰہی سے بہتر کوئی نہیں۔ عملی سیاست کے شاہسوار اور ہوا کا رخ دیکھ کر سیاسی بادبان کھولنے والے چودھری پرویز الٰہی عمران خان کو سیاسی ہزیمت سے بچا سکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی توڑنے کے حوالے سے جب عمران خان کی پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی تو وزیراعلیٰ پنجاب نے انہیں سات سے آٹھ وجوہات بیان کیں کہ یہ اسمبلی کیوں نہیں توڑنی چاہیے۔ اس میں سرفہرست ترقیاتی کاموں کا بروقت مکمل نہ ہونا تھا جبکہ ایک اور اہم وجہ اسمبلیوں سے نکل کر irrelevant ہونا تھا۔ ان کی بات میں وزن ہے آخر عمران خان نے قومی اسمبلی سے نکل کر حکومت کا کیا بگاڑ لیا ؟ الٹا وہ نیب قوانین اور انتخابی اصلاحاتی بل‘ جن کی پی ٹی آئی اسمبلی میں رہتے ہوئے شدید مخالفت کرسکتی تھی ‘ ایک ایک کرکے پاس ہوتے گئے ‘ جس کی رو سے پی ڈی ایم رہنماؤں پر نیب کے کیسز تیزی سے بند ہو رہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے ہوتے ہوئے عمران خان نہ صرف گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں بلکہ وہ آدھے سے زیادہ پاکستان کے حکمران بھی ہیں۔ اسی لیے عمران خان کو اپنی سیاسی چالوں کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک تو ان کے بنائے ہوئے بیانئے ایک ایک کرکے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہورہے ہیں ‘ جس سے ان کے سوچنے سمجھنے والے ووٹرز خائف نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی قمر جاوید باجوہ کے خلاف عمران خان کی چارج شیٹ کے غبارے سے ہوا نکال چکے ہیں۔ اس لیے تحریک انصاف کا ورکر اس وقت کنفیوز ہے کہ باجوہ صاحب کے حوالے سے سچ عمران خان بول رہے ہیں یا وزیراعلیٰ پنجاب ‘کیونکہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت پرویز الٰہی کی باتوں کو مسترد کرتی بھی نظر نہیں آرہی۔ دوسرا‘ اگر الیکشن چھ ماہ بعد ہوتے ہیں تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان شاید اپنا یہ مومینٹم برقرار نہ رکھ پائیں۔ ان کا لانگ مارچ ‘ دھرنا اور کنٹینر فارمولہ پہلے ہی پٹ چکا ہے۔
اگر پی ڈی ایم کی بات کی جائے تو وہ حکومت چھوڑنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ مشکل سیاسی فیصلوں کی وجہ سے وہ اپنا سیاسی سرمایہ خرچ کرچکی ہے ‘اور اس کی واپسی تک اقتدار سے نکلنا نہیں چاہتی۔ یعنی حکمران اتحاد الیکشن اپنے وقت پر چاہتا ہے۔ بادی النظر میں یہ ممکن ہے کہ الیکشن اکتوبر کے بجائے جولائی یا اگست میں کروا دیے جائیں۔ گوکہ اس وقت فواد چودھری ایک طویل المدتی نگران سیٹ اَپ بننے کے خدشے کا اظہار بھی کررہے ہیں‘ جس کی رُو سے پی ڈی ایم چھ ماہ کے لیے نگران سیٹ اَپ بنا کر اور تمام تر مشکل فیصلے اس پر چھوڑ کر ‘ خود اس عرصے میں اپنی مقبولیت بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن واقفانِ حال کے مطابق پی ڈی ایم کے اندر اس آپشن کے حوالے سے کوئی معاملہ زیرِ غور نہیں ‘ جس کی دو وجوہ ہیں‘ پہلے تو اس آپشن کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ عدلیہ اور فوج سیاست میں مداخلت سے گریزاں ہیں ‘ یہ آپشن تبھی ممکن ہوسکتا ہے اگر یہ دونوں آئینی ادارے اس کے متمنی ہوں ‘ جو کہ نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آصف زرداری اور میاں نوازشریف ‘ کسی نگران حکومت کے سامنے ہاتھ پاؤں کٹوا کر بیٹھنے کے بجائے اپنے سیاسی اور معاشی بکھیڑے خود نمٹانے میں دلچسپی رکھتے ہیں‘ نہ کہ ایک غیر آئینی راستہ کھول کر اپنے لئے مزید مسائل پیدا کر لیے جائیں۔
صوبائی حکومتوں کا ٹوٹنا ‘ پی ڈی ایم کے مفاد میں بھی نہیں‘ کیونکہ اگلے سا ل قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے ‘ تو ملک میں سیاسی استحکام کے بجائے غیریقینی صورتحال قائم رہے گی جس سے تباہ حال معیشت مزید برباد ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کو بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کا آپشن زیادہ قابل ِقبول لگ رہا ہے۔ گوکہ پی ڈی ایم نے عمران خان کی مشروط مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کیا ہے ‘ جس کے جواب میں عمران خان نے بھی مذاکرات کی آفر واپس لے لی ہے لیکن بظاہر یہ سب کچھ دکھاوا ہے۔درحقیقت دونوں فریقین جانتے ہیں کہ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ اسحاق ڈار ‘ اگر گزشتہ روز صدر مملکت سے دوبارہ ملے ہیں تو ظاہر ہے اس میں انہیں نوازشریف ‘ آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی اشیر باد حاصل تھی۔ اسی طرح صدر عارف علوی کی جانب سے پی ٹی آئی کو مقتدرہ کے خلاف بیان بازی سے متنبہ کرنا واضح کرتا ہے کہ انہیں بھی آگے امید کی کوئی کرن نظر آرہی ہے۔ ان حالات میں محسوس یہی ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پی ٹی آئی سسٹم میں دوبارہ شامل ہونے پر آمادگی کا اظہار کر سکتی ہے جبکہ حکومت بھی انہیں دو سے تین ماہ قبل الیکشن دے کر ایک سازگار ماحول تیار کرسکتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت ملک کو معاشی اور قومی سلامتی کے جس طرح کے خطرات کا سامنا ہے ‘ ان کا مقابلہ کرنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ۔ معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے فوری اور متفقہ فیصلوں کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو آگے بڑھایا جاسکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved