وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے گزشتہ چند دنوں میں تین بار ملاقات کر چکے ہیں۔ اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا تھا کہ اس کا مقصد سیاست نہیں بلکہ معیشت پر بحث کرنا تھا اور وہ صدر مملکت کو قومی معیشت کی صحت کے بارے میں بریف کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت بھی تبصرہ نگاروں کی رائے تھی کہ اس ملاقات کے ایجنڈے میں معیشت کے علاوہ یقینا اور بھی ایشوز شامل ہوں گے۔ تیسری ملاقات کے بعد اب یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ ڈار صاحب صدرِ مملکت کے ساتھ معیشت کے بارے میں تبادلۂ خیال کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجودہ ڈیڈ لاک ختم کرکے آگے کا راستہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ گزشتہ 8ماہ کے دوران میں حالات اور واقعات نے اپوزیشن (پی ٹی آئی) اور حکومت (پی ڈی ایم) کو اس بات کا قائل ہونے پر مجبور کر دیا ہے کہ قوم اس ڈیڈ لاک کے خاتمے کے حق میں ہے اور سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی کا خاتمہ چاہتی ہے۔
اپریل میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کا دعویٰ تھا کہ احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کی شکل میں دباؤ کی حکومت تاب نہ لا سکے گی اور چند دنوں میں گیارہ جماعتوں پر مشتمل اس حکومت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ جب ملک گیر طوفانی جلسوں سے بات نہ بنی تو عمران خان نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر دیا مگر 25مئی اور اس کے بعد 28اکتوبر کو شروع کیے جانے والے دونوں لانگ مارچ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہے۔ اب ان کے پاس واحد آپشن پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کا ہے‘ جسے بروئے کار لا کر وہ حکومت کو ملک میں عام انتخابات پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن عام تاثر یہ ہے کہ اس سے بھی وہ فوری انتخابات کا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح حکومت پر بھی یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ڈیڈ لاک سے پیدا ہونے والی سیاسی غیریقینی سے جہاں ملک کا نقصان ہو رہا ہے وہاں اس کی پاپولیریٹی کا گراف بھی نیچے آ رہا ہے۔ اسی لیے دونوں جانب سے کوئی درمیانہ راستہ ڈھونڈ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صدر مملکت اور وفاقی وزیر خزانہ کی یکے بعد دیگر تین ملاقاتیں انہی کوششوں کا حصہ ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں صدر کی حیثیت غیرسیاسی اور ان کے اختیارات برائے نام ہیں۔ تمام اختیارات وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں کیونکہ آئین کی رو سے وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ صدر کے عہدے پر فائز شخص اگرچہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونے والی جماعت کی طرف سے نامزد ہونے والا امیدوار ہوتا ہے مگر آئین اور پارلیمانی جمہوریت کے مطابق وہ حکومت کا نمائندہ نہیں ہو سکتا لیکن صدر کی یہی غیر سیاسی پوزیشن انہیں غیر معمولی حالات میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے کیونکہ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر‘ ریاست کے سربراہ کی حیثیت میں ان سے تمام سٹیک ہولڈر غیر جانبدارانہ کردار کی امید رکھتے ہیں۔ ان سٹیک ہولڈرز میں وفاقی اکائیاں اور سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں‘ جو باہمی تنازعات کے حل کے لیے دیگر اداروں مثلاً عدلیہ اور مشترکہ مفادات کونسل کے علاوہ صدر مملکت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ بحران میں مختلف سیاسی اور غیرسیاسی حلقوں کی طرف سے اگر صدر عارف علوی سے اپنی آئینی پوزیشن کے مطابق متحارب گروپوں کے درمیان مصالحت کروانے کی اپیلیں کی جاتی رہی ہیں‘ تو اس کی یہی وجہ ہے اور فوج کی طرف سے آئندہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے اور سختی سے آئین اور قانون کے مطابق غیر جانبدار رہنے کا جو عہد کیا گیا ہے‘ اس سے موجودہ سیاسی بحران میں صدر کے کردار کو اور بھی اہمیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ توقع کی جا رہی ہے کہ ماضی اور خصوصاً حالیہ آٹھ ماہ کے واقعات سے سبق سیکھ کر سیاسی پارٹیاں اب مقتدرہ کے بجائے آئینی طریقہ اختیار کرتے ہوئے صدرِ مملکت کے آفس سے رجوع کریں گی۔ بے شک موجودہ پارلیمانی نظام کے تحت سیاسی معاملات میں آخری فیصلہ وزیراعظم کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود موجودہ لیگل فریم ورک کے اندر بھی بعض اہم مواقع پر صدر کے کردار کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ خصوصاً ایسے مواقع پر جب سیاسی قوتوں کے درمیان ڈیڈ لاک ہو جیسا کہ موجودہ صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سربراہِ مملکت (ہیڈ آف سٹیٹ) کے عہدے سے بعض اہم روایات وابستہ چلی آ رہی ہیں۔ تقسیم سے پہلے برٹش انڈیا کے سربراہ کو وائسرائے کہا جاتا تھا اور انہیں وسیع اختیارات حاصل تھے۔ آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں میں سربراہِ مملکت گورنر جنرل کہلانے لگا۔ باقاعدہ آئین کی تشکیل کے تحت کچھ ترامیم کے ساتھ گورنر جنرل کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت وسیع صوابدیدی اختیارات حاصل تھے‘ جن میں وزیراعظم اور اس کی کابینہ کے اراکین کی تقرری اور برخاستگی کے اختیارات بھی شامل تھے۔ 1956ء کے آئین کے تحت ان اختیارات کو محدود کر دیا گیا اور 1973ء کے آئین کے تحت صدر کے اختیارات کو مزید کم کرکے وزیراعظم کو چیف ایگزیکٹو بنا دیا گیا۔ تاہم اب بھی صدرِ مملکت کو بعض معاملات میں اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کا اختیار ہے مثلاً غیر سیاسی عہدے پر متمکن ہونے کے باوجود‘ صدر سیاسی معاملات پر وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے اور اپنی رائے دے سکتا ہے۔ اس رائے پر عمل کرنا یا نہ کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے مگر صدر اپنے عہدے کی بنیاد پر حکومت کی پالیسی اور فیصلہ سازی کے عمل کو غیر رسمی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ اس میں صدر کو کہاں تک کامیابی حاصل ہوتی ہے‘ اس کا انحصار عہدے پر فائز شخصیت پر ہے۔ اگر صدر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد آئین اور پارلیمانی نظام کی روح کے عین مطابق پارٹی پالیٹکس سے بالا تر ہو کر‘ تمام معاملات میں غیر جانبدارانہ اور غیر سیاسی رویے کے ذریعے اپوزیشن کا بھی اعتماد حاصل کر رکھا ہو تو انہیں مصالحتی کردار ادا کرنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔ موجودہ بحران کے ابتدائی ایام میں حکومت کو صدر عارف علوی کے بعض اقدامات پر تحفظات تھے‘ اور اسے شکایت تھی کہ صدر ریاست سے زیادہ اپنی پارٹی (پی ٹی آئی) کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ مگر اب فضا میں بہتری کے آثار رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کا ثبوت وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گزشتہ چند ہفتوں میں صدر کے ساتھ تین بار ون ٹو ون ملاقات ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اسحاق ڈار حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل سب سے بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہبر اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے معتمدِ خاص ہیں اور ان کی مرضی اور وزیراعظم شہباز شریف کی اجازت کے بغیر اسحاق ڈار صدرِ مملکت سے ملاقات پر ملاقات نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شہباز شریف کی حکومت اور صدرِ مملکت‘ جن کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف سے ہے ‘ کے درمیان باضابطہ سیاسی مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ ان مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ابھی اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر ان کا آغاز ایک خوش آئند بات ہے اور اس وقت جبکہ اعلیٰ عدلیہ سیاستدانوں کو کہہ چکی ہے کہ سیاسی مسئلے عدلیہ میں نہ لائیں بلکہ پارلیمنٹ میں حل کریں اور مقتدرہ نے عہد کر رکھا ہے کہ آئندہ سیاست میں حصہ نہیں لے گی‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک ختم کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے صدارت کے علاوہ اور کوئی ادارہ باقی نہیں رہا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کی بظاہر ایک ناقابلِ عبور خلیج حائل نظر آتی ہے مگر یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس پر آمادہ ہوں اور صدر مملکت اپنے عہدے اور مرتبے کے تقاضوں کے مطابق اس میں اپنا کردار ادا کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved