مجرم تبھی بہادر ہوتے ہیں ، جب ریاست بزدل ہو جاتی ہے ۔ بزدل اور مصلحت پسند۔ ریاست کو مہربان ہونا چاہیے مگر محتاجوں ، مفلسوں اور بے کسوں پر۔ مجرموں پر رحم کی وہ کبھی متحمل نہیں ہوتی ۔ کراچی کا معاملہ اب پوری طرح واضح ہو چکا۔ یہ بحث اب غیر ضروری ہے کہ کن عوامل نے فساد کو جنم دیا۔ مباحثہ اس پر ہونا چاہیے کہ جرم کے خلاف کارروائی کے خطوط کیا ہوں ۔ منصوبہ تشکیل دینے میں مشاورت یقینا مفید ہے بلکہ ضروری ۔ کبھی کوئی ایسا شخص بھی ایک اچھا خیال پیش کر سکتاہے ، جس سے آپ زیادہ توقع نہ رکھتے ہوں۔ وزیر اعظم نے اگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا تو اچھا کیا ۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ان میں سے چار عدد بھتہ خوری میں ملوّث ہیں ۔ حل کا نہیں ، وہ مسئلے کا حصہ ہیں۔ توبہ کا دروازہ لیکن ہمیشہ کھلا رہتاہے اور اتمامِ حجّت لازمی ہے ۔ اگر کوئی اصلاح پر آمادہ ہے تو اسے موقع دیا جانا چاہیے۔ مہلت دینے کی مگر ایک حد ہوتی ہے۔ صوبے کی حکمران پارٹی خود ان جماعتوںمیں شامل ہے، جنہوںنے مسلّح گروہ تشکیل دیے ۔ نبیل گبول کا کہنا ہے کہ وہ صدر زرداری کو پیپلز امن کمیٹی کی سرپرستی سے روکتے رہے ۔ ممکن ہے ، وہ سچ بول رہے ہوں مگر ایک گروہ کو چھوڑ کر انہوںنے ویسے ہی دوسرے گروہ کو اختیار کیا۔ حیرت ہے کہ ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ آخری فیصلہ ابھی صادر نہیں ہوا۔ غیر معمولی تعجیل سے کام لینا بھی نہ چاہیے… خرابی اگرچہ جاری ہے مگر مقابلہ کسی دشمن ملک سے نہیں ، جو حملہ کرنے پر تلا ہو ۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ معاملہ رینجرز کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور انہیں مزید اختیارات دئیے جائیں گے ۔دینے چاہئیں مگر پولیس کو یکسر الگ رکھنے کا اگرفیصلہ ہے تو تعجب انگیز ہے ۔ قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ اس میں بڑے پیمانے پر سیاسی جماعتوں کے کارندے موجود ہیں مگر سب کے سب تو نہیں ۔ مشکوک لوگوں کو کارروائی سے الگ رکھا جا سکتاہے۔ صوبائی حکومت زنجیرکی سب سے کمزور کڑی ہے… بالخصوص وزیرا علیٰ قائم علی شاہ ۔ اس تجویز کو دہرانے میں شاید کوئی حرج نہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو اس باب میں جناب زرداری سے بات کرنی چاہیے۔ کیا سندھ کے لیے ایک قابلِ اعتماد اور معقول وزیرِ داخلہ کی تقرری ممکن نہیں ؟ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد زرداری صاحب کو عافیت درکار ہے۔ ان کی پوزیشن کمزور ہے اور ملک کے مفاد میں ایک معقول تجویز ان سے تسلیم کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صوبے کے چیف سیکرٹری ،آئی جی اور اعلیٰ سطح کے پولیس افسروں کا انتخاب بھی مشورے سے ہونا چاہیے۔ نیک نام بھی معلوم ہیں ، بد اور بدنام بھی ۔ صاحبانِ عمل اور ناکردہ کار بھی ۔ قائم علی شاہ بہرحال اس ٹیم کے کپتان نہیں ہو سکتے ۔ عمر‘ ان کی زیادہ ہو چکی ۔ ذہنی صلاحیت، مزاج اور اخلاقی ساکھ بھی برائے نام ہے ۔ وہ ایک مہرہ تو ہیں ، شاید بہت اچھا مہرہ مگر لیڈر قطعی نہیں ۔ اپنے طور پر وہ فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ جب کسی نے یہ کہا کہ ملک کو نصیر اللہ بابر ایسا وزیر داخلہ درکار ہے تو ٹھیک کہا لیکن نثار علی خاں بھی غنیمت ہیں۔ فرق یہ بھی ہے کہ تب مرکز اور صوبے میں ایک ہی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔ اب یہ کردار اگر وفاقی وزیرِ داخلہ کو ادا کرنا ہے تو صوبے میں ان کا رفیق ایسا شخص ہونا چاہیے، جس کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم ہوسکے ۔ پورا وقت اگر وہ کراچی کو نہ دے سکیں تو سبکدوش پولیس افسروں سے ایک یا کسی دوسرے موزوں شخص کو ان کا مشیر مقرر کیاجا سکتاہے۔ معاملات کے پسِ منظر سے جو آشنا ہو اور جرأت و جسارت سے محروم نہ ہو ۔ کل اسلام آباد میں افواہ یہ تھی کہ وزیراعظم نے ڈاکٹر شعیب سڈل سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ کم از کم اب تک رابطہ نہیں کیا گیا۔شاید ہوگا بھی نہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ موٹروے پولیس کے نیک نام آئی جی ذوالفقار چیمہ کو کراچی بھیجنے کا ارادہ ہے۔ معلوم نہیں ، چیمہ صاحب کراچی کو کتنا سمجھتے ہیں ۔ ایک بات مگر طے ہے کہ وہ انصاف اور عزم کے ساتھ بروئے کار آسکتے ہیں ۔ ان کی دیانت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا ؛ اگرچہ مشورے کی ضرورت انہیں رہے گی ۔ رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کا فون بند ملا۔ سندھ حکومت گونا گوں امراض میں مبتلا ہے ۔ صرف پولیس ہی نہیں ، گزشتہ پانچ برس کے دوران اکثر سرکاری ملازمین کا تقرر من مانی سے ہوا ۔ رشوت اور سفارش۔ ایک نہیں ،سندھ میں کئی حکومتیں کارفرما تھیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ انتظامیہ، زرداری صاحب کے خاندان اور دوستوں کے دو الگ الگ گروہ۔ کراچی کے انتہائی ذمہ د ار ذرائع یہ کہتے ہیں کہ اب اکثر فیصلے ٹپّی صاحب کی قیادت میں صادر ہوتے ہیں ۔وہی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے صوبے کو چلانے کی احمقانہ کوشش ۔ معاملے کاایک پہلو ایساہے ، جس کابرائے نام بھی ذکر نہ ہوا۔ کراچی کی شہری آبادی بے چین ہے۔ بلدیاتی نظام اس طرح تشکیل پایا ہے کہ صوبائی حکومت کے ہاتھ میں وہ مرغِ دست آموز رہے ۔ ایم کیو ایم نے اس پر احتجاج تو کیا مگر مجموعی مسئلے کے ساتھ اسے جوڑنے کی کوشش نہ کی ۔ ظاہر ہے، پیپلز پارٹی کو خطرہ ہے کہ وہ کراچی میں بلدیاتی الیکشن ہار جائے گی ۔ چھوٹا سا حصہ ملے گا۔ جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف بھی کچھ نشستیں جیت لیں گی اور ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم ان سے زیادہ ۔ دو کروڑ آبادی کے شہر کو نمائندگی سے محروم رکھ کر شہر میں امن قائم کرنے کی کوشش کبھی پوری طرح کامیاب نہ ہو گی ۔ اگر آج بھی ایم کیو ایم کو شہر میں اکثریت حاصل ہے یا وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کی مدد سے بلدیاتی ادارے چلا سکتی ہے تو کیوں اسے موقع نہ دیا جائے ؟ نا انصافی اور امن کبھی یکجا نہیں ہوتے ۔ حاصلِ کلام یہ کہ کراچی کے لیے ایک موزوں کپتان اور ضابطے پہ ڈٹ جانے والے پولیس افسروں کے بغیر ہدف حاصل نہ ہوگا۔ پولیس کا حوصلہ بلند کیے بغیر بھی نہیں اور اس کے لیے پولیس افسروں کے قاتل تلاش کرنا ہوں گے ۔ یہی وزیر اعظم کا سب سے بڑا امتحان ہے ۔ عدل یا مصلحت؟ ابھی چند دن میں فیصلہ ہوا جاتاہے ۔تضادات کے ساتھ اور یکسوئی کے بغیر ایک نیا خطرناک محاذ پرلے درجے کی حماقت ہوگی ۔ رینجرز کو زیادہ اہم کردار دیا جا سکتاہے ۔اس کا سربراہ ایک معقول اور قابلِ اعتماد آدمی ہے مگر اس کی کالی بھیڑوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔ پولیس کو یکسر الگ کر کے کوئی منصوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ وفاقی ادارے صوبے کی مدد کریں اور ہدف اسے دے دیا جائے کہ مدتِ مقررہ میں اوّل بھتہ خوری ، پھر اغوا برائے تاوان اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں ٹارگٹ کلنگ سمیت تمام مسئلے وہ حل کرے۔ وگرنہ صوبائی حکومت سے نجات کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ خلط مبحث جاری ہے ۔ کچھ دانستہ ، کچھ نادانستہ ۔ بے شک شہر کے طالبان بھی غیر معمولی خرابی کا بہت تکلیف دہ اور المناک حصہ ہیں اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے بھی ۔ بنیادی مسئلہ مگر سیاسی جماعتوں کے مسلّح لشکر ہیں اور وہ پولیس جسے حکمران پارٹیوں نے برباد کر دیا۔ اگر ان سے نجات پا لی گئی تو طالبان اورفرقہ پرست بھی کمزور ہوں گے اور نسبتاً آسانی کے ساتھ ان سے نمٹ لیا جائے گا۔ منشیات مافیا اور زمینوں پر قبضہ جمانے والوں سے بھی ۔ مجرم تبھی بہادر ہوتے ہیں ، جب ریاست بزدل ہو جاتی ہے ۔ بزدل اور مصلحت پسند۔ ریاست کو مہربان ہونا چاہیے مگر محتاجوں ، مفلسوں اور بے کسوں پر۔ مجرموں پر رحم کی وہ کبھی متحمل نہیں ہوتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved