جب تک زندگی ہے تب تک رابطے ہیں۔ رابطوں کے بغیر زندگی ادھوری اور بے معنی ہے۔ کوئی بھی انسان ربطِ پیہم کے بغیر جی نہیں سکتا۔ تنِ تنہا کچھ زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں قدم قدم پر دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور دوسروں کو بھی ہماری ضرورت پڑتی ہے۔ اِسے محتاجی نہیں کہا جاسکتا۔ ہم میں سے کوئی کسی کا محتاج نہیں۔ سب اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور دوسروں کی مدد سے اپنی زندگی کا معیار برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم کسی سے مدد لیتے ہیں اور کوئی ہم سے۔ زندگی کا سفر یونہی جاری رہتا ہے۔ اِس طور جینے سے اشتراکِ عمل کی راہ ہموار رہتی ہے۔ اشتراکِ عمل یعنی مل جل کر کام کرنا۔ جب سبھی کے ذہنوں میں یہ نکتہ نمایاں مقام پر رہے کہ مل کر جینا ہے، مل جل کر کام کرنا ہے تب وسیع تر مفہوم میں زندگی حقیقی پختگی سے ہم کنار ہوتی ہے اور ہم اِس دنیا کو کچھ دینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اشتراکِ عمل یعنی ٹیم ورک؛ اور ٹیم ورک مؤثر ابلاغ کے بغیر کبھی زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتا۔
زندگی کا حسن ربطِ پیہم میں ہے۔ تنہا جینے کی صورت میں انسان اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ اشتراکِ عمل وہ طریق ہے جسے اپنانے سے ہم اپنی صلاحیت و سکت سے کماحقہٗ مستفید ہو پاتے ہیں اور دوسرے بھی ہم سے کسی حد تک مستفید ہوتے ہیں۔ معیاری رابطے اُسی وقت ممکن ہو پاتے ہیں جب ابلاغ معیاری ہوتا ہے۔ ابلاغ یعنی بات کو جامع ترین انداز سے وہاں تک پہنچانا جہاں تک اُسے پہنچنا چاہیے۔ رابطوں میں ابلاغ کا معیار بلند رہے تو بات آسانی سے دوسروں تک پہنچتی ہے اور دوسروں کی بات بھی ڈھنگ سے سنی اور سمجھی جاسکتی ہے۔ ابلاغ کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ کوئی بھی بات تحریری طور پر بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کی جاسکتی ہے۔ فی زمانہ سمارٹ فون کے ذریعے بھی بہت کچھ بہت تیزی سے اور قطعیت کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ فریقِ ثانی بات سمجھ لے اور اپنی بات سمجھا بھی دے۔
ابلاغ اور اُس سے متعلق امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے ابلاغ کا معیار بلند کرنا لازم ہے۔ کسی بھی معاملے میں جو کچھ بھی ہمارے ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے وہ متعلقہ فرد یا افراد تک پہنچانا لازم ہے۔ ایسا کرنے سے معاملات کو سلجھانے اور اشتراکِ عمل یقینی بنانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ابلاغ میں پائی جانے والی خامی معاملات کو بگاڑتی ہے اور تعلقات میں بگاڑ کا باعث بھی بنتی ہے۔ ابلاغ کا اعلیٰ معیار بات کو اُسی طور سمجھنے میں مدد دیتا ہے جس طور وہ سمجھی جانی چاہیے۔ کامیاب کاروباری اداروں میں ابلاغ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اختیارات اور فرائض‘ دونوں ہی معاملات میں ابلاغ کا معیار بلند رکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی مرحلے پر کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔ ابلاغ میں رہ جانے والی خامی، کمی یا کمزوری ابہام پیدا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں بات کو کچھ سے کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تب کام میں خلل واقع ہوتا ہے۔
زندگی رابطوں سے اُستوار ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی ابلاغ کی حد سے باہر نہیں۔ ہمیں مستقل بنیاد پر کسی کو کچھ بتانا ہوتا ہے اور کسی سے کچھ جاننا ہوتا ہے۔ یہ یومیہ عمل ہے۔ بیداری کی حالت میں ہم دن بھر ابلاغ میں مصروف رہتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہم کسی کو بتاتے ہیں وہ بالکل واضح ہونا چاہیے یعنی ابلاغ میں کہیں کوئی خامی نہیں رہنی چاہیے۔ دوسری طرف ہمیں جو کچھ سننے، پڑھنے کو ملتا ہے وہ بھی بالکل واضح ہونا چاہیے۔ یہ ابلاغ ہی تو ہے جس کی بدولت کوئی بھی کاروباری ادارہ تیزی سے پنپتا ہے اور متعلقین دل لگاکر کام کرتے ہیں۔ آجر جو کچھ چاہتا ہے وہ بالکل واضح طور پر بیان کیا جانا چاہیے اور ملازمین بھی اپنی ضرورت کا بہترین انداز سے ابلاغ یقینی بنائیں تاکہ آجر کو معلوم ہوسکے کہ خرابی اگر واقع ہوئی ہے تو کہاں واقع ہوئی ہے اور اُس خرابی کو کیونکر دور کیا جاسکتا ہے۔ ہر انسان کو دوسروں سے رابطہ رکھنا ہی پڑتا ہے کیونکہ ایسا کیے بغیر کام ہو ہی نہیں پاتا۔ یہ دنیا ہے ہی ایسی کہ کوئی الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ الگ تھلگ رہنے کی کچھ خاص ضرورت بھی نہیں۔ انسانوں کو اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ اچھائیوں کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں‘ مل جل کر رہیں۔ مل جل کر رہنا ہو تو ابلاغ ناگزیر ہے اور ابلاغ بھی وہ جو غیر مبہم ہو۔ جامع ابلاغ انسان کا کام آسان کردیتا ہے۔
ابلاغ کی مختلف پرتیں ہیں۔ ایک ابلاغ تو وہ ہے جو ایک انسان کا دوسرے انسان سے ہوتا ہے۔ یہ ابلاغ انتہائی معیاری ہونا چاہیے؛ تاہم ہم ابلاغ سے متعلق بحث میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انسان کا اپنے وجود سے بھی جامع ابلاغ لازم ہے۔ اپنے وجود سے ابلاغ! یہ کیا بات ہوئی؟ قصہ یہ ہے کہ ہر انسان صرف دوسروں ہی سے نہیں کوئی بات کہتا اور سنتا‘بلکہ اپنے وجود سے بھی بات کرتا ہے، اُسے بھی بہت کچھ سناتا ہے اور اُس سے رائے بھی طلب کرتا ہے۔ کیا آپ اپنے وجود سے بات نہیں کرتے؟ تنہائی میں ہم جب بظاہر سوچ رہے ہوتے ہیں تب کیا ہو رہا ہوتا ہے؟ اپنے آپ سے بات ہی تو ہو رہی ہوتی ہے۔ اس طرح کے ابلاغ کا بھی معیاری ہونا لازم ہے۔ اپنے وجود سے ابلاغ کا مطلب ہے اپنے لیے کسی مقصد یا ہدف کا تعین کرنے کے بعد اُس پر پوری طرح متوجہ ہونا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی طور اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ کسی بھی ہدف یا مقصد کا حصول یقینی بنانے کی خاطر کی جانے والی محنت کی راہ ہموار کرنے میں اپنے وجود سے ابلاغ کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کو وہی کچھ مل پاتا ہے جس کی وہ شدید خواہش رکھتا ہے اور پوری توجہ سے اُس کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ قدرت کا ایک لافانی اصول یہ ہے کہ آپ اگر اپنے وجود سے ابلاغ برقرار رکھیں گے اور اس معاملے میں پوری دیانت اور جاں فشانی کا مظاہرہ کریں گے تو جلد یا بدیر آپ کے معاملات درست ہوتے جائیں گے اور لوگ آپ پر متوجہ ہونے لگیں گے۔ اپنے وجود سے ابلاغ دکھائی دینے والی بات ہے۔ جو لوگ اپنے مقصد یا ہدف پر بھرپور توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور اپنے آپ سے پوری طرح رابطے میں رہتے ہیں وہ اپنے ماحول میں سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ لوگ دھیرے دھیرے اس بڑی اور نمایاں تبدیلی کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ماحول کو تازہ دم بلکہ تر و تازہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابلاغ محض جامع نہ ہو بلکہ نکھرا نکھرا، کِھلا کِھلا بھی ہو۔ ہم یومیہ بنیاد پر جو کچھ کہتے اور سنتے ہیں اُس سے ہمارے معاملات غیر معمولی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ ابلاغ کا معیار بلند ہو تو زندگی آسان ہوتی جاتی ہے۔ کچھ بھی کہنے سے پہلے تھوڑا بہت غور و خوض ناگزیر ہے کیونکہ ایسا کرنے سے معاملات کو بگڑنے سے روکا جاسکتا ہے اور بگڑے ہوئے معاملات کو درست کیا جاسکتا ہے، سنوارا جاسکتا ہے۔ غور و خوض کے بعد لب کُشائی سے ابلاغ مکمل ہی نہیں ہوتا بلکہ اضافی خوش گوار نتائج مرتب کرنے میں بھی ہماری مدد کرتا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس سے جو کچھ بھی کہا جائے ڈھنگ سے کہا جائے۔ ابلاغ جامع ہونے کے ساتھ ساتھ شائستہ بھی ہو تو بہتر نتائج کا حصول ممکن ہی نہیں، آسان بھی ہو جاتا ہے۔ بہتر اشتراکِ عمل یقینی بنانے کے لیے پہلے مرحلے میں جامع اور معیاری ابلاغ یقینی بنانا پڑتا ہے۔ آپ اگر کسی سے کوئی کام لینا چاہتے ہیں تو اُسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ بھی آپ پر واضح کردے کہ وہ آپ کے لیے کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا۔ اِس مرحلے سے کامیاب گزرنے کی صورت میں تمام متعلقہ افعال آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ابلاغ کا اعلیٰ معیار صرف عملی زندگی کے لیے نہیں بلکہ حصولِ علم کے زمانے کے لیے بھی لازم ہے۔ اچھا طالبِ علم وہ ہے جو امتحانی کاپی میں اپنی بات ڈھنگ سے بیان کرے یعنی کسی بھی سوال کے جواب میں ابلاغ کا اعلیٰ معیار یقینی بنائے۔ یوں وہ اپنی علمیت اور معلومات کا تعارف بہتر طور پر کراسکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved