تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     10-12-2022

ہم کس کی اولاد کس کے جانشین ہیں؟

یہ سوال اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ بحیثیت ِقوم ہم میں کوئی خاندانی چیز نظر آتی نہیں۔ خاندانی لوگ ہوں تو کچھ اقدار ہوتی ہیں‘ ساری کی ساری اعلیٰ روایات نہ ہوں‘ کچھ تو ہوتی ہیں۔ خواہ مخواہ کی بُری بات نہیں کرنا چاہتے لیکن کوئی بتائے تو سہی کہ بحیثیت قوم ہماری اقدار کیا ہیں؟ کیا چوری چکاری کو بُرا سمجھا جاتا ہے؟ فریب اور دھوکا دہی کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا جھوٹ بولنے والوں کو ہم بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ یہاں تو کام الٹا ہے۔ جتنا بڑا فراڈیا اتنا بڑا نیتا۔ جتنا بڑا ڈاکہ اُسی حساب سے معاشرے میں عزت۔
ہمیں اپنی پستی کا بخوبی علم ہے‘ کوشش محض اتنی ہے کہ پستی کے اسباب معلوم کیے جائیں۔ اسی لیے جاننا چاہتے ہیں کہ ہم جانشین کس کے ہیں‘ کون ہمارے جدِ امجد تھے جن کی بڑائی کے عَلم ہم گاڑنے کی کوشش کررہے ہیں؟ تاریخ کا مطالعہ زیادہ نہیں ہے لیکن جو تھوڑا بہت پڑھا‘ اُس سے یہ سمجھ آتی ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں ہم مسلمانوں کی بری حالت تھی۔ دورِ عروج ہمارا جا چکا تھا اور ہم زوال پذیر تھے۔ مغلیہ سلطنت دہلی تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ لال قلعے میں مشاعرے ہوتے تھے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مغلیہ سلطنت میں سب سے امیر صوبہ بنگال تھا اور اُس پر انگریزوں کا پہلے ہی قبضہ ہو چکا تھا۔ اَودھ میں انگریز آچکے تھے اور جو آخر کے مغل بادشاہ تھے وہ اُن کے وظیفہ خوار تھے۔ شاہ عالم دوم مغل بادشاہ تھے تو اگلوں نے اُن کی آنکھیں تک نکال لی تھیں۔ افغانستان کب کا مغل تسلط سے جا چکا تھا۔ پنجاب پر سکھوں کی حکمرانی تھی اور یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب میں گو اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن سکھ سلطنت کے خلاف کوئی مسلمان انگلی نہ اٹھی۔ جنوبی ہندوستان میں ٹیپو سلطان انگریزوں کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے۔ نظام حیدر آباد نے انگریزوں سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ مرہٹوں نے پہلے تو مسلمانوں کا جینا حرام کیا اور پھر اُنہوں نے بھی انگریز کی عظمت کو تسلیم کر لیا۔
مسلمانانِ ہندکو سانس لینے کا تب موقع ملا جب انگریز بادشاہت ہندوستان پر قائم ہو گئی۔ مسلمانانِ پنجاب کو سکھوں سے نجات انگریز حاکمیت کی وجہ سے ملی نہیں تو سکھا شاہی کے سامنے مسلمانانِ پنجاب بے بس تھے۔ برطانیہ کا راج مضبوط بنیادوں پر قائم ہوا تو مسلمانانِ ہند کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اُنہوں نے انگریز کے خلاف کبھی آواز نہ اٹھائی۔ انڈین قومیت یا نیشنل ازم کی شروعات ہندوؤں نے کی‘ مسلمانوں کا اُس میں کوئی حصہ نہ تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس کی داغ بیل تو ایک انگریز نے ڈالی اور ظاہر ہے جب اس نئی نویلی تنظیم نے زور پکڑنا شروع کیا تو اس کی قیادت ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی۔ مسلمانوں نے بہت بعد میں انگڑائی لی اور جب لی بھی تو اُن کی آواز انگریزوں کے خلاف نہ اٹھی۔ ہمارے پیشرو بڑے مؤدبانہ طریقے سے وائسرائے ہند لارڈ منٹو کے حضور میں پیش ہوئے اور اُن کا مدعا آزادی کے لیے نہ تھا بلکہ صرف اس حد تک تھی کہ حضورِ والا ہماری جداگانہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور ہمیں ہندوؤں کے برابر سمجھا جائے۔ آزادی کی تحریکیں انڈین نیشنل کانگریس نے چلائیں۔ مسلم لیگ کے پرچم تلے علیحدہ ملک کا مطالبہ ہوا تو وہ انگریزوں سے تھا کہ دیکھئے ہر لحاظ سے ہم ہندوؤں سے مختلف ہیں اور ہماری جداگانہ حیثیت تسلیم ہونی چاہئے۔ یہ تلخ حقائق ہیں اور یقینا بہت سے لوگوں کو اچھے نہ لگیں کیونکہ ہمیں اپنی بہادری پر ہمیشہ ناز رہا ہے۔ لیکن کیا کریں تاریخ میں یہی کچھ لکھا ہے۔ ہاں فرضی کہانیاں گھڑنی ہوں تو ہمیں کون روک سکتا ہے۔
تاریخ کی کڑیاں جوڑی جائیں تو مسلمانانِ ہند ایک ایسی قوم کے جانشین تھے جو انگریزوں کے آنے کے وقت زوال کے اندھیروں میں جا چکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیسویں صدی کے شروع ہونے سے لے کر پاکستان کے معرضِ وجو دمیں آنے تک جو مسلمان قوم ہندوستان میں بستی تھی اُس میں پرانی عظمت کی نشانیاں مٹ چکی تھیں۔ یہ کوئی اتنی پریشان کن صورتحال نہ تھی۔ اسرائیل بھی تقریباً ہمارے ساتھ معرضِ وجود میں آیا۔ بالکل نئی ریاست تھی‘ اُس میں کون سے عظمت کے نشان تھے؟ انقلابِ چین پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے دو سال بعد کامیاب ہوا۔ چینی تہذیب اور چینی ریاستوں نے عظمت کے عروج دیکھے تھے لیکن انقلابِ چین سے جو سو سال پہلے تھے‘ اُسے آج تک غلامی کی صدی کا نام دیا جاتا ہے۔ اسرائیل کا وجود مغربی طاقتوں کی مہربانی سے ہوا تھا۔ یعنی وہ ایک طفیلی ریاست تھی لیکن اسرائیل کے عوام نے اپنا لوہا منوایا اور ایک مضبوط ریاست کا قیام ممکن بنایا۔ آج مشرقِ وسطیٰ میں سب سے مضبوط ریاست اسرائیل ہے۔ انقلابِ چین سے پہلے چینی قوم کو افیون استعمال کرنے والی قوم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آج کا چین سپرپاور بن چکا ہے۔ انیسویں صدی میں ترکی کو یورپ کا بیمار آدمی (sick man of Europe) کہا جاتا تھا۔ شکست و ریخت کے بیچ میں سے مصطفی کمال نے پھر ایک نئی ریاست کی بنیاد ڈالی۔ جن قوموں کی مثال دی جا رہی ہے ان کے مانند یہاں بھی بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ ہماری ماضی میں کوئی عظمت تھی تو وہ ختم ہو چکی تھی۔ انگریزوں کے محکوم ہو گئے تھے اور انگریز نہ آتے تو ہندوؤں نے تو ہندوستان کا بٹوارہ نہیں کرنا تھا۔ لیکن جب ایک ملک مل گیا تو کیا امر مانع تھا کہ یہ ایک مضبوط اور باوقار ملک نہ بنتا؟ لیکن ہم نے اس ملک کے ساتھ وہ کیا جو گداگر اپنے اثاثوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
کیا عجیب بات ہے کہ ہم نے دفاع تو بلا شبہ مضبوط کیا لیکن باقی ہم سے کچھ چلایا نہ جا سکا۔ ریل گاڑیاں ہم سے نہیں چلتیں‘ ہوائی جہاز نہیں چلتے۔ روسیوں نے ایک سٹیل مل دی وہ ہم سے نہ چلی۔ ملک اکٹھا نہ رکھا جا سکا۔ جنگیں ایسی شروع کیں جن کے اسباب آج تک سمجھ نہیں آتے کہ کیوں شروع کی گئیں۔ ایک کشکول ہمارا مضبوط تھا وہ بھی بیکار ثابت ہو رہا ہے۔ ہماری شکلوں سے کسی نے کیا اُکتانا تھا‘ ہمارے کشکول سے دوست بھی اُکتا چکے ہیں۔ اسی لیے سوال اٹھایا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں‘ ہمارا آگا‘ پیچھا کیا ہے؟ یہودی اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ ہزاروں سال ہم بے وسیلہ رہے۔ لیکن ہم جنہوں نے پاکستان کا تماشا بنایا ہے‘ ہم کن ویرانوں میں بھٹکتے ہوئے کاروان کے مسافر ہیں؟ بائیس کروڑ آبادی ہے جو خدا کی زمین پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ خدا نے زمین دی ہے‘ اسرائیل سے کہیں زیادہ۔ دریا دیے ہیں اسرائیل سے بہت زیادہ۔ آب و ہوا عطا کی ہے لیکن باصلاحیت قوم کو دیکھیں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں خودکفیل نہیں۔ بس فضول کے نعرے ہیں اور بیکار کے خیالات جنہیں نظریات کا نام دیا جاتا ہے۔
ہر معاشرے میں ایسے خاندان ہوتے ہیں جن کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے وہ ہر چیز کو تیلی لگا دیتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ جیسے بھی تھا ایک ملک مل گیا گو جتنی آبادی یہاں کی تھی اتنے ہی مسلمان ہم پیچھے ہندوستان میں چھوڑ آئے اور آج ہم روتے ہیں کہ دیکھیں ہندو انتہاپسند اُن مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ ہم جو اُن کو چھوڑ کر آ گئے تو وہاں انتہا پسندی کا راج ہی ہونا تھا۔ اتنی بات تو ہماری سمجھ میں آنی چاہئے۔ بہرحال ملک جب ملا اُسے ڈھنگ سے چلاتے۔ دنیا میں کچھ تو ہماری عزت ہوتی‘ کچھ تو ہم عزت کماتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved