ایران کا قصہ بھی بڑا عجیب ہے۔ وہاں جو موجودہ حالات ہیں‘ اس کہانی کا آغاز ایک بائیس سالہ لڑکی مہسا امینی کے درست طریقے سے حجاب نہ پہننے سے ہوا۔ اُس نوجوان لڑکی نے حجاب تو پہن رکھا تھا مگر یہ حجاب اہلِ حَکم کی ہدایات کے مطابق نہیں تھا۔ اہلِ حکم کے مطابق درست طریقے سے حجاب نہ پہننے کے جرم میں مہسا امینی کو ایران کی اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا اور پھر پولیس حراست میں ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت پر ایرانی عوام کا ایک غیرمتوقع رد ِعمل سامنے آیا۔ عوام نے کھل کر حکومت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔ ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ سرکاری حکم ناموں کے بائیکاٹ ہوئے۔ سرکاری ملازمین اور مزدوروں نے ملک گیر ہڑتالیں کیں۔ پورے ملک میں ایک ہیجان کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ہر روز ہنگامے برپا ہونے لگے‘ جو بڑھتے بڑھتے سو سے زائد شہروں میں پھیل گئے۔ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے خلاف ہونے والے مظاہروں نے ایرانی خواتین اور نوجوانوں کے اُس غصے کو مزید ہوا دی جو اُن کے اندر اپنی نجی زندگیوں میں حکمران اشرافیہ کی مداخلت کی وجہ سے بھرا پڑا تھا۔
ایرانیوں کے لیے یہ کوئی نئی صورتحال نہیں تھی۔ ایران کا موجودہ نظام جس انقلاب کے بعد وجود میں آیا تھا اُس انقلاب کو تنتالیس برس بیت چکے ہیں۔ بہت سے ایرانیوں کا خیال ہے کہ انقلابِ ایران کے بعد حکمران اشرافیہ نے خواتین کو شریعت اور آئین کے نام پر دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت دے دی تھی لیکن ایرانی خواتین‘ بالخصوص نوجوان خواتین نے اس صورتحال کو کبھی پورے طریقے سے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی روز مرہ زندگی میں ریاست کی طرف سے عائد حجاب پہننے کی شرط کو کئی طریقوں سے مسترد کرنے کا عمل جاری رکھا۔ یہاں تک کے مختلف احتجاجوں کے دوران خواتین کی طرف سے اپنے سکارف جلائے بھی گئے۔ حکمران اشرافیہ کے نزدیک یہ ایک ایسا عمل تھا‘ جس کی سزا کوڑے اور جیل تھی اور یہ سزائیں بڑے تسلسل سے سنائی بھی جاتی رہیں‘ لیکن یہ سزائیں بھی ایرانی خواتین کو اپنے حقوق کی بات کرنے سے نہ روک سکیں۔ یہ سزائیں ان کی جدوجہد اور طرزِ زندگی کے انتخاب کی خواہش کو ختم نہ کر سکیں۔ البتہ اس کی وجہ سے حکمران اشرافیہ کے خلاف ان کے غصے اور نفرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
1979ء کے انقلاب کے بعد حکمران اشرافیہ نے اعلان کیا تھا کہ اب سے ایران ایک نظریاتی ملک ہے۔ یہ نظریہ کئی ستونوں پر کھڑا ہے۔ ان ستونوں میں امریکہ دشمنی اور اسرائیل دشمنی اہم ترین ستون ہیں‘ مگر سب سے اہم ترین ستون ایران کا نیا سماجی نظام ہے‘ جس کی بنیاد حجاب پر کھڑی ہے اور جس کے تحت خواتین کے لیے عوامی مقامات پر اپنے سراور جسم کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ خواتین کے لیے ڈریس کوڈ کا نفاذ انقلاب کی کامیابی کی ایک علامت قرار دیا گیا۔ حجاب پہننا اسلامی جمہوریہ میں لازم ٹھہرا۔ حجاب کے لازمی قوانین کو اسلامی جمہوریہ کے شہریوں نے اپنی شخصی آزادیوں کے برعکس قرار دیا جبکہ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ نے انقلاب کے فوراً بعد خواتین پر ڈریس کوڈ نافذ کرنا انقلاب کی کامیابی کی علامت قرار دیا جس کے بعد انقلابی ریاست کے رہنماؤں نے اس بات کو یقینی بھی بنایا کہ ایرانی خواتین ذاتی پسند کا نہیں بلکہ ریاست کا طے کردہ لباس ہی پہنیں۔ خواتین کے لیے چست کپڑوںاور چمکدار رنگوں اور میک اَپ پر پابندی لگا دی گئی۔ خواتین کو اپنے بالوں کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا۔ ایران کے اندر خواتین کے لیے پردے کے جو قوانین بنائے گئے اُن کے تحت سات سال سے زائد عمر کی بچیوں کے لیے سکارف پہننا لازمی قرار دیا گیا۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس صورتحال پر کئی مغربی اور ایرانی دانشور اپنے مختلف مضامین میں لکھ چکے ہیں کہ ایرانی خواتین نے حجاب کی پابندی کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ صرف 2014ء میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ایران کی اخلاقیات نافذ کرنے والی پولیس نے 36 لاکھ خواتین کو ''نامناسب لباس‘‘ کی وجہ سے خبردار کیا‘ جرمانہ کیا یا گرفتار کیا۔
گوکہ ایران میں حالیہ ہنگامے مہسا امینی کی موت سے شروع ہوئے لیکن اس سے پہلے ہی ایران میں حجاب کے خلاف بڑھتی ہوئے لہر کو محسوس کیا جا چکا تھا۔ جولائی 2022ء کے اوائل میں ایران کی اخلاقی پولیس نے ملک کی خواتین کو انتباہ جاری کیا کہ اگر انہوں نے حجاب کے قوانین پر عمل نہیں کیا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے بعد کئی خواتین کو گرفتار کیا گیا‘ حراست میں رکھا گیا اور کچھ نے حجاب کے قوانین کی خلاف ورزی پر قومی ٹی وی پر معافی بھی مانگی۔ سب ویز اور موٹر ویز جیسے عوامی مقامات پر نگرانی کے کیمرے نصب کیے گئے تاکہ حجاب کے لازمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی شناخت اور ان پر جرمانہ عائد کیا جا سکے۔ رواں سال کے آغاز سے ہی حکام بار بار خبردار کر رہے تھے کہ جو خواتین بغیر حجاب کے اپنی تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کرتی ہیں‘ انہیں چھ ماہ سے ایک سال تک کچھ سماجی حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد حکام نے اُن خواتین کے سرکاری دفاتر اور بینکوں میں داخلے اور عوامی ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی جو ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی تھیں لیکن ان اقدامات سے بھی ایرانی خواتین کی مزاحمت میں کوئی کمی نہ آ سکی۔
گزشتہ ایک دہائی سے ایران کی حکمران اشرافیہ کے خلاف خواتین سوشل میڈیا پر مختلف مہمات چلا رہی ہیں۔ روایتی میڈیا کے بجائے ایرانی سوشل میڈیا‘ خاص طور پر فیس بک‘ انسٹاگرام‘ ٹیلی گرام‘ ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز پر مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لاکھوں افراد نے سوشل میڈیا پر چلنے والی اُس مہم کا اثر محسوس کیا‘ جو ایران میں حجاب کے قوانین کے خلاف ہو رہی ہے۔ اِن مہمات میں حکومت کی طرف سے تفویض کردہ حجاب کے بجائے سفید نقاب پہننا‘ چہل قدمی کے دوران حجاب نہ پہننا‘ حجاب میں مردوں کی تصاویر اور میرا کیمرہ‘ میرا ہتھیار جیسی مہمات شامل ہیں۔ ان مہمات نے خواتین کو حکومت کے خلاف مزاحمت کی مہمیز کیا۔ ان مہمات کے جواب میں حکومت نے 2019ء میں ایک قانون متعارف کرایا جس کے تحت خواتین کی حجاب کے بغیر والی وڈیوز شیئر کرنا بھی جرم قرار دیا گیا‘ جس کی سزا دس سال قید ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے ایک ایسی نوجوان نسل کو کنٹرول کرنے کی کوشش تھی‘ جو سماجی تبدیلی چاہتی ہے لیکن ایسا مشکل تھا کہ وسیع پیمانے پر سنسر شپ کے باوجود‘ 2022ء کے آغاز میں ایران میں انٹرنیٹ کی رسائی کی شرح اسی فیصد تھی‘ جو ایک بلند شرح ہے۔ اگرچہ بہت سی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی گئی لیکن ایرانیوں نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس یا وی پی این کے استعمال کے ذریعے سنسر شپ سے بچنے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ تک رسائی کے حامل تقریباً 80فیصد ایرانیوں نے سنسر شپ سے بچنے کے لیے اینٹی فلٹر اور وی پی این سافٹ ویئر انسٹال کر رکھا ہے۔ ان حالات کے باوجود اہلِ حکم کو نوشتہ دیوار نظر نہیں آ رہا تھا لیکن مہسا امینی کی موت کے بعد ایک طویل لڑائی کے نتیجے میں بالآخر انہوں نے اپنی شکست تسلیم کی اور اخلاقیات کا نفاذ کرنے والی پولیس کے خاتمے کا اعلان کیا‘ جو ایران کی اس نئی نسل کی فتح ہے‘ جو اپنی پسند کے طرزِ زندگی اور شہری آزادیوں کی لڑائی لڑ رہی تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved