آثار کچھ ایسے لگ رہے ہیں کہ سیاسی لڑائیوں کا ایک اور محاذ کھلنے والا ہے۔یہ محاذ سابقہ ‘موجودہ اور اعلانیہ حریفوں سے الگ ہے اور شاید یہ سیاستدانوں کے لیے سب سے کٹھن بھی ثابت ہو۔یہ نیا محاذ ممکنہ طور پر ق لیگ اور پی ٹی آئی کے اراکین ِصوبائی اسمبلی کی الگ الگ سیاسی پالیسی اور ایک الگ راہِ عمل اختیار کرنے سے بن سکتا ہے اور اس کے آثار واضح سے واضح تر ہوتے جارہے ہیں۔جہانگیر ترین اور علیم خان کے اعلانِ انحراف کے اتنے سیاسی اثرات نہیں تھے جتنے شاید اس ممکنہ سرکشی کے ہو سکتے ہیں۔رواں ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک تازہ انٹرویو زیر بحث رہا ہے۔ اس میں جہاں انہوں نے عمران خان کے ساتھ اور مستقبل میں ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے وہیں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں اختلاف کا پیش خیمہ سمجھنا چاہیے ۔ میرا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے تازہ بیانات‘ انٹرویو اور عمران خان کے نئے بیانات وغیرہ کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ منظر واضح نظر آنے لگتا ہے ۔ اس انٹرویو سے جہاں جہاں جو پیغام پہنچنا چاہیے وہ بظاہر پہنچ بھی گیا ہے۔
پہلا پیغام تو یہ ہے کہ ہم آج بھی غیبی اشارے کے منتظر ہیں۔ قیادت کی تبدیلی ‘ غیر سیاسی ہونے کا اعلان وغیرہ ایک طرف‘ لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب نے انٹرویو میں کئی بار یہی کہا کہ بات کروانے والے آگئے ہیں ناں۔ انتخابات کروانے والے آگئے ہیں ناں۔اور یہ بھی کہ ہمارے تعلقات تو 1983ء سے چلے آتے ہیں ‘ ہم کبھی ساتھ نہیں چھوڑا کرتے۔شریف خاندان کی بار بار بد عہدیوں نے ہمیں الگ راستے پرمجبور کیا ورنہ اٹھارہ سال ہم نے ان کا ساتھ دیا۔ پرویز مشرف کا ساتھ بھی ہم نے نہیں چھوڑا‘آج بھی ہم ان کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔چنانچہ ہم 1983ء سے چلے آنے والے تعلقات کو نبھائیں گے۔ ساتھ نبھانے والے ان دعوؤں کے بیچ میزبان کو یہ سوال پوچھناچاہیے تھاکہ چودھری شجاعت حسین کے ساتھ تمام عمر کا ساتھ کیسے چھوٹ گیا؟ایک ساتھ چلنے والے‘ ایک زبان میں بات کرنے والے ‘ ایک مؤقف رکھنے والے دونوں برادران اپنے اپنے بچوں کی وجہ سے مجبور ہوئے ہوں یا کسی کے اشارے کی وجہ سے لیکن ان کے راستے اس طرح الگ ہوئے کہ لوگ حیران رہ گئے ۔اختلاف سیاسی ہی نہیں ذاتی بھی بن گیا ۔ اگر اس کی کوئی توجیہ کی جاسکتی ہے توپی ٹی آئی سے ممکنہ طور پر راستے الگ کرنے کی تاویلات بھی ہوسکتی ہیں ۔
سچ یہ ہے کہ شریف خاندان اور چودھری پرویز الٰہی میں لاشعوری خلیج ہی ان کے عمران خان کا ساتھ دینے کا بنیادی سبب بنی ہے اور یہی چودھری شجاعت حسین سے جدائی کا اہم حصہ ہے ۔ اس خلیج کو زرداری صاحب بھی ختم کرنے میں ناکام ہوئے۔ شریف خاندان پرویز الٰہی اور پی ڈی ایم میں فاصلوں کی بنیادی وجہ بن گیا۔
ایک اور بات اہم ہے اور وہ یہ کہ چودھری پرویز الٰہی اپنی وزارتِ اعلیٰ میں کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں ۔انٹرویو میں انہوں نے بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پچھلے دور میں پنجاب کا بیڑا غرق کردیا گیا۔ عثمان بزدار کا نام لیے بغیر انہوں نے گویا عمران خان کے اس دعوے کی تردید کی کہ عثمان بزدار نے پنجاب میں بہت کام کیا ۔یہی سچ ہے کہ عثمان بزدار کے سارے دور میں کیے گئے کاموں پر چودھری پرویز الٰہی کے چند ماہ کے کاموں کوبہت فوقیت حاصل ہے ۔
بہرکیف اصل میچ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر پڑنا ہے ۔ عمران خان تازہ بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو اسمبلیوں کی تحلیل پر اعتراضات ہیں اور وہ اس پر خوش نہیں ہیں ۔ ہے بھی یوں کہ کوئی بھی رکن اسمبلی جس کی سیاست کا دارو مدار ہی اس کی سیٹ پر ہے ‘اس سے محروم ہونا کیوں پسند کرے گا؟دوبارہ ٹکٹ ملے یا نہ ملے؟ ٹکٹ مل بھی جائے تو انتخاب جیت سکیں یا نہ جیت سکیں ۔پی ٹی آئی کی حمایت کی قومی لہر اپنی جگہ ‘ ضروری نہیں کہ ہر حلقے اور ہر صورت میں یہ مؤثر بھی ہو۔اس لیے اراکینِ اسمبلی یقینا عمران خان کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں ۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ خان صاحب اعلان اور فیصلہ پہلے کرتے ہیں اور اتحادیوں اور اراکینِ اسمبلی سے مشورے کا خیال انہیں بعد میں آتا ہے ۔ جتنی بے پناہ خود رائی خان صاحب کے اندر سرایت کیے ہوئے ہے‘اس کی موجودگی میں ایسی مشاورت ویسے بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی ۔ پرویز الٰہی صاحب کا مؤقف الگ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حالات بدل رہے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ نہایت سوچ سمجھ کر ‘ اپنے ذاتی حالات اور ملکی صورتحال کو مد نظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔ ان کے الفاظ میں‘ انتخابات میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ زیادہ گالیاں کس نے دی ہیں بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کام کس نے زیادہ کیا ہے اور کام کرنے کے لیے‘ جو کہ ہم نہایت تیزی سے کر رہے ہیں‘وقت درکار ہے ۔ پرویز الٰہی صاحب کا مؤقف یہ معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے الفاظ میں کہہ بھی دیا کہ ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے کہ ہمارے کہنے سے وفاقی حکومت انتخابات کرادے۔ ان کے پاس جو قانونی مدت موجود ہے ‘وہ تو ہے ۔ تو اس وقت کے لیے کام کرکے دکھانا چاہیے تاکہ لوگ ہمارے کاموں کا صلہ دے سکیں۔ دوسرے الفاظ میں اسمبلیوں کی تحلیل کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
یہ بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ اسمبلی کی تحریری سمری پروزیر اعلیٰ دستخط کرکے عمران خان کو دے چکے ہیں ۔ اگرچہ دونوں طرف سے اس کی واضح تصدیق نہیں ہوئی لیکن بظاہر یہ وعدے وعید ہوچکے ہیں ‘ مگر جو صورتحال عمران خان کی صحت کی ہے ‘ اس میں عمران خان چند ماہ تک صحت کی مکمل بحالی کے مرحلے سے گزریں گے‘تو کیا اگلے تین چار ماہ میں وہ اپنی انتخابی مہم بھرپور طور پر خود چلا سکیں گے ؟یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔عمران خان کی موجودگی کے بغیر پی ٹی آئی اس قابل نہیں کہ مؤثر مہم چلا سکے ‘ نہ وہ الیکٹ ایبلز کو اپنی طرف کھینچ سکے گی ۔ خاص طور پر جب تحریک انصاف کی قیادت مقتدر حلقوں کو بھی ناراض کرچکی ہے۔ ایسے میں اگر عمران خان اسمبلیوں کی تحلیل کے اپنے فیصلے پر قائم رہے تو یہ بہت بڑا خطرہ ر ہے گا کہ ان کے اراکینِ اسمبلی اور ان کے اتحادی بھی ان سے دور ہوجائیں ۔ عمران خان صاحب اس وقت اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی پیش کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ وہ مظلومیت اور مقبولیت کی لہر کو اپنے لیے بہت فائدہ مند سمجھ رہے ہیں اور اسی پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کا فوری فائدہ انہیں ملنا چاہیے۔دوسری جانب پرویز الٰہی (ق) لیگ کو پنجاب میں منظم بھی کرنا چاہتے ہیں اور کچھ کارکردگی بھی سامنے لانا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے انہیں ٹیم بھی چاہیے اور وقت بھی ۔اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں وہ اس سے محروم ہوجائیں گے۔
آپشنز چودھری صاحب کے پاس بھی بہت محدود ہیں اور عمران خان کے پاس بھی بہت زیادہ نہیں ۔ وہ ایک دوسرے کے لیے لازمی ہیں مگر ہر قیمت پر نہیں ۔ اپنے حلیفوں کو حریف بنالینے کا جو فن خان صاحب کے پاس ہے‘وہ کتنی دیر انہیں جوڑے رکھے گا۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved