محترمہ نجمہ حمید کا تعلق اگرچہ مسلم لیگ(ن) سے تھا تاہم ہر سیاسی جماعت کے رہنما اور کارکن اُن کا احترام کرتے تھے۔سب اُنہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور وہ بھی دوسروں کو عزت دے کر خوش ہوتیں۔برسوں پہلے سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں مکان بنوایا تھا‘ آخری دم تک وہیں رہائش پذیر ر ہیں۔گھر بدلا‘ جماعت بدلی‘ نہ نظریات بدلے۔ جس راستے کا انتخاب اول روز کیا تھا‘ آخری دم تک اُسی پر جمی رہیں۔بلدیاتی کونسلر بنیں‘ صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں‘وزارت پر فائر ہوئیں‘ بارہ سال تک سینیٹ میں رونق افروز رہیں لیکن اُن کی پہلی محبت بھی مسلم لیگ تھی اور آخری بھی۔ان کے شوہر حمید صاحب مسلم کانفرنس سے تعلق رکھتے تھے‘ سردار سکندر حیات سے اُن کا یارانہ تھا‘مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ ایک زمانے میں ایک ہی سکے کے دو رُخ تھے۔مسلم لیگ کشمیر میں پہنچ کر مسلم کانفرنس بن جاتی تھی اور مسلم کانفرنس پاکستان میں مسلم لیگ کی آواز سمجھی جاتی تھی‘ چند برس پہلے دونوں کے راستے الگ ہوئے لیکن دونوں کے کارکن اب بھی ایک دوسرے کو اپنا سمجھتے ہیں۔ حمید صاحب اور اُن کی اہلیہ بھی ایک دوسرے کی طاقت بنے رہے۔اُن کا تعلق ملتان سے تھا لیکن چہرے مہرے اور ڈیل ڈول سے وہ کشمیری دکھائی دیتی تھیں‘انہیں بھی کئی لوگ کشمیری النسل ہی سمجھتے تھے۔ اس سے کوئی فرق اُن کو پڑنے والا نہیں تھا کہ اُن کی سیاست میں تو پورا پاکستان ایک اکائی تھا‘ کشمیر پاکستان کا تھا اور ہے‘ پاکستان کشمیر کا تھا اور رہے گا۔
نجمہ ملتان کے ایک صنعتکار سید محمد شاہ کے گھر 18مارچ 1944ء کو پیدا ہوئیں۔ شاہ صاحب کی سات بیٹیاں تھیں‘ نجمہ اور طاہرہ نے سیاست میں نام پیدا کیا۔ طاہرہ کی شادی مری کے لینڈ لارڈ راجہ کالا خان کے بیٹے اورنگزیب سے ہوئی وہ بھی مسلم لیگ(ن) سے جڑی ہوئی ہیں اور قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔اُن کی بیٹی مریم اورنگزیب وزیر اطلاعات ہیں اور اپنے دو ٹوک مؤقف اور دبنگ لہجے سے پہچانی جاتی ہیں۔ نجمہ حمید مسلم لیگ(ن) کے شعبہ خواتین کی سربراہ تھیں‘ چند برس پہلے بیماری کی وجہ سے مستعفی ہوئیں لیکن اُن کی جگہ ابھی تک کسی کی تقرری عمل میں نہیں آئی۔
جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو گرفتار کر کے اُن پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ کھڑا کیا گیا تو محترمہ کلثوم نواز میدان میں نکل آئیں۔ نجمہ حمید اُن کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی رہیں اور ان کا گھر بحالی ٔ جمہوریت کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔کلثوم نواز انہیں سگی بہن کی طرح پیار کرتی تھیں۔کچھ عرصہ پہلے انہیں ایسی بیماری لاحق ہوئی کہ یاد داشت متاثر ہو گئی لیکن وہ اپنے مداحوں کے دل سے محو نہیں ہوئیں۔اُن کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور اب بھی دور دور سے تعزیت کے لیے لوگ اُن کے ہاں پہنچ رہے ہیں‘اُن کے شوہر‘ اُن کے بیٹوں‘ اُن کی بہن اور اُن کی بھانجی سے اُن کی یادیں شیئر کرتے ہیں۔ نجمہ حمید اُن سیاست دانوں میں سے تھیں جن کے نزدیک سیاست خدمت کا نام ہے۔ مریم اورنگزیب فخریہ یہ بات بار بار سناتی ہیں کہ نواز شریف صاحب کہتے ہیں: ''ان سے مرحومہ نے کبھی کسی ذاتی کام یا فائدے کے لیے کوئی درخواست نہیں کی۔وہ جب بھی بات کرتیں‘ لوگوں کے مسائل بیان کرتیں‘انہیں ریلیف دلوانے کی کوشش کرتیں‘ انہیں آسانیاں فراہم کرنے پر زور دیتیں۔اُن کی زبان پر کبھی ذاتی حوالے سے کوئی حرفِ سوال نہیں آیا۔نواز شریف سے اُن کے تعلق کا یہ عالم تھا کہ جب اسلام آباد کے ممتاز اخبار نویس نواز رضا اُنہیں ملتے تو وہ اُن سے مخاطب ہو کر کہتیں‘ نواز شریف میرا لیڈر ہے تو نواز رضا میرے لیڈر کا ہم نام۔اس نام والا شخص مجھے اچھا لگتا ہے‘پھر بڑی بہن کی طرح اُن کی بلائیں لیتی اور انہیں بھائی‘ بھائی کہتے نہ تھکتیں۔میری اُن سے جب بھی ملاقات ہوئی‘انہوں نے اپنائیت سے بات کی‘ وہ اہل ِ صحافت کی کروٹوں سے بخوبی واقف تھیں‘ اس لیے اپنی بات کا پہرہ دینے والے اُن کے نزدیک خصوصی قدر و منزلت کے مستحق ٹھہرتے۔
نجمہ حمید نے اپنی محنت اور استقامت کی بدولت اپنا نام اور مقام بنایا۔وہ اپنے شوہر یا کسی دوسرے عزیز کے حوالے سے ممتاز نہیں ہوئیں۔انہیں کسی کی بہن‘ بیٹی یا بھتیجی ہونے کی وجہ سے ٹکٹ نہیں ملا۔اُن کی اپنی کارکردگی نے اُن کا سکہّ چلایا اور جمایا کہ اپنی بات پر قائم رہنا اُن کے نزدیک عبادت تھا۔
ایک سماجی کارکن کے طور پر اپنے آپ کو منوایا‘بلدیاتی انتخابات سے سیاست کا آغاز کیا‘صوبائی اور قومی سطح تک پہنچیں۔ انہوں نے خواتین کو بااصول سیاست سے وابستگی کا سبق سکھایا۔ وہ 78 سال اس دنیا میں گزار کر ر خصت ہوئی ہیں تو ہر سیاسی کارکن نے اُن کا غم محسوس کیا ہے۔سیاسی جماعتوں میں محاذ آرائی اگرچہ زوروں پر ہے‘سیاسی کارکن اکثر ایک دوسرے سے الجھتے نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے لیڈر کی محبت میں دیوانے ہو کر وہ اپنے مخالفین کو زندہ رہنے کا حق دینے پر تیار نظر نہیں آتے۔عمران خان ہوں یا اُن کے مخالف ایک دوسرے کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ یہ بات بھلائی جا رہی ہے کہ ملک سب کا ہے‘سب کو اس میں رہنا ہے۔سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے سے جمہوریت توانا نہیں ہو سکتی۔ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ(ن) اور اُن کے متعلقین و لواحقین سب کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔لوگوں کی بڑی تعداد جس کی ہم نوا ہو جائے‘اُسے حکومت مل جانی چاہیے لیکن جس کے حصے میں اپوزیشن کے بینچ آئیں گے‘ اُس کے بھی بنیادی حقوق موجود رہیں گے۔ اسے اپنی بات کہنے کا حق حاصل رہے گا۔ایک دوسرے کے خون سے پیاس بجھانے کی آرزو پانے والے بالآخر اپنے خون سے نہلا دیے جاتے ہیں۔ آپا دھاپی‘ نفسا نفی‘ اورکٹھ حجتی کے اس عالم میں نجمہ حمید رخصت ہوئی ہیں تو سب اُن کی طرف متوجہ ہوئے ہیں‘انہیں یاد آیا ہے کہ وہ ایک ایسی سیاسی کارکن تھیں جس کی زبان سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوئی‘ہر سیاسی جماعت کے رہنما اور کارکن اُن کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں‘اُن کی تعزیت کے لیے آ رہے ہیں اور اُن کے لواحقین کو پرسہ دے رہے ہیں۔اُن کی موت سے پیدا ہونے والے خلا کا احساس کر رہے ہیں اسے پورا کرنے کی اہمیت کا ادراک کر رہے ہیں۔مرحومہ کو اللہ اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے‘وہ لڑتے بھڑتے سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو آدابِ زندگی سکھاتی رہیں۔ اختلاف کرو لیکن دشمنی نہ پالو‘اپنی بات پر جمے رہو لیکن اپنے مخالف کی بات بھی توجہ سے سنو۔پاکستان کو آج جوڑنے والوں کی ضرورت ہے‘توڑنے والوں کی نہیں۔بے شک نجمہ حمید دلوں کو جوڑنے والی تھیں‘ سب کی آپا‘ نجمہ آپا۔وہ ایک مثالی مسلم لیگی تھیں۔ اپنی جماعت کا پرچم بلندکرنے میں لگی رہیں‘اُسے مضبوطی سے تھامے کھڑی رہیں۔اُن جیسے سچے‘ پکے اور کھرے مسلم لیگی باآسانی دستیاب نہیں ہیں لیکن انہیں ڈھونڈنے‘ اُن کی حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے‘ایک مسلم لیگ کیا‘ ہر جماعت کو ایسے کارکن اور رہنما درکار ہیں جو سب کے درمیان پُل بن سکیں ۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved