برطانیہ سے علامہ نصیر اللہ نقشبندی نے پوچھا ہے: ''(1) کیا اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق یا معشوق یا مشوق کے کلمات استعمال کرنا جائز ہیں (2) رسول اللہﷺ سے اظہارِ محبت کے لیے عشقِ رسول کا لفظ استعمال کرنا یا یہ کہنا: ''فلاں عاشقِ رسول ہے یا میں عاشقِ رسول ہوں‘‘ شرعاً جائز ہے، نیزکیا رسول اللہﷺ کو معشوق کہنا جائز ہے، (3) ہم عشق حقیقی اور عشق مَجازی کے الفاظ سنتے رہے ہیں، کیا ان میں کوئی معنوی فرق ہے، نیز نعت یا سلام میں یہ شعر پڑھناکیسا ہے: ''امتی کیا، خود خدا شیدا ہے تمہارا‘‘۔
سب سے پہلے عشق کے معنی بیان کیے جاتے ہیں، ''اَلْمُعْجَمُ الْوَسِیْط‘‘ میں ہے: ''عشق‘‘ کے لغوی معنیٰ ہیں: ''بہت شدت سے محبت کرنا، کسی شئے کے ساتھ دل کا وابستہ ہو جانا، چمٹ جانا‘‘ (ج: 2، ص: 603، مطبوعہ: دارالدعوۃ)۔ ''مِصْبَاحُ الْمُنِیْر‘‘ میں ہے: ''محبت میں اِفراط (یعنی حد سے تجاوز یا انتہائی درجے کی محبت) کو عشق کہتے ہیں‘‘ ( ج: 2، ص: 412)، اَلْمُنْجِد میں ہے: ''بہت زیادہ محبت کرنا، محبت میں حد سے بڑھ جانا، عَشِقَ بِالشَیِٔ: چمٹنا، العِشْقُ: محبت کی زیادتی، اس کا اطلاق پارسائی اور غیر پارسائی‘ دونوں اعتبار سے ہوتا ہے، اَلعَشَقَۃُ: عشق پیچاں، پیلو‘‘ ( ص: 654 تا 655)۔
عشق ایک پودا ہے جو سرسبز و شاداب ہوتا ہے، لیکن پھر مرجھا جا تا ہے اور زرد پڑ جاتا ہے۔ ہندی میں ''عشق پیچاں‘‘ ایک بیل کو کہتے ہیں۔ اردو زبان میں اسے''آکاس بیل‘‘ کہتے ہیں، یہ درخت سے لپٹ جاتی ہے اور اس کو برگ و بار سے محروم کر دیتی ہے، پھر وہ زرد ہو جاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد خشک ہو جاتا ہے۔ برگ و بار سے مراد ہے: ''شاخیں، پھول، پھل اور پتّے‘‘۔ پس جب عشق قلبِ عاشق پہ چھا جاتا ہے تو اس کو زرد رُو اور لاغَر بدن بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عاشق، معشوق اور مشوق کے کلمات استعمال کرنا شریعت کی رو سے جائز نہیں۔ شاقَ یَشُوْقُ شَوْقًا کے معنی ہیں: ''شوق دلانا‘‘، اس کی صفتِ مفعولی مشوق ہے، شَوقْ کے معنی ہیں: ''سخت خواہش، بڑی آرزو‘‘۔ بعض فقہاء وعلماء نے اسے بدعت کہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے کلمات استعمال کرنے والے کو بدعتی قرار دیا گیا ہے؛ البتہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ بعض علماء نے کہا ہے: ایسے شخص کو سزا دی جائے گی۔
اسی طرح رسول اللہﷺ کے آداب میں سے ایک یہ ہے: آپﷺ کے لیے صریح اہانت کا کلمہ تو درکنار، ایسا ذومعنی کلمہ بھی استعمال کرنا جائز نہیں، جس کا ایک معنی تعظیم کا ہو اور بولنے والے کی نیت بھی تعظیم کی ہو، لیکن اس کے ایک دور کے معنی اہانت کے بھی نکل سکتے ہوں، کیونکہ کوئی بدنیت اور بدعقیدہ شخص ایسے کلمات بول کر اہانت کا معنیٰ مراد لے سکتا ہے۔ جب رسول اللہﷺ کی صحابۂ کرام کے ساتھ مجلس منعقد ہوتی، آپﷺ کے ارشاداتِ مبارکہ کا سلسلہ جاری ہوتا اور کوئی بات کسی صحابی کی سمجھ میں نہ آتی، تو وہ عرض کرتے: ''راعِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘، یعنی ''اے اللہ کے رسول! ہماری رعایت فرمائیے! ہماری طرف توجہ فرمائیے! اپنی بات مکرر ارشاد فرمائیے‘‘، صحابۂ کرام کی نیت درست ہوتی تھی، لیکن بعض منافقین اور یہود بدنیتی سے اس لفظ کو اِمالہ (Tilt) کرکے ''رَاعِیْنَا‘‘ کہتے اور باہر آکر اپنی مجلسوں میں اس کا لطف لیتے، کیونکہ ''رَاعِیْنَا‘‘ کے معنی ہیں: ''ہمارا چرواہا‘‘ اور بعض اسے ''رَعْن‘‘ سے لیتے اور رعونت کے معنی ہیں: ''بے وقوف ہونا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرّمﷺ کی شان میں ذومعنی لفظ کے استعمال سے منع فرما دیا اور تنبیہ فرمائی کہ پہلی مرتبہ ہی نبیﷺ کی بات غور سے سن لیا کرو تاکہ آپﷺ کو دوبارہ زحمت دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: '' اے ایمان والو! ''راعِنَا‘‘ نہ کہا کرو، بلکہ ''اُنْظُرنَا‘‘ (ہماری طرف توجہ فرمائیے!) کہا کرو اور (بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی) توجہ سے سن لیا کرو‘‘ (البقرہ: 104)۔ ذو معنی لفظ کو ہم انگریزی میں ''Ambigous‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ لغت میں اس کے معنی ہیں: ''ایسا لفظ جس کے ممکنہ طور پر ایک سے زائد معانی ہوں، اس سے بعض صورتوں میں ابہام بھی پیدا ہوتا ہے‘‘۔
نیز فرمایا: '' یہودیوں میں سے کچھ لوگ اللہ کے کلمات کو ان کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے سنا اور نافرمانی کی (اور آپ سے کہتے ہیں:) سنیے آپ نہ سنائے گئے ہوں اوراپنی زبانیں مروڑ کر دین میں طعن کرتے ہوئے ''رَاعِنَا‘‘ کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور آپ ہماری بات سنیں اور ہم پر نظرِ کرم فرمائیں تو یہ اُن کے لیے بہتر اور درست ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب اُن پر لعنت فرمائی ہے، سوان میں سے کم لوگ ہی ایمان لائیں گے‘‘ (النسآء: 46)۔
قرآن کریم اور اَحادیثِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ کے لیے '' حُبّ‘‘ کا کلمہ آیا ہے۔ اُس کی غایت کو ''اَشَدّ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ''بعض لوگ اللہ کے غیر کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں اور اُن سے اللہ جیسی محبت کرتے ہیں اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں‘‘ (البقرہ: 165)۔ تفصیلی دلائل حسبِ ذیل ہیں:
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ''بعض اولیائے کرام اور بعض متقدمین نے اللہ تعالیٰ سے اظہارِ محبت کے لیے لفظ معشوق اور مَشُوق استعمال کیا ہے، مگر اہل علم نے دو وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ توقیفی ہیں (یعنی نقل و سماع پر موقوف ہیں، عقل پر موقوف نہیں ہیں) اور دوم یہ کہ اس کا اطلاق جسمانی لذتوں میں (زیادہ) مُتعارف ہے‘‘ (تفسیر امام راغب اصفہانی، ج: 1، ص: 49)، علامہ ابن قیم حنبلی لکھتے ہیں: ''اہلِ علم نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ آیا یہ کلمہ (عاشق یا معشوق) اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے بولا جا سکتا ہے، صوفیہ کی ایک جماعت نے کہا ہے: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انہوں نے اس بابت اثر نقل کیا ہے، لیکن ایسا اثر کہیں ثابت نہیں ہے اور اُسی میں ہے: عشق کرنے والا کہے گا: ''اس نے مجھ سے عشق کیا یا میں نے اس سے عشق کیا‘‘ اور جمہور علماء نے کہا: یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں نہیں بولا جائے گا، پس یہ نہیں کہا جائے گا: ''وہ (فلاں) سے عشق فرماتا ہے‘‘ اور یہ بھی نہیں کہا جائے گا: ''اُس کے بندے نے اُس سے عشق کیا‘‘، محدثین کی اصطلاح میں ''اثر‘‘ قولِ صحابی کو کہتے ہیں۔ پھر (اللہ کی ذات پر) اس کے اطلاق کی ممانعت کے بارے میں تین مختلف اقوال بیان کیے ہیں: (1) یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ توقیفی ہیں (یعنی نقل و سماع پر موقوف ہیں)، اس کے برعکس مَحبت کا کلمہ اللہ تعالیٰ کے لیے (قرآن و حدیث میں) آیا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق کسی سے بھی روایت نہیں ہوا، (2) یہ کہ عشق مَحبت میں افراط (حد سے تجاوز کرنے) کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے کسی بات یا کسی صفت کے حوالے سے اِفراط کا اطلاق ممکن نہیں ہے (کیونکہ اس کی کسی صفت اور شان کی کوئی حد نہیں ہے کہ کہا جائے: اس نے حد سے تجاوز فرمایا) اور نہ بندہ اس کی ذات کے ساتھ اُس کمال محبت کو پا سکتا ہے (جس کا وہ حق دار ہے) چہ جائیکہ کہ کہا جائے: ''اس نے محبت کا حق ادا کر دیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا حق بندے کے لیے ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے، چہ جائیکہ کہا جائے: اس نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں حد سے تجاوز کیا، (3) یہ کہ یہ تغیر سے ماخوذ ہے، جیسے ''آکاس بیل‘‘ لپٹے ہوئے درخت کو (رنگ زرد پڑ جانے کے سبب) ''عاشقہ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اس کا رنگ مُتغیر ہو گیا، لہٰذا اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر نہیں کیا جائے گا‘‘ (رَوْضَۃُ الْمُحِبِّیْن، ص: 45 تا 46)، کیونکہ اس کی ذات تغیر و تبدّل اور زوال سے پاک ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سے محبت کے حوالے سے البقرہ: 165، 195 اور 222، آل عمران: 31، 76 اور 134، 146اور 159، سورہ توبہ: 24 اور دیگر مقامات پر ''أَحَبّ، یُحِبُّ، یُحِبُّونَ، حُبٍّا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ نیز حدیثِ پاک میں ہے: ''جو میری رضا کے لیے آپس میں محبت کریں، باہم مل بیٹھیں، ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور ایک دوسرے پر مال خرچ کریں، ان کی محبت میرے ذمۂ کرم پر ہے‘‘ (مسند احمد: 22030)۔ بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق واجب ہیں، بندہ اُن کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو تم اُن کاشمار نہ کر پائو گے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ (النحل: 18)۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں تیری ثناء کا احاطہ نہیں کر سکتا، تیری کمالِ ثناء وہی ہے جو تو نے خود اپنی ذات کی فرمائی‘‘ (صحیح مسلم: 486)۔
علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں: ''اگر اس نے کہا: میں ایسے مقام پر پہنچ گیا کہ میں غمِ جان سے آزاد ہو گیا‘‘، یہ کہنے سے اس کی تکفیر تو نہیں کی جائے گی، لیکن وہ مُبْتَدِع ہے (اور) فریبِ نفس میں مبتلا ہے۔ اسی طرح اگر کہا: ''میں اللہ کا عاشق ہوں یا وہ مجھ سے عشق فرماتا ہے‘‘ (تو مبتدع ہے)، (اللہ تعالیٰ سے اظہارِ محبت کے لیے) صحیح الفاظ یہ ہیں: ''میں اللہ سے محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت فرماتا ہے‘‘ (اَلاِعلاَم بِقَواطِعِ الِاسلام، ص: 204)، علامہ سلیمان بن منصور شافعی لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ کی ذات کو عاشق اور معشوق کہنا جائز نہیں ہے، بلکہ ایساکہنے والے کو سزا دی جائے گی (یعنی یہ ذات باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے)‘‘ (حَاشِیَۃُ الْجُمَلْ عَلٰی شَرحِ الْمَنْہَجْ، جلد: 2، ص: 194)۔
امام احمد رضاقادری سے سوال ہوا: ''اللہ تعالیٰ کو عاشق اور رسول اللہﷺ کو اس کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں؟‘‘، آپ نے جواب میں لکھا: ''ناجائز ہے، کیونکہ عشق کا معنی اللہ عزوجل کے حق میں مُحالِ قطعی ہے اور ایسا لفظ بے ورُود ثبوتِ شرعی حضرتِ عزّت کی شان میں بولنا ممنوعِ قطعی، ردالمحتارمیں ہے: ''اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی لفظ سے صرف مُحال معنی کا وہم بھی ممانعت کیلئے کافی ہے‘‘۔
علامہ یوسف اردبیلی شافعی ''اَلْاَنْوَار لاَِعْمَالِ الاَبْرَار‘‘ میں شافعی اور حنفی علماء سے نقل فرماتے ہیں: ''اگر کوئی شخص کہے: میں اللہ تعالیٰ سے عشق رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتا ہے‘‘، تو وہ بدعتی ہے، لہٰذا صحیح عبارت یہ ہے کہ وہ یوں کہے: ''میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت فرماتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اللہ تعالیٰ اُن سے محبت فرمائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے‘‘ (المائدہ: 54)، اسی طرح امام ابن حجر مکی نے ''اِعلام‘‘ میں نقل فرما کر اسے مقرّر رکھا‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد: 21،ص: 114 تا 116)۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved