دو بُدھ بھکشو سفر میں تھے۔ چلتے چلتے راستے میں ندی آگئی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک جوان عورت وہاں پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی۔وہ انتظار کر رہی تھی کہ کوئی آئے اور اسے ندی پار کرا دے! دونوں میں سے ایک بھکشو نے اسے اٹھایا اور اٹھا کر دوسرے کنارے لے گیا۔ دونوں بھکشو پھر چل پڑے۔دو دن گزر گئے تو دوسرا بھکشو‘ پہلے بھکشو سے کہنے لگا '' تمہیں اُس جوان عورت کو نہیں اُٹھانا چاہیے تھا‘‘۔ پہلے بھکشو نے اُسے جواب دیا کہ ارے بھائی! تم ابھی تک ندی کے کنارے ہی کھڑے ہو !!
ہم میں سے اکثر لوگ‘ کئی کئی دن‘ کئی کئی ہفتے‘ بلکہ کئی کئی سال‘ ندی کے کنارے کھڑے رہتے ہیں! ایک چھوٹی سی بات دل میں لے کر بیٹھے رہتے ہیں۔ مہینوں‘ برسوں‘ اسے پالتے ہیں یہاں تک کہ وہ بغض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے شخص کو‘ اکثر اوقات معلوم ہی نہیں ہوتا کہ فلاں اپنے دل میں یہ بات لیے بیٹھا ہے اور یہاں اس بات کی وجہ سے صحت پر منفی اثرات پڑنے لگتے ہیں۔ ذرا سوچئے! ایک عورت یا مرد‘ جو ہر وقت کڑھتا رہتا ہے‘ منفی خیالات کی پرورش کرتا رہتا ہے‘ صحتمند کیسے رہ سکتا ہے۔ وہ نفسیاتی کیس بن جاتا ہے اور جسمانی عارضوں میں مبتلا ہونے لگتا ہے!
رذائل بہت سے ہیں۔ رذائل کیا ہیں؟ یوں سمجھیے‘ یہ روحانی بیماریاں ہیں جو جسم کو نہیں‘ روح کو لاحق ہوتی ہیں۔ جھوٹ‘ حسد‘ غیبت‘ خوشامد‘ تکبّر‘ حُبِّ جاہ‘ بدگمانی‘ قسمیں کھانا‘ ریاکاری‘ تجسّس یعنی ٹوہ لگانا‘ عیب جوئی‘ بغض‘ لالچ‘ حرص‘ بخل اور کنجوسی‘ یہ سب رذائل ہیں۔ سب کے سب ضرر رساں ہیں اور مہلک!! مگر تین ان میں سے بطورِ خاص ایسے ہیں جو انسان کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔ اُس کی نفسیات کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسے ذہنی مریض بنا دیتے ہیں یہاں تک کہ جسمانی عوارض بھی اُس پر حملہ کر دیتے ہیں! ان میں بدترین حسد ہے جس کا برا اثر حاسد پر پڑتا ہے اور اسے مار کر رکھ دیتا ہے۔ بسا اوقات ہم حسد کر رہے ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں کر رہے! آپ کے رفیقِ کار کی ترقی ہوتی ہے۔ آپ کے دل میں گرہ سی پڑ جاتی ہے۔ آپ اسے مبارک دیتے ہیں۔ اس کے ہاں سے مٹھائی کھا کر آتے ہیں مگر دل میں خیال آتا ہے اور بار بار آتا ہے کہ میری ترقی نہیں ہوئی تو اس کی کیسے ہو گئی؟ اگر آپ کے بیٹے کی یا بھائی کی ترقی ہوئی ہوتی تو کیا آپ کے یہی محسوسات ہوتے؟ کیا تب بھی آپ دل میں کہتے کہ میری کیوں نہیں ہوئی؟ اگر آپ کو اپنے رفیقِ کار‘ یا دوست کی ترقی پر اتنی ہی خوشی ہوئی ہے جتنی بیٹے یا بھائی کی ترقی پر ہوتی تو اس کا مطلب ہے آپ واقعی حسد نہیں کر رہے! جبھی حکما کہتے ہیں کہ حسد سے بچنا مشکل ہے کیونکہ یہ آہستہ خرامی کے ساتھ آپ کے اندر آجاتا ہے اور آپ کو محسوس تک نہیں ہوتا۔ حسد سے بچنے کے لیے بے نیازی لازم ہے اور یہ یقین بھی کہ آپ کی دیکھ بھال کرنے والا پروردگار آپ سے غافل نہیں ہے۔
رذائل میں دوسری بدترین نحوست چغل خوری ہے۔ وہ چغل خوری جو آپ نہیں‘ بلکہ آپ کے پاس آکر دوسرے کرتے ہیں !! آکر آپ کو بتاتے ہیں کہ فلاں آپ کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا۔ اگر آپ نے ان کی بات پر یقین کر لیا تو بس یوں سمجھیے آپ نے اپنے آپ کو روگ لگا لیا! اب آپ دل میں کڑھیں گے اور سلگتے رہیں گے۔ یہی چغل خور کا مقصد تھا۔ اصل میں اس کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ آپ کا سکون غارت ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ آپ کے اور اُس شخص کے درمیان ناچاقی پیدا ہو جس کی اس نے چغلی لگا ئی ہے۔ سو میں سے نوے‘ پچانوے افراد‘ اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ سلگنا‘ جلنا اور آتشِ غضب میں روسٹ ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی چغلی لگائی گئی اس سے وضاحت مانگے بغیر اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ اُس بیچارے کو معلوم ہی نہیں کہ کسی چغل خور نے افتراق کا بیج بو دیا ہے۔ چغل خور کی کوشش کو ناکام بنانا کسی کسی کا کام ہے! وہ جو کہا گیا ہے کہ خوشامد کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالنی چاہیے تو ہونایہ چاہیے کہ چغل خور کے منہ میں مٹی کے ساتھ کیچڑ اور کنکر بھی ڈالنے چاہئیں۔ میرے دادا جان فرمایا کرتے تھے کہ سب سے پہلے یہ توجیہ کیجیے کہ آپ جو بتارہے ہیں کہ فلاں نے میرے بارے میں یہ کہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں‘ بلکہ یہ ہو گا جو اچھی بات ہے۔ اس توجیہ کو وہ '' گریز‘‘ کا نام دیتے تھے! اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال لیتے ہیں ! ایک شخص آکر مجھے بتاتا ہے کہ بہرام صاحب کہہ رہے تھے کہ اظہار صاحب نے کل کی تقریب میں جو تقریر کی وہ بالکل اچھی نہیں تھی اور بور تھی۔ تو میں اسے جواب دوں گا کہ بہرام صاحب کا مطلب یہ ہو گا کہ عام طور پر میری تقریر بہت اچھی اور دلچسپ ہوتی ہے مگر کل کی تقریب والی تقریر اُس معیار کی نہیں تھی! اگر '' گریز‘‘ کی تکنیک نہ استعمال کر سکیں تو جرأت کر کے چغل خور کو صاف صاف بتائیے کہ منفی باتیں مت پہنچایا کرو اور مت پھیلایا کرو! عین ممکن ہے کہ اس تنبیہ کے بعد چغل خور یہ بری عادت ترک کر دے!
تیسری مصیبت بد گمانی ہے۔آپ نے کسی سے کوئی چیز مانگی۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس یہ چیز نہیں ہے۔ آپ بدگمانی کرنے لگے کہ اس کے پاس ہو گی مگر وہ دینا نہیں چاہتا! ویسے تو ایک کسان نے بدگمانی کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔ اس کے پاس ایک شخص کھوتا مانگنے گیا۔ اس نے جواب دیا کہ اس کے پاس کھوتا ان دنوں نہیں ہے اور اگر ہوتا تو تب بھی نہ دیتا! ہماری خواتین بدگمانی کا بہت شکار ہوتی ہیں۔ گھر کی کوئی چیز نہ مل رہی ہو تو فوراً ملازم یا خادمہ پر الزام لگا دیتی ہیں۔ بعد میں وہ چیز گھر ہی سے مل جاتی ہے۔ بسا اوقات وہ خود ہی بھول جاتی ہیں کہ کہاں رکھی تھی! بدگمانی کی ایک قسم بہت عجیب ہے۔ کوئی صاحب آپ کے پاس اپنے کسی کام سے آئے۔ آپ نے انہیں خوش آمدید کہا مگر دل سے نہیں! دل میں آپ بر افروختہ ہو رہے ہیں کہ اتنا طویل عرصہ تو آیا نہیں‘ کبھی خیریت نہیں پوچھی اور اب کام آن پڑا ہے تو آن دھمکا ہے! یہ بدگمانی ہے اور کچھ کچھ تکبر بھی ! گویا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہیں۔ تب آپ ان کے کام آئیں گے! آپ کو تو اللہ کا شکر ادا کرناچاہیے کہ آپ کو اس قابل کیا کہ کسی کے کام آسکیں اور کسی ضرورتمند کے لیے جائے پناہ بن سکیں ! اگر کسی کو پسند نہیں کرتے‘تب بھی اس کا کام کر دیجیے اور صدقہ سمجھ کر کیجیے۔کل حالات آپ کو بھی کوئی ایسا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کر سکتے ہیں جہاں آپ پہلے کبھی نہیں گئے!
مثبت سوچ میں اپنا ہی فائدہ ہے! بدگمانی‘ دل میں رنجش پالتے رہنا‘ انتقام کی آگ میں جلتے رہنا‘ اعزہ و اقارب سے کسی نہ کسی بات پر ناراض ہی رہنا‘ معاف نہ کرنا‘ یہ سب وہ رذائل ہیں جو جسمانی صحت کے لیے بھی مہلک ہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے طویل ریسرچ کے بعد واقعاتی شہادتوں سے ثابت کیا ہے کہ ایسے خواتین و حضرات کی عمر اُن لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے جو معاف کر دیتے ہیں اور دل صاف رکھتے ہیں !!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved