سفید‘ برف پوش چوٹیوں پر دشمن کی پوسٹوں کے سامنے اپنے جوانوں اور افسران کے مضبوط کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے جیسے ہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی نعرۂ تکبیر کی صورت میں گونج دار اور پُرشکوہ آواز خاموشیوں کو چیرتی ہوئی پہاڑوں کی فلک بوس چوٹیوں سے ٹکرائی تو وہاں سربکف کھڑے جوانوں کو لگا کہ کسی نے ان کے سینے کو ایسی قوت اور طاقت سے بھر دیا ہے جو دشمن کی توپوں اور ٹینکوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ان جوانوں کا ابلتا ہو الہو نجانے کب سے اپنی جانب اٹھنے والے ناپاک ہاتھوں اور مغلظات بکنے والی زبانوں کو چیرنے کے لیے بے تاب تھا۔ اپنے سپہ سالار کی زبان سے نکلنے والے اس نعرے کو سنتے ہی انہیں ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے ان کو آزاد کر دیا ہو۔
پاکستان کے سترہویں آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے سیکٹر رکھ چکری میں وطن کی سرحدوں کے محافظ پاک فوج کے افسران اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے وہ پیغام پہنچایا جسے سننے کے لیے پوری قوم کے کان ترس رہے تھے اور جو گزشتہ کئی ماہ سے نجانے کہاں گم ہو چکا تھا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے برفیلی چوٹیوں اور سرد وادیوں میں چوبیس گھنٹے اپنی جانیں ہتھیلیوں پررکھ کر وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت اور دفاع کرنے والے سرفروشوں سے خطاب میں آزاد کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بڑھکیں مارنے والے بھارتی لیڈران اور آرمی آفیشلز کے اعلانات کی صورت میں ان کی تمام گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیتے ہوئے انہیں خبردار کیا کہ ایسا کرنا تو دور کی بات‘ اس طرح سوچنے والوں کے ساتھ بھی وہ سلوک کیا جائے گا کہ دنیا مدتوں اسے یاد رکھے گی۔ آرمی چیف نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے متعلق بھارتی قیادت کے بڑھک نما بیانات کے جواب میں صاف الفاظ میں واضح کیا کہ اگر دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی تو بھرپور جواب دیں گے۔ انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ حالیہ دنوں میں انڈین (سیاسی و ملٹری) لیڈرشپ کی جانب سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمارے نوٹس میں آئے ہیں۔ مجھے یہ واضح کرنے دیں کہ پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اپنے وطن کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے تیار ہیں بلکہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو اسے دشمن تک لے جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج وطنِ عزیز کے دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ دشمن کی کسی بھی مہم جوئی کا بھر پور جواب دیں گے۔ بھارت کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے اس پالیسی کا بھی اعادہ کیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دنیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرے۔ جنرل عاصم منیر نے بھارت پر واضح کیا کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی غلط فہمی‘ جس کا نتیجہ غلط مہم جوئی ہو‘ کا بھرپور جواب اپنی قوم کی مددسے دیں گی۔ اپنے خطاب میں یہ کہہ کر انہوں نے پوری قوم کو حوصلہ دیا کہ بھارت کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا۔ دنیا کو (کشمیر میں) انصاف یقینی بنانا ہو گا اور کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔ آرمی چیف کے خطاب کے ہر ایک لفظ کو سن کر میری کیفیت یہ تھی کہ
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
جنرل سید عاصم منیر کے یہ الفاظ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو دیا جانے والا ایک پیغام ہیں اور ان کے ذریعے بتا دیا گیا ہے کہ پاکستان کی امن اور دوستی کی خواہش کو بزدلی سمجھنے والے جان لیں کہ ہماری جانب اینٹ اٹھانے والوں پر پتھروں کی ایسی بارش کی جائے گی کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی۔ جنرل عاصم منیر اور حال ہی میں تعینات کیے جانے والے دسویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز کی لائن آف کنٹرول پر تعینات جوانوں اور افسران کو کندھوں پر دی جانے والی تھپکیاں میری نظر میں محض حوصلہ نہیں بلکہ وہ بارود ہیں جو لائن آف کنٹرول کے ایک ایک سپاہی کے جسم پہ نصب کر دیا گیا ہے اور جس سے ملک کی مشرقی و مغربی سمیت ہر سرحد‘ ہر چوکی پر تعینات سپاہی کے جسم میں ایک ولولہ اور جوش بھر گیا ہے۔
بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جب بھارت کے قومی دن کے موقع پر گلگت بلتستان کو کسی بھی وقت قبضے میں لینے کی بڑ ہانکی تو دنیا بھر کی سفارتی شخصیات تو ایک طرف‘ ہمارے جیسے نجانے کتنے ہی پاکستانی انتظار کرتے رہے کہ ہماری حکومت، وزیر دفاع یا متعلقہ ذمہ داران اس دھمکی کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ابھی ٹی وی چینلز پر دکھائی دیں گے۔ وزیر دفاع صاحب نے میڈیا چینلز پر اپنے درشن تو کرائے مگر سیاسی مخالفین پر گولا باری کے لیے۔ دنیا بھر میں پھیلے اوورسیز پاکستانیوں سمیت وطن میں موجود سبھی باشعور اور محب وطن لوگ انتظار کر کے تھک گئے کہ شاید کوئی حکومتی ذمہ دار بھارتی وزیر کی دھمکی کا دوٹوک جواب دے گا مگر یہ امید بر نہ آ سکی۔ اگرچہ دفتر خارجہ نے ایک بیان ضرور جاری کیا جس میں بھارتی وزیر دفاع کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بات کی گئی تھی مگر دفترِ خارجہ کے بیانات کو ایک رسمی کارروائی گردانا جاتا ہے۔ جب تک سیاسی قیادت‘ ملک کا وزیراعظم‘ وزیر دفاع اور دیگر افراد مل کر ایک واضح موقف اپناتے ہوئے کوئی سخت بیان جاری نہ کریں‘ عالمی سطح پر اس طرح کے بیانات کو توجہ نہیں دی جاتی۔ بدقسمتی سے بھارت کی ہرزہ سرائیوں‘ بازو لہرا لہرا کر چٹکیوں میں گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی بڑھکوں کا کسی جانب سے بھی مناسب جواب سامنے نہ آنے پر کروڑوں پاکستانیوں اور ہمارے جوانوں کا مورال بری طرح متاثر ہوا۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت کی جانب سے ان دھمکیوں کا کوئی مناسب جواب ہی نہیں دیا جا رہا۔ کیا یہ کسی نئی ڈاکٹرائن کا حصہ تو نہیں کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی تنازع کو ہائی لائٹ کرنے کے بجائے اس کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے جواب میں بھی خاموشی اختیار کی جائے۔ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ سب کی زبانیں بند ہیں۔ وہ زبانیں‘ جو سیاسی مخالفین کے خلاف ایک لمحے کیلئے خاموش نہیں رہتیں اور جو اس مقصد کے لیے ایک ایک دن میں کئی کئی بار پریس کانفرنسیں کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتیں‘ کیا انہیں احساس نہیں کہ ان کی وزارتوں کے بھی کچھ فرائض ہیں۔
یہ راج ناتھ کے بیان پر خاموشی اور کوئی سخت ردعمل نہ دینے ہی کا شاخسانہ تھا کہ بھارتی قیادت شیر ہو گئی اور دھڑلے سے ایسے بیانات جاری کیے جانے لگے۔ راج ناتھ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی لیفٹیننٹ جنرل اوپیندر دویدی نے بڑ ہانکی کہ بھارتی فوج آزاد کشمیر پر قبضے کے لیے تیار ہے اور محض حکومتی احکامات کا انتظار کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پونچھ میں جنرل دویدی نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی پارلیمنٹ قرارداد منظور کر چکی ہے‘ ہمیں جب کہا جائے گا ہم آزاد کشمیر پر قبضے کے لیے دھاوا بول دیں گے۔ بھارت کی ملٹری و سیاسی قیادت شاید پاکستان کے غیر مستحکم سیاسی نظام کا فائدہ اٹھا کر ایسی زہر افشانی کر رہی تھی مگر شیر دل سپہ سالارنے لائن آف کنٹرول پر کھڑے ہوکر پوری قوم کے جذبات کو جیسے زبان عطا کر دی۔ ملکی سرحدوں پر کھڑے جوانوں اور افسران کو یہ خطاب سن کر ایسا لگا کہ ان میں کوئی ایسی قوت سرایت کر رہی ہے جو انہیں سنگلاخ پہاڑوں سے ٹکرانے کیلئے بے تاب کر رہی ہے۔ پاکستانی قوم اور افواجِ پاکستان کا وہ رومانس‘ وہ یگانگی اور عقیدت کا وہ جذبہ‘ جو ستمبر 65ء میں رن آف کچھ، چھمب، چونڈہ، واہگہ، بی آر بی، قصور اور ہیڈ سلیمانکی سے شروع ہوا تھا‘ جنرل عاصم منیر کی آزاد کشمیر کی برف پوف چوٹیوں پر کھڑے ہو کر دشمن کو دہلا دینے والی للکار سے پھر جاگنے لگا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved