تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-09-2013

یہ اے پی سی کیا ہے؟

جمہوریت آ گئی۔ مگر جمہوریت چلانے والوں کے اندر سے آمریت نہیں جا سکی۔ کوئی مجھے یہ بتائے کہ جمہوریت میں آل پارٹیز کانفرنس نامی چیز کیا ہوتی ہے؟ جو حکومتی پالیسیوں کی تشکیل میں معاونت کے لئے منعقد کی جاتی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ‘دہشت گردی و دیگر قومی مسائل پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے اورآج کل کراچی میں منی آل پارٹیز کانفرنسیں منعقد کر رہے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت برطانیہ میں کسی آل پارٹیز کانفرنس کی مثال موجود ہے؟ حالات بہت ہی خراب ہوں‘ تو پارلیمنٹ کے اندر موجود جماعتیں‘ مخلوط حکومت بنا لیتی ہیں۔ لیکن آل پارٹیز کانفرنس کوئی منعقد نہیں کرتا۔ امریکہ کے سارے فیصلے کانگریس میں ہوتے ہیں۔ جہاں منتخب نمائندے کسی بھی جماعت کے ہوں‘ قومی فیصلوں میں اپنی رائے آزادانہ طور سے دیتے ہیں اور پارٹی کی طرف سے کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی اور پڑوسی بھارت میں‘ جہاں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت گزشتہ ساڑھے چھ عشروں سے چل رہی ہے اور جہاں ہمارے ملک کی طرح سیاسی جماعتوں کی بہتات ہے‘ وہاں بھی میری یادداشت کے مطابق کوئی آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہوتی۔ جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عوام اپنے لئے نمائندے چن کر جب قانون سازی کے لئے انہیں پارلیمنٹ میں بھیج دیتے ہیں‘ تو پھر یہ منتخب نمائندوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کو کونسی اور کیسی حکومت دیتے ہیں۔ وہ چاہیں‘ تو عوام کو مخلوط حکومت دیں اور چاہیں‘ تو اکثریتی پارٹی اپنی حکومت بنا کر ملک کا نظم و نسق چلائے اور یہ منتخب نمائندے اختلاف اور باہمی تعاون کے فیصلے‘ موقع محل کی مناسبت سے کرتے ہیں۔ اگر قانون سازی پر کوئی تنازعہ کھڑا ہو جائے‘ تو پارلیمانی پارٹیوں کا ایک نمائندہ اجلاس ہوتا ہے۔ جس میں بحث و تمحیص کے ذریعے اختلاف رائے دور کر کے‘ متفقہ مسودہ قانون تیار کر لیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا‘ تو پھر فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہاں جس مسودہ قانون کو اکثریت کی تائید حاصل ہو جاتی ہے‘ وہ ملک کا قانون بن جاتا ہے۔ بھارت میں متعدد آئینی ترامیم اور قانونی مسودے تیس تیس‘ چالیس چالیس سال سے پڑے ہیں اور پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں ہو رہے۔ لیکن کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس بلا کر‘ ان پر اتفاق رائے حاصل کر لیا جائے۔ قانون سازی یا قومی مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئے‘ عوام صرف منتخب نمائندوں کو مینڈیٹ دیتے ہیں اور اس اختیار کا استعمال صرف منتخب نمائندے ہی کر سکتے ہیں۔ غیرمنتخب نمائندوں کو یہ استحقاق نہیں ہوتا کہ وہ ایسے معاملات پر کوئی رائے دیں‘ جو ان کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہیں اور جن پر رائے دینے کا اختیار عوام نے انہیں دیا ہی نہیں۔ جو سیاستدان یا پارٹیاں‘ پارلیمنٹ سے باہر ہوتے ہیں‘ وہ یا تو عوام میں جا کر اظہارخیال کر سکتے ہیں یا میڈیا میں اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ حکومت چلانے کے معاملات میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ جمہوری ملکوں کے اندر یہ اے پی سی نامی پرندہ‘ صرف پاکستان میں نظر آتا ہے۔ دراصل یہ آمریت کے انڈے سے پیدا ہوا تھا اور پہلی مرتبہ اس کے پرپرزے ایوب خان کے زمانے میں دکھائی دیئے تھے۔ وہ ایک آمر تھے۔ انہیں عوام کی طرف سے حکومت بنانے اور چلانے کا کوئی اختیار نہیں ملا تھا۔ ہر آمر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ حکومتی امور چلانے میں عوام اور دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی خاطر‘ یہ ظاہر کرے کہ اسے عوامی نمائندوں کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔اپنی طرف سے وہ منتخب پارلیمنٹ کی طاقت‘ اے پی سی کے ذریعے حاصل کر کے‘ یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ اسے عوامی نمائندوں کی تائید حاصل ہے۔ سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ‘ ہر کسی کو عوامی نمائندگی کا حق نہیں دے سکتی۔ جمہوریت میں اس کا واحد طریقہ کار عام انتخابات ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے عوام جن کو قانون بنانے اور حکومت چلانے کا اختیار دیتے ہیں‘ انہیں ملک کے انتظامی امور چلانے اور پالیسیاں بنانے کا اختیار ہوتا ہے۔ اے پی سی کا تاریخی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غیرجمہوری طریقہ ہمیشہ ناکام ہوا۔ اس کی نہ کوئی آئینی حیثیت ہے‘ نہ اخلاقی‘ نہ قانونی اور نہ جمہوری۔ کوئی آمر ‘ اے پی سی کا سہارا لیتا ہے‘ تو وہ عوامی نمائندگی سے اپنی محرومی کو چھپانے کے لئے‘ اے پی سی کے ڈرامے رچاتا ہے اور اگر عوام کا کوئی منتخب لیڈر‘ جسے پارلیمنٹ حکومت بنانے اور چلانے کا اختیار دے دیتا ہے اور وہ پھر بھی اے پی سی بلاتا ہے‘ تو اس کا مطلب ہے کہ نہ تو اسے اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ نہ اسے اپنی پالیسیوں پر یقین ہے اور نہ اس کی قوت فیصلہ مضبوط ہے۔ اس لئے وہ آمروں کے بنائے ہوئے راستوں پر چل کر ‘ اپنی قوت فیصلہ کی کمزوری اور حکومتی امور خود چلانے سے معذوری کا اعتراف کرتے ہوئے‘ آمروں کی طرح سہارے ڈھونڈتا ہے تاکہ وہ ثابت کر سکے کہ اس کے فیصلوں کو عوام کی تائید حاصل ہے۔ حد ہو گئی۔ جسے لوگ پانچ سال تک حکومت چلانے کے لئے پارلیمنٹ میں اکثریت دے کر حکومت بنانے اور چلانے کا اختیار دیتے ہیں‘ وہ بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی آئینی ضرورت کے اپنی پالیسیاں بنانے اور فیصلے کرنے میں ان کا محتاج ہو جاتا ہے‘ جنہیں عوام نے ایسا کرنے کا اختیار ہی نہیں دیا۔ ایسے تماشے صرف پاکستان میں ہوتے ہیں۔ یہ جو کراچی آپریشن کے لئے وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ کی میٹنگیں ہو رہی ہیں‘ ان میں صرف اور صرف حکومت کے نمائندے اور انتظامیہ کے افسروں کی شرکت ضروری ہے۔ فیصلے کرنے اور احکامات جاری کرنے کا اختیار کابینہ کے پاس ہے اور عملدرآمد کی ذمہ داری سرکاری اہلکاروں کی ہے۔ مقامی ضروریات کے لئے جس جس بااثر شخصیت اور کسی عوامی گروہ یاآبادی کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے‘ تو متعلقہ افسران ان سے رابطے کرتے ہیں۔وہ ان کے خدشات اور شکوک و شبہات کو سن کر غور بھی کرتے ہیںاور موقع پر ہی فیصلہ کر کے بتا دیتے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات کو کس وجہ سے پوراکر سکتے ہیں اور کس وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ غیرمجاز لوگوں سے شکایات سن کر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرے۔ یہ گورننس نہیں‘ پنچایتوں اور جرگوں کا طریقہ کارہوتا ہے۔ جہاں نہ کوئی تحریری آئین اور قانون ہوتا ہے اور نہ ہی تقسیم اختیارات۔ سارے فیصلے روایات کی بنیادوں پر کئے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان ایک جدیددور کی ریاست ہے۔ جس میں تمام ادارے کام کر رہے ہیں۔ عوام کے منتخب کئے ہوئے ادارے موجود ہیں۔ یہاں کی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں دستو ر‘ قوانین اور انتظامی قواعد و ضوابط کے تحت ادا کرنا ہیں۔ عوام کا مینڈیٹ منتخب حکومت کو اختیارات کے ساتھ طاقت بھی دیتا ہے اور یہ باور کیاجاتا ہے کہ حکومت چلانے والوں کو اپنی طاقت استعمال کرنے کے طورطریقے بھی آتے ہیں۔ مجھے یہ بتایئے کہ کراچی میں مختلف فریقوں کو وزیراعظم کے سامنے جمع کر کے حاصل کیا کیا جا سکتا ہے؟ یہ وزیراعظم کا کام نہیں ہے کہ وہ لڑتے بھڑتے گروہوں اور عناصر کو بلا کر ان سے پوچھے کہ مجھے کیا کرنا ہے؟ یہ سب کچھ جاننے کے لئے وزیراعظم کے پاس ادارے اور انتظامی مشینری موجود ہے۔ اسے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے‘ احکامات جاری کرنا چاہئیں اور پھر انتظامیہ کے سپرد کر دینا چاہیے کہ وہ احکامات کی تعمیل کر کے نتائج حاصل کرے۔ عوامی حمایت سے محروم آمروں کے اے پی سی بلانے والے طریقے‘ عوامی حمایت سے محروم لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں۔ جمہوریت میں کسی کو ان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ عوام نے آپ کو اختیار دے دیا‘ حکومت دے دی‘ طاقت دے دی‘ اب آپ اپنا کام کریں۔ جن کو عوام نے یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ وہ آپ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوں‘ آپ انہیں کیوں اہمیت دیتے ہیں؟ اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔ وزیراطلاعات و نشریات جناب پرویزرشید نے ایک پیغام میں اطلاع دی ہے کہ وزیراعظم نے صدر زرداری کوجو الوداعی دعوت دی ہے‘ اس کے مدعوّین کی فہرست میں میرا نام نہیں تھا۔ یہ ان کی کرم فرمائی ہے کہ انہوں نے میرا نام شامل کر کے کارڈ جاری کرا دیا۔ اس احسان عظیم پر میں کیا عرض کروں؟ میں یحییٰ خان کے زمانے میں بطور صحافی اپنی پہچان بنا چکا تھا۔ اس وقت سے لے کر چند ماہ پہلے تک‘ میں ملک کے ہرانتظامی سربراہ‘ خواہ وہ صدر تھا یا وزیراعظم کی مختلف دعوتوں میں شریک ہوتا آیا ہوں اور یہ ساری دعوتیں مجھے کسی سفارش سے نہیں‘ پیشہ ورانہ حیثیت میں ملا کرتی تھیں۔ اللہ کی شان ہے کہ اب وزیراطلاعات کو میرا نام ‘ وزیراعظم کی دعوتوں میں شرکت کے لئے مدعوّین کی فہرست میں شامل کرنا پڑتا ہے۔میں اس عظیم احسان کا بارگراں اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی اگر میرٹ پر میںکسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدار کی دعوت کے شرکاء میں شامل ہونے کا اہل نہیں‘ تو مجھے سفارشی کھانوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved