تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     08-12-2022

آن لائن میدانِ جنگ اور عدم برداشت

سب سے زیادہ اگر کسی چیز کو موبائل فون نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ برداشت کا مادہ ہے جو تیزی کے ساتھ تقریباً ہرعمر کے لوگوں میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی عمر کے لوگ تو پھر کوئی کمنٹ کرنے سے پہلے کبھی کبھار سوچ لیتے ہیں لیکن نوجوان اور بچے کسی بھی بات پر ردِعمل دینے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتے۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کے سامنے کوئی پوسٹ‘ کوئی امیج آیا ہے اور اس پر جو عبارت لکھی ہے وہ درست ہے بھی یا نہیں۔ حقائق، سیاق و سباق اور پسِ منظر سے لا علمی ہماری بچوں‘ نوجوانوں یعنی نئی نسل کو جنگ کے ایسے آن لائن میدان میں دھکیل رہی ہے جہاں سب ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں‘ سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں‘ الزامات کی بارش کر رہے ہیں‘ اپنے من گھڑت دلائل اور جواز انڈیل رہے ہیں اور خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے مرنے مارنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ عدم برداشت کے اس کلچر نے ہمارے خاندانی اور معاشرتی نیٹ ورک کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ ہر ایک کے اپنے اپنے سیاسی دیوتا ہیں جن کے خلاف وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ ایک دوسرے سے نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ آپس کے رشتے‘ ناتے توڑنے پر آ جاتے ہیں حتیٰ کہ کئی ایک کیسز میں تو سیاست پر بحث کے دوران لوگوں نے ایک دوسرے کی جانیں بھی لے لیں۔یہ معاملہ سیاست تک ہی محدود رہتا تو اور بات تھی لیکن اب تو مذہب جیسے حساس معاملے بھی سوشل میڈیا کی دست برد سے نہیں بچ سکے ہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد کو سمجھنے یا برداشت کرنے کے بجائے پے درپے حملے کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ اعلیٰ ہستیوں کو بھی آپس کی لڑائیوں میں معاف نہیں رکھا جاتا حالانکہ یہ ہستیاں کسی ایک گروہ یا جماعت کی میراث نہیں لیکن بعض کی جانب سے بعض پر ایسا حق جمایا جاتا ہے گویا کہ باقی افراد کا ان سے کوئی تعلق نہیں یا انہیں ان سے عقیدت اور محبت نہیں۔
سوشل میڈیا سے قبل بحث و تمحیص کے اتنے میدان نہیں تھے۔ چند ٹی وی چینلز تھے یا کتابیں تھیں یا پھر مذہبی مجلسیں۔ ٹی وی چینلز پر ہر چیز ریکارڈ کی جاتی تھی اور اس بات کی حتی المقدور کوشش ہوتی کہ کوئی ایسی بات یا ایسا لفظ آن ایئر نہ جائے جس سے کسی خاص گروہ یا معاشرے کے کسی فرد کی دل آزاری ہو۔ مجلسوں میں اگر کوئی اونچ نیچ ہو بھی جاتی تو متنازع بات کو اس طرح پھیلنے کا موقع نہ ملتا جس طرح بجلی یا روشنی کی سی رفتار سے چیزیں سوشل میڈیا پر پھیلتی ہیں۔اسی طرح کتابوں میں بھی اگر کوئی دل آزاری پر مبنی عبارت چھپ جاتی تو اگلے ایڈیشن میں اس کی تصحیح کر دی جاتی اور اگر ایسا نہ ہوتا‘ تب بھی وہ اس برق رفتاری سے لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر حملہ آور نہ ہوتی جس تیزی کے ساتھ آج کے زمانے میں باتیں پھیلی اور پھیلائی جا رہی ہیں۔کچھ لوگ ایسے مواقع پر قانون ہاتھ میں لینے اور خود آگے بڑھ کر بیماری کا علاج کرنے کے لیے حسبِ موقع ڈاکٹر‘وکیل اور جج سمیت سب کچھ بن جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر دل آزاری پر مبنی ایسی پوسٹ کسی کو نظر آئے تو اس کی اطلاع پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو دی جا سکتی ہے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے تھوڑی سی محنت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔
بچوں کے ذہنوں پر ان سب چیزوں کا کیا اثر پڑ رہا ہے یہ تو ماہرینِ نفسیات ہی زیادہ تفصیل سے بتا سکتے ہیں لیکن اتنا تو سب کو نظر آ رہا ہے کہ اگر اس بے لگام باردو کو یہیں لگام نہ دی گئی تو پورے معاشرے کو نقصان پہنچے گا۔ خدشہ ہے کہ غیر مستند روایات اور بحثیں ہماری نسلِ نو کے اذہان میں اس طرح راسخ ہو جائیں گی اور نہ صرف ان بچوں کا مستقبل اس حوالے سے مشکوک ہو جائے گا بلکہ وہ آنے والی نسلوں اور اپنے بچوں کی بھی درست ذہن سازی نہ کر پائیں گے۔والدین کو سمجھنا ہو گا کہ ان کی ذمہ داری صرف بچوں کو سکول بھیجنا‘ کپڑے اور کھانے کا انتظام کرنا نہیں بلکہ اصل کام تربیت اور موجودہ اور آنے والے دور کے چیلنجز کے لیے تیار کرنا ہے اور وہ یہ کام صحیح طریقے سے تبھی کر پائیں گے جب وہ خود اپنے بچوں کو صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سکھائیں گے۔آج کی دور میں یہ ممکن نہیں کہ بچوں سے موبائل اور کمپیوٹر مکمل طور پر چھین لیا جائے اور انہیں کسی کمرے میں بند کر دیا جائے تاکہ کوئی منفی بات ان تک نہ پہنچ پائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان میں حقیقت اور پروپیگنڈا میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے تاکہ ان کے سامنے جب بھی کوئی سیاسی‘مذہبی‘ سماجی یا دیگر اقسام کی پوسٹیں آئیں‘ ایسا کوئی مواد آئے تو وہ اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے یا آنکھیں بند کر کے اسے مسترد کرنے کے بجائے حقائق کو پرکھنے اور جانچنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود اس صلاحیت کے حامل ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ افواہ سازی پر مبنی ایسی کسی سوشل میڈیا پوسٹ کو آگے شیئر کرنا یا لائک کرنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا اس پوسٹ کو لکھنا۔
ہماری قوم بھی عجیب ہے کہ کسی بات پر یقین کرنا ہو تو ایک سیکنڈ نہیں لگاتی اور نہ یقین کرنا ہو تو کئی کئی سال شک کرتی رہتی ہے۔آپ گزشتہ دنوں ایک لڑکی کے مہندی کے ایک فنکشن پر ڈانس وڈیو کے وائرل ہونے کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ اس حوالے سے کسی نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ پر یہ لکھا دیا کہ اُس لڑکی نے تین دن میں اس ڈانس وڈیو کے وائرل ہونے کے باعث دو‘ تین کروڑ کما لیے ہیں۔ اس پوسٹ کو دھڑا دھڑ لاکھوں لوگوں نے شیئر کیا‘ یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں۔ گوگل یا یوٹیوب پر تھوڑی سی ریسرچ اور سرچ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ انٹرنیٹ پر کس طرح اور کتنے وقت میں زیادہ سے زیادہ کتنے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت جو یوٹیوبر تین‘ چار ملین (تیس سے چالیس لاکھ) سبسکرائبرز رکھتے ہیں اور وہ روزانہ ایک یا دو وڈیو پوسٹ کر رہے ہیں‘ ہر وڈیو پر انہیں ایک‘ دو دن میں دس لاکھ سے زیادہ ویوز آ رہے ہیں‘ انہی یوٹیوبرز کو مہینے میں بیس سے پچیس ہزار ڈالر مل پاتے ہیں۔ دو دن میں انہیں بھی دو‘ تین کروڑ روپے نہیں ملتے۔ ہاں! دو‘ چار لاکھ روپے کی بات کی جائے تو کسی حد تک یقین کیا جا سکتا ہے کہ اتنے پیسے بن جاتے ہوں گے‘ وہ بھی ان اشتہاروں سے جو یوٹیوب پر وڈیو کے دوران چلتے ہیں۔ یا پھر کچھ وڈیوز سپانسرڈ ہو سکتی ہیں اور اس پر بھی یوٹیوبر کی ریٹنگ کے حساب سے پیسے دیے جاتے ہیں؛ تاہم مہندی ڈانس سے وائرل ہونے والی لڑکی کے اتنے فالورز ہیں نہ ہی دو دن میں اس کی وڈیو کو اتنے ویوز ملے ہیں کہ اسے دو‘ تین کروڑ کی آمدن ہو جاتی مگر ایسی خبروں کی حقیقت جاننے کی کوشش بہت کم لوگ کرتے ہیں ۔ زیادہ تر ایسی باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں اور بعض تو ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم اتنی سخت پڑھائیاں کر کے اور اعلیٰ ڈگریاں لے کر نوکری کر رہے ہیں‘مہینہ بھر اتنی محنت کرتے ہیں پھر بھی بجلی کے بل تک ادا نہیں کر پاتے اور یہاں پر لوگ ایک ڈانس کر کے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ اس طرح کے رویے بھی معاشرے میں عدم برداشت ‘ ذہنی دبائو اور شارٹ کٹ کلچر کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔
اگر اس معاشرے کو بچانا ہے اور نئی نسل اور ان نوجوانوں کو‘ جو اس ملک کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہیں‘ غلط اور صحیح کی تمیز سکھانی ہے تو والدین اور اساتذہ کو آگے بڑھنا ہو گا، وگرنہ یہ خالی ڈگریاں ‘عہدے اور ترقیاں نئی نسل کے کسی کام نہ آئیں گی اور ان کی باقی عمر سوشل میڈیا پر یونہی ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے اور جھوٹی‘ سچی پوسٹیں فارورڈ کرتے گزر جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved