تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-12-2022

میڈم مبینہ طلعت سے شیریں مزاری تک

لندن سے دوست ناصر کاظمی آئے ہوئے تھے۔
وہ ہر سال دسمبر میں پاکستان کا چکر لگاتے ہیں۔ ایک شاندار اور مہذب انسان۔ دھیمے لہجے میں شاندار گفتگو کرتے ہیں۔ بحث کا سلیقہ سیکھنا ہو تو ان سے سیکھا جائے کہ بغیر جذباتی ہوئے کیسے بات کرنی ہے۔وہ بڑا عرصہ پاکستان میں برٹش کونسل میں اعلیٰ عہدے پر کام کرتے رہے ہیں۔وہ اسلام آباد میں پلے بڑھے‘ یہیں تعلیم پائی اور یہیں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ اسلام آباد میں ان کے کئی سکول‘ کالج اور یونیورسٹی دور کے کلاس فیلوز اور ذاتی دوست صحافت میں ہیں۔اب لندن ایک عالمی ادارے میں کام کرتے ہیں۔ پچھلے سال بھی دسمبر میں آئے تھے۔ اُس وقت ارشد شریف ہمارے ساتھ تھا۔ اسی لان کی دھوپ میں بیٹھ کر ہم تینوں نے لنچ کیا تھا۔ ارشد اور ناصر کاظمی کا بہت پرانا تعلق تھا‘ دونوں قائداعظم یونیورسٹی سے پڑھے اور دونوں کی استاد شیریں مزاری تھیں۔ اس لنچ کے بعد اگلی رات میرے گھر پر ناصر کاظمی‘ ارشد شریف اور ضمیر حیدر اکٹھے تھے۔ناصر کاظمی بھی ہم سب کی طرح ارشد شریف کے شاکنگ قتل پر افسردہ تھے۔ کہنے لگے: ایک سال پہلے یہیں ہم تینوں بیٹھے تھے۔پھر اگلی رات تمہارے گھر پر محفل جمی تھی۔ ناصر کاظمی کہنے لگے: ارشد شریف دوستوں کی محفل میں زیادہ تر خاموش اور مسکراتا رہتا۔ اس سے بہتر listner شاید ہی کوئی ہو۔ وہ گھنٹوں آپ کو سن سکتا تھا۔
میں نے ناصر کاظمی کو بتایا کہ میں اکثر ارشد کو کہتا تھا کہ اتنی برداشت کا مظاہرہ نہ کیا کرو‘ کچھ بول دیا کرو‘دل ہلکا کر لیا کرو‘ اتنا کچھ اپنے اندر جمع کرتے رہتے ہو اور پھر کسی دن ہم میں سے کسی دوست کو خوب سناتے ہو۔ ارشد ہنس کر کہتا :میں نے کب کسی دوست کو کچھ کہا ہے۔ اس کی اس ادا پر ہم سب ہنس پڑتے۔ ناصر کاظمی کہنے لگے: لیکن اُس رات ارشد شریف آپ کے گھر تو خوب بولا۔ میں نے کہا: کیونکہ ہم صرف چار دوست تھے لہٰذا وہ موڈ میں تھا اوربولتا رہا اور ہم تینوں سنتے رہے ۔ ناصر کاظمی مجھے کہنے لگے: یار کیا شاندار محفل اُس رات تمہارے گھرجمی تھی۔ اب اس محفل سے ایک دوست اُٹھ گیا ہے۔میں اور ناصر کاظمی خاصی دیر خاموش رہے کہ اب کیا بات کریں۔ آخر ناصر کاظمی نے خاموشی توڑی‘ بات بدلی اور قائداعظم یونیورسٹی میں اپنی استاد شیریں مزاری کی باتیں سنانے لگے کہ جب وہ انہیں پڑھاتی تھیں تو مضامین کا کیا شاندار ایکسپوژر دیتی تھیں۔ کاظمی صاحب بتانے لگے کہ انہوں نے جس طرح اپنے طالبعلموں کو عالمی تعلقات وضاحت کے ساتھ سمجھائے وہ ان کے بڑے کام آئے۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کلاس میں لیکچرز کیلئے اسلام آباد میں عالمی اداروں سے اہم شخصیات کو بلاتی تھیں۔ مشاہد حسین سید جیسے پڑھے لکھے لوگ وہاں لیکچر دینے آتے۔ناصر کاظمی کہنے لگے کہ مشاہد حسین سید کی یادداشت کمال کی ہے۔ میں نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں‘ ایک تو مشاہد حسین گفتگو اور تقریر کا فن جانتے ہیں‘ دوسرے وہ برسوں بعد بھی آپ سے ملیں تو بھی انہیں آپ کی کوئی نہ کوئی پرانی بات یاد ہوگی۔ کوئی آپ سے منسوب واقعہ یا آپ کے کالم یا ٹی وی شو کا فقرہ وہ آپ کو ضرور سنا ئیں گے جس کا مطلب ہو گا کہ میں آپ کو فالو کرتا رہتا ہوں اور آپ میرے لیے اہم ہیں۔مجھے یاد آیا‘ ایک دفعہ میجر عامر کے گھر مشاہد حسین سید سے بیٹھک ہوئی تھی اور انہوں نے ملکی اورغیرملکی سیاست پر کیا گفتگو کی تھی۔ جتنے سیاسی راز اُن کے سینے میں ہیں وہ اگر کبھی کتاب لکھیں تو کیا کیا رنگ جم جائیں۔ مشاہد حسین سید سے ان کی اپروچ پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی ذہانت اور یادداشت پر کوئی اختلاف نہیں۔مشاہد حسین سید محفل کا رنگ جمانے کا فن جانتے ہیں۔
ناصر کاظمی کہنے لگے کہ شیریں مزاری ایسی استاد تھیں جو اپنی کلاس کے شاگردوں کو اسلام آباد میں واقع گھر میں بلا کر ان کے ساتھ پارٹی کرتی تھیں۔ گھر پر باربی کیو کا انتظام کیا جاتا اور دل کھول کر ہم سب شاگرد کھاتے پیتے اور سب انجوائے کرتے۔ ناصر کاظمی اپنی استاد کو یاد کرتے رہے۔ارشد شریف بھی اکثر ہم دوستوں کی محفل میں میڈیم شیریں مزاری کی باتیں بتاتا اور ان کا شاگرد ہونے کے ناتے بہت احترام کرتا تھا۔میں نے اب تک شیریں مزاری کو ان کے سیاسی نظریات سے دیکھا تھا لیکن جو پہلو ناصر کاظمی نے شیریں مزاری کے بتائے وہ قابلِ تحسین ہیں۔ان کی باتیں سن کر مجھے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی اپنی ایم اے انگریزی کلاس کی استاد میڈیم مبینہ طلعت یاد آگئیں۔
یونیورسٹی کا پہلا سال تھا۔ میری والدہ نشترہسپتال ملتان میں آٹھ ماہ داخل رہیں تو میں رات کو ان کے ساتھ رہتا اور دن میں یونیورسٹی جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعداماں فوت ہوگئیں۔ دس بارہ سال کا تھا تو بابا فوت ہوگئے تھے ‘اب بیس سال کا تھا تو اماں چل بسیں۔ دل زندگی سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ اوپر سے پہلا سالانہ امتحان آگیا‘ میں باقی پیپرز میں تو پاس ہوگیا لیکن انگریزی لٹریچر کے پیپر میں فیل ہوگیا جو میڈیم مبینہ پڑھاتی تھیں۔مجھے میڈیم نے اپنے دفتر بلایا اور بتایا کہpoetry کے پیپر میں تمہارے 28 نمبرز ہیں‘ جو وہ پڑھاتی تھیں۔ اُس وقت استاد کے پاس external examinerکے نمبرز کے علاوہ پانچ نمبرز اضافی دینے کا اختیار تھا۔
کہنے لگیں: رئوف تمہیں پانچ نمبرز دے دیتی ہوں تاکہ 33 نمبرز لے کر پاس ہو جائو اور تمہاری باقی کلاس فیلوز کے سامنے سبکی نہ ہو۔ کسی کو پتہ نہیں چلے گا لیکن اس طرح تمہاری ایم اے انگریزی میں سکینڈ ڈویژن نہیں بنے گی اور ساری عمر تمہیں مسئلہ ہوگا کہ تم تھرڈ ڈویژنر ہو۔میں نے افسردہ ہو کر پوچھا کہ پھر آپ کے خیال میں مجھے کیاکرنا چاہئے؟ میڈیم مبینہ بولیں: اگرچہ تمہارے لیے مشکل ہوگا کہ سب دوست پاس ہوں لیکن آپ ایک مضمون میں فیل ہوں ‘ تاہم میرا خیال ہے کہ تمہیں فیل ہو کر دوبارہ پیپر دینا چاہیے۔ کچھ دن تو تم افسردہ رہو گے لیکن تم لانگ ٹرم سوچو۔ وقتی پشیمانی یا شرمندگی سے بچنا ہے یا ساری زندگی کا سوچنا ہے؟میں نے ایک لمحے کیلئے سوچا اور کہا: ٹھیک ہے میڈیم جیسے آپ کہتی ہیں۔میری آنکھوں میں اداسی دیکھ کر میڈیم نے کہا :ہاں کل سے تم میرے گھر یہ مضمون پڑھنے روز آیا کرو گے۔ یوں اگلے تین ماہ میں یونیورسٹی بس پر ہر شام بوسن روڈ پر واقع اُن کے گھر پڑھنے جاتا تھا۔ وہاں میڈیم کے پاس ملتان کے دیگر کالجز اور پرائیویٹ اداروں کے سٹوڈنٹس بھی انگریزی پڑھنے آتے تھے۔ایک دن میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ میڈیم انگریزی مضمون پڑھانے کی کتنی فیس لیتی ہیں؟ جس دن میرا آخری دن تھا اور دو روز بعد اس مضمون کا دوبارہ پیپر ہونا تھا‘ میں نے میڈیم کو تین ماہ کی فیس نکال کر پیش کی۔میڈیم مبینہ کے چہرہ کا رنگ ایک لمحے کے لیے اُڑ گیا۔ انتہائی صدمے بھری آواز میں بولیں: رئوف یہ کیا ہے؟ تمہارا خیال ہے میں نے تمہیں پانچ نمبرز نہ دے کر اس لیے فیل کیا تھاکہ تمہیں ٹیوشن پڑھا کر پیسے کھرے کروں؟میں نے کہا: میڈیم لیکن باقی طالبعلم بھی تو فیس دیتے ہیں۔ وہ بولیں: وہ تمہاری طرح یونیورسٹی کی میری کلاس کے طالبعلم نہیں‘ وہ ملتان کے دیگر کالجز سے آتے ہیں۔ تم اگر میرے مضمون میں فیل ہوئے ہو‘ چاہے وجہ کوئی بھی ہو‘ یہ میری ذمہ داری ہے کہ تمہیں دوبارہ تیاری کرائوں اور تم وہ پیپر اچھی طرح تیار کر کے دوبارہ امتحان دو اور اچھے نمبروں سے پاس ہو۔ میڈیم نے فیس لینے سے انکار کر دیا۔میرے اس پیپر میں 58/100 نمبرز آئے تھے جو بعد میں میری سکینڈ ڈویژن میں مددگار ثابت ہوئے۔
ناصر کاظمی اور میں کافی دیر سے اپنے دو ایسے استادوں کو بیٹھے یاد کررہے تھے جنہوں نے برسوں پہلے ہمیں اپنی قابلیت اور کردار سے متاثر کیا تھا اور انہیں شاید تیس برس بعد یاد بھی نہ ہو کہ انہوں نے اپنے کس کس طالبعلم کو کیسے متاثر کیا تھا اور ان کی زندگیاں بدلنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved