دُکھی انسانیت کا مل کر ہاتھ تھامنا ہوگا: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دُکھی انسانیت کا مل کر ہاتھ تھامنا ہوگا‘‘ تاہم اس کا کھوج لگانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے دُکھی ہونے کی اصل وجہ کیا ہے اور یہ کن کے کارناموں کی وجہ سے اس نوبت کو پہنچی ہے کیونکہ اُن کا مقصد بھی انسانیت کو زیادہ دُکھی کرنا نہیں تھا اور وہ ایمانداری سے سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا مقصد انسانیت کو دُکھی کرنا نہیں بلکہ وہ خود بہت دکھی تھے اور اپنے آپ کو سکھی کرنا چاہتے تھے جو ہر ایک کا بنیادی حق بھی ہے اور یہ محض اتفاق ہے کہ وہ اتنے زیادہ سکھی ہو گئے کہ باقی انسانیت کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
جمہوری نظام اور روایات کے تسلسل ہی
سے پائیدار ترقی ممکن ہے: بلاول بھٹو
وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوری نظام اور روایات کے تسلسل ہی سے پائیدار ترقی ممکن ہے‘‘ اور ان روایات کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے جس کے نتیجے میں وہ پائیدار ترقی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور جس کے ثبوت اندرون و بیرونِ ملک بے شمار اثاثوں کی شکل میں بکھرے پڑے ہیں اور جن میں سے کچھ نظر بھی آ رہے ہیں اور جونہی اس کام سے فارغ ہوتے ہیں‘ سندھ کی ترقی کا کام بھی شروع کر دیں گے اور کراچی و دیگر شہروں کو حسبِ وعدہ پیرس بنا دیں گے اور چونکہ ہمارے ہاں بیشتر لوگوں نے پیرس کبھی دیکھا ہی نہیں ہے‘ اس لیے ان کی واحد تمنا اس شہر کو دیکھنا ہے۔ آپ اگلے روز انڈونیشیا کے جزیرے بالی سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ملک تیزی سے معاشی دلدل
میں پھنستا جا رہا ہے: اختر ملک
پنجاب کے وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر اختر ملک نے کہا ہے کہ ''ملک تیزی سے معاشی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے‘‘ اور بہتر ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ دلدل سے نکلنے کی اگر کوشش کی جائے تو بندہ اس میں مزید دھنستا چلا جاتا ہے اور یہی دلدلوں کی سب سے خطرناک بات ہے جس سے بہر صورت احتراز کرنا چاہیے کیونکہ اگر ہم خطرناک چیزوں سے پرہیز نہیں کریں گے تو اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیں گے، نیز ملک کی دوسری بڑی دلدل اخلاقی ہے جس میں یہ پہلے ہی گوڈے گوڈے دھنس چکا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ بھی قابلِ گرفت ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
حیران ہوں‘ سات ماہ حکومت کے باوجود
ہم دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حیران ہوں‘ سات ماہ حکومت کے باوجود ہم دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں‘‘ اور حیرت اس بات پر ہے کہ یہ کام تو بہت پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھا لیکن چونکہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس سے آگے پیچھے نہیں ہوا جا سکتا، اس لیے یہ دیر آید درست آید کے مصداق ہے اور اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ ایسے اور بہت سے کاموں اور ان کے نتائج سے کبھی پریشان نہیں ہوئے جبکہ ویسے بھی قدرت کی منشا کے قائل ہیں اور اس سے انحراف نہیں کر سکتے‘ بھلے دنیا کچھ بھی کیوں نہ کہتی رہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
سوچ سمجھ کر فیصلہ نہ کرنا طلاق
کی بڑی وجہ ہے: شان شاہد
فلم سٹار شان شاہد نے کہا ہے کہ ''سوچ سمجھ کر فیصلہ نہ کرنا طلاق کی بڑی وجہ ہے‘‘ اور جوڑے میں مطابقت اور اعتماد بہت ضروری ہے لیکن ہم سوچے سمجھے بغیر ہی شادی کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ اکثر طلاق کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ شادی سے پہلے جوڑے مطابقت اور اعتماد کی فضا قائم کرنے کی کوشش کریں، بیشک اس میں کئی سال لگ جائیں جبکہ طلاق پانے سے بنا شادی کے بوڑھا ہونا زیادہ بہتر ہے لیکن اس سلسلے میں فکر مندی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ شوبز میں رہ کر انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جائے تو بوڑھا لگتا بالکل نہیں‘ بیشک مطابقت پیدا کرنے میں پوری عمر ہی کیوں نہ لگ جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
دل میں تھی اور نہ جانی تھی نہ پہچانی تھی
کوئی یکسوئی تھی وہ یا کہ پریشانی تھی
مسئلہ پھر بھی رہا کوئی کمی بیشی کا
نہ کمی تھی نہ کس شے کی فراوانی تھی
گھر میں بیٹھا رہا‘ چل کر نہ دیا ایک قدم
اس لیے بھی کہ طبیعت مری سیلانی تھی
کام جو خود ہی کہیں جا کے ہوا ہے‘ اُس پر
میں بھی حیران تھا‘ اُس کو بھی پشیمانی تھی
کچھ ملا بھی تو یہاں سے ہی ملے گا شاید
اپنا ہی فرش تھا اور اپنی ہی پیشانی تھی
یہی معلوم ہوا کوششِ بسیار کے بعد
کہ ہر اک طرح سے مشکل میں ہی آسانی تھی
گھر بدلنے میں بھلا دیر بھی لگتی کیسے
سرو سامان ہی یہ بے سرو سامانی تھی
آنسوؤں کی برکت سے ہی کھلے پھول یہاں
اس لیے بھی کہ مری خاک ہی بارانی تھی
دھوپ تھی کوئی وہاں اور زیادہ کہ ظفرؔ
بادلوں نے جہاں چادر سی کوئی تانی تھی
آج کا مطلع
ہمارے سر سے وہ طوفاں کہیں گزر گئے ہیں
چڑھے ہوئے تھے جو دریا سبھی اتر گئے ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved